احمد پور شرقیہ ٹینکر حادثہ جو بعد ازاں ایک قومی سانحہ
میں تبدیل ہوگیا ۔جس نے پارا چنار ،کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردانہ
کاروائیوں کو پس پشت ڈال دیا۔اس سانحہ میں اب تک 164 افراد جاں بحق ہوچکے
ہیں اور ممکنہ طور پر اس میں اضافے کے امکانات ہیں ۔اس سانحہ کے بعد روایتی
طور پر اپوزیشن نے ساری ذمہ داری حکومت وقت پر ڈال دی۔جبکہ حکومت نے بھی
روایت کے مطابق ہی ایکٹ کرتے ہوئے امدادی سرگرمیوں اور امدادی اعلانات کر
ڈالے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف عملی اقدامات کیلئے جائے وقوعہ پر پہنچے
جبکہ وزیر اعظم برطانیہ کا نجی دورہ مختصر کرکے جائے حادثہ اور زخمیوں کی
عیادت پر پہنچ گئے وفاقی اور صوبائی حکومت کی چابکدستی کی وجہ سے اپوزیشن
کو مزید حملے کا موقع نہیں مل سکا لیکن پھر بھی جنوبی پنجاب کے استحصال کا
معاملہ اجاگر کیا گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت وقت یا گذشتہ حکومتوں کی ترجیح کبھی عوام
لناس کے بنیادی مسائل نہیں رہی ۔اب تک آنے والی تمام حکومتیں وہ سویلین ہوں
یا فوجی ،عوام سے وعدے کرکے آئی ہوں یا اقتدار پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد
وعدے کیے ہوں ۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے آئی ہوں یا ترقی کے وعدوں پر قائم
ہوئی ہوں ۔عوام کے مسائل حل نہ ہونے سے بری الزمہ نہیں ہیں ۔ آج کی اپوزیشن
کے سرخیل ہوں یا وفاقی و صوبائی حکومت کے کرتے دھرتے کوئی بھی اس جرم سے
الگ نہیں شاہ محمود قریشی کی میڈیا سے بات چیت انکے ماضی میں کئی بار وزیر
رہنے کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے پر پردہ نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی شیخ
رشید کی لچھے دار باتیں انکے اقتدار میں رہنے کو فراموش کر سکتی ہیں ۔پیپلز
پارٹی تو دعوے دار ہی جنوبی پنجاب کے ووٹوں کی ہے لیکن اسکے اقتدار میں بھی
جنوبی پنجاب کے وزیر اعظم سے بھی تبدیلی ممکن نہ ہوسکی ۔ لہذا یہ سوال تو
کسی پر بھی فٹ نہیں آسکتا کہ کون کون اسکا ذمہ دار ہے ۔
میں یہ ماننے کیلئے بھی تیار نہیں کہ مفت تیل حاصل کرنے کی وجہ غربت تھی ۔
ہائی وے پر رکنے والی گاڑیاں اور انکی جانب سے تیل لینے کی کوششیں صرف
غرباء کی نشاندہی تو نہیں کرتیں۔ہم یہ نظارے شہروں میں کرتے رہے ہیں ۔سڑکوں
پر ٹریفک کے بے ہنگم ہونے میں صرف سائیکلوں،موٹر سائیکلوں،ریڑھی بانوں،گدھا
گاڑیوں، یا ٹرکس اور لوڈنگ گاڑیوں کا ہی قصور نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی
چمکیلی گاڑیاں بھی لائینیں توڑتی،رانگ سائیڈ چلتی ،ٹریفک جام کی ذمہ داری
اٹھاتی نظر آتی ہیں ۔ کبھی بڑے بڑے سپر اسٹوروں،پوش علاقوں کی مارکیٹوں،یا
بڑے ریسٹورانٹس کے پاس مشاہدہ کرلیا جائے وہاں بھی ایسا ہی نظارہ ملے گا ۔
ہم من حیث القوم جہالت کی ریس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔بارشوں کا
سیزن شروع ہورہا ہے پورے ملک میں بارشوں میں بجلی کے کرنٹ،پھسلن سے ہونے
والے حادثات،گھروں کی دیواروں کے گرنے سے ہونے والی اموات کے علاوہ پہاڑی
علاقوں میں گاڑیوں کے کھائی میں گرنے سے ہونے والی اموات کو بھی نظر میں
رکھ کر سوچیے کیا مہذب دنیا میں بھی اتنے ہی جاں لیوا حادثات ہوتے ہیں؟
احمد پور شرقیہ کے سانحہ کا جائزہ لیں تو آگ لگنے تک موٹر وے پولیس،ٹینکر
ڈرائیور،وہاں سے گذرنے والی گاڑیاں،بڑے بڑے ٹینکر یا علاقہ پولیس اور
انتظامیہ سمیت کوئی بھی اسے ایمر جنسی سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھا اور جب
ایمر جنسی بنی تو سب کچھ لُٹ گیا ۔لمحوں میں ہر چیر آگ کی لپیٹ میں آگئی
۔اگر اس دوران کتنی ہی جلدی کاروائی کی جاتی کچھ بھی نہیں بچتا ۔ ٹینکر
الٹنے،پیٹرول بہنے اور آگ لگنے کے دوران تقریباً ایک گھنٹے کا فرق بتایا
جاتا ہے ۔ابتدائی طور پر موٹر وے پولیس،ٹینکر ڈرائیور کا بیان تھا کہ ہم نے
عوام کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن تعداد کی وجہ سے ناکام رہے۔اب خبر آئی ہے کہ
ڈرائیور بھی جاں بحق ہوگیا ۔اسکا مطلب یہ ہے کہ ڈرائیور بھی یہ یقین کر
بیٹھا تھا کہ کوئی حادثہ نہیں ہوا۔
یہ سارا معاملہ ہماری مجموعی بے حسی اور کم علمی کا نتیجہ ہے ۔ اس کم علمی
اور بے حسی کا مظاہرہ کہیں بھی ہوسکتا ہے ۔مختلف حادثات میں اسکا مشاہدہ
ہوتا ہے ۔سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں جس طرح ایمبولینیں رش کرتی ہیں ۔جس
طرح ایک ہجوم جمع ہوجاتا ہے ،دہشت گردانہ کاروائیوں کے بعد جس طرح ہجوم
امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتا ہے،( ابھی پار چنار کا دوسرا دھماکہ جمع
ہونے والے لوگوں کے درمیان ہوا)۔جس طرح ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر حملے کیے
جاتے ہیں ،شہروں میں اکثر الیکٹرک ٹرانسفارمر پھٹ جاتے ہیں کبھی ان میں سے
بہتا تیل لیجاتے ہوئے بھی دیکھا جائے( کہا جاتا ہے کہ یہ پکا ہوا تیل جوروں
کے درد میں اکثیر ہے) ۔یہ واقعات تو شہروں میں ہی ہوتے ہیں ۔ بنیادی طور پر
موت و زندگی جانب اﷲ سمجھ کر ہم حفاظتی تدابیر کو سرے سے مانتے ہی نہیں
۔وقتی مفاد کا معاملہ بھی ہمیں ساری احتیاطی تدابیر کو فراموش کروانے میں
معاون بنتا ہے۔ٹریفک کا بے ہنگم ہونا ہر گاڑی والے کی پہلے نکلنے کے مفاد
میں ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سانحہ سے بہت کچھ سیکھنے اور عوام کو سکھانے کی ضرورت
ہے ۔پیٹرول ایسا کیمیکل ہے جس کے بہنے کا مطلب اس پورے علاقے میں اسکے
فیومز کی موجودگی ہے جو خود بھی آگ پکٹرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ یقیناً یہ
تربیت تو ڈرائیور کو بھی نہیں دی گئی ہوگی اور نا ہی دی جاتی ہو گی کہ اس
طرح کے حالات میں کیا کیا جائے گا ۔ یا کس کس محکمے کو فوری اطلاع دی جانی
چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ موٹر وے پولیس کو بھی اتنی تربیت نہیں دی گئی ہوگی۔
موٹر وے پولیس کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بہتے پیٹرول کے ٹینکر کے پاس
سے معمول کی ٹریفک کو ہی دور کردیں ۔چونکہ ہر اسٹارٹ گاڑی گذرتے ہوئے ممکنہ
آگ لگانے کا باعث بن سکتی تھی۔ پولیس تو ویسے بھی جرم اورحادثے کے بعد ہی
پہنچنے کا ریکارڈ رکھتی ہے ۔
آئیے الزام در الزام سے آگے بڑھیے اور کوشش کیجئے کہ آئیندہ ایسے اور دیگر
متوقع حادثات سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات سے روشناس کروانے کیلئے کام
کریں۔اس قسم کے سانھات اور حادثات سے اداروں کی برقت امداد کی بجائے عوام
کو علم سے بہرہ مند کرکے زیادہ محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
|