زراعت اور لائیوسٹاک پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی
ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے آبادی کی اکثریت
اس سے وابستہ ہے۔خوارک انسان کی سب سے بنیادی ضرورت ہے ۔ ایک کہاوت ہے کہ
پیٹ خالی ہو تو سب باتیں بے کار ہوتی ہیں۔روٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے
بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھنے کے بعد دعا
کی کہ اے میرے رب یہاں بسنے والوں کوفراخی رزق عطا کرنا۔ اس کرہ ارض پر
انسان کی بقاکا دارومدار زراعت ہے لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ عالمی سطح
پر جس پیشہ کو لوگ سب سے زیادہ چھوڑ رہے ہیں وہ زراعت کا ہی شعبہ ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک زرعی شعبہ کے لئے مراعات اور سہولتیں مہیا
کرتے ہیں۔ یورپی یونین ہر سال ایک خطیر رقم زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبہ
میں بطور امداد کسانوں کو دیتی ہے ۔ کچھ امداد تو روایتی وراثت کی دیکھ
بھال کے لئے بھی دی جاتی ہے جس کی تفصیلات کا مجھے خود اندازہ ہوا جب کچھ
عرصہ سویڈن میں اس شعبہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ زرعی شعبہ میں بڑھتی
ہوئی پیداواری لاگت نے کسانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک طرف کسان پٹواری
کلچر اور افسر شاہی کے ہاتھوں خوار ہورہے ہیں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں
کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے۔کھاد، کیڑے مار ادویات اور بیج من مانی قیمتوں
پر فروخت ہورہے ہیں۔ پینسلین کا ٹیکہ جو پچاس روپے میں ہونا چاہیے وہ ایک
ہزار روپے تک فروخت ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت پاکستان کسانوں کے مسائل
کو حل نہیں کرنا چاہتی یا پھر اسے اس کا ادراک ہی نہیں۔ اضافی ٹیکس،
اخراجات میں اضافہ، امدادی رقوم میں کمی اور پیداوار کی فروخت میں مسا ئل
کسانوں کی کمر توڑ رہے ہیں اور وہ سراپا احتجاج ہیں۔ ایک صنعت کار تو اپنی
صنعت کو ملک سے باہر بھی منتقل کرسکتا ہے لیکن ایک کسان اپنی زمین کا ٹکڑا
کہیں نہیں لے جاسکتا۔ پاکستان کے پڑوس میں چین اور بھارت میں کسانوں کو بہت
سی مراعات دی گئی ہیں جس وجہ سے پیداری لاگت کم ہوگئی ہے اور اب کم قیمت پر
اپنی اجناس پاکستان برآمد کررہے ہیں جس سے ہمارے کسانوں کو اور نقصان
ہورہاہے۔ کسانوں کا ایک اور بہت بڑا ستحصال آڑھتی Middle Man کرتے ہیں جوان
کے منافع کا ایک بڑا حصہ اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ کسانوں کو ان سے نجات
دلاتے ہوئے پیداوار کی خرید کا جدید نظام اپنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی زراعت کو اور بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔ زرخیز زمینیں بڑھتی ہوئی
رہائشی کالونیوں اور صنعتی اداروں کی نذر ہونے سے زیر کاشت رقبہ کم ہورہا
ہے ۔صنعتی فضلہ کے ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں جس کی وجہ سے زیرزمین
پانی میں مضر صحت دہاتوں کی مقدار میں اضافہ ہورہاہے جو فصلوں کے علاوہ
پینے کے لئے صاف پانی کے مسائل میں اضافہ کررہاہے۔ پنجاب میں چاول کی کاشت
کے علاقہ میں پانی میں سنکھیا کا تناسب بہت بڑھ گیاہے جس وجہ سے چاول میں
بھی سنکھیا کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ مضر صحت چاول پھیپھڑوں اور
مثانے کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے ۔ پاکستان کا چاول دنیا بھر میں اپنی
شہرت رکھتا ہے اور اس کی برآمد سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے لیکن اگر
چاول میں سینکھیا کی مقدار کو قابو میں نہ کیا گیا تو ہماری چاول کی
برآمدات بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔ ہمیں اپنی زرعی ٰ تعلیم و تحقیق کے معیار
اور استعداد کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں اس وقت چھبیس
جامعات یا اداروں میں زراعت اور انیس میں امور حیوانات کی اعلیٰ تعلیم دی
جاتی ہے لیکن ہماری کوئی ایک زرعی یونیوسٹی عالمی فہرست میں نمایاں مقام پر
نہیں۔ پاکستان میں بہت سے زرعی تحقیق کے ادارے موجود ہیں جن میں پاکستان
زرعی تحقیقاتی کونسل، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ، NARC اسلام آباد، NIAB
فیصل آباد، NIFA فیصل آباد، NIBGEفیصل آباد، زرعی تحقیقاتی مرکز کوئٹہ اور
چند دیگر تحقیقاتی مراکز شامل ہیں۔امور حیوانات کے شعبہ میں VRIلاہور،
PRIراولپنڈی ، VRI پشاور، BRI پتوکی، LPRI بہادرنگر، خیری مورت، رکھ خیرے
والا، جابا شیپ فارم مانسہرہ وغیرہ شامل ہیں۔ان تحقیقاتی اداروں کی
کارکردگی کا جائیزہ لینے اور یہاں ہونے والی تحقیق کو عالمی معیار کا بنانے
کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس سے ملکی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکے۔
صوبائی سطح پر محکمہ زراعت اور لائیوسٹاک بھی موجود ہے لیکن انہیں روایتی
بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے عالمی معیار کے پیشہ وارانہ
ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ ان تمام امور کا جائیزہ لے کر ایک قابل عمل اور
مربوط زرعی پالیسی کی ضرورت ہے بصورت دیگر ہم اپنی خوراک کے لئے بھی دوسروں
کے دست نگر ہوتے جائیں گے۔ میانوالی کی تحصیل عیسی ٰ خیل کسان مبینہ طور پر
صوبائی وزیر آبپاشی امانت اﷲ خان شادی خیل اور انکے بھائی رکن قومی اسمبلی
عبید اﷲ خان شادی خیل کی جانب سے سیلابی نالے ‘‘ بڑوچ‘‘ کا پہلے سے منظور
شدہ نقشہ تبدیل کر کے اس کا رخ آبادی والے قصبوں مہرشاہ والی، سمندوالہ اور
جنتی والہ کی طرف موڑنے پر سراپا احتجاج ہیں۔غریب عوام در بدر ٹھوکریں
کھانے پر مجبور ہے اور لوگوں نے سیکرٹری محکمہ آبپاشی، ڈی سی او
میانوالی،چیف سیکرٹری پنجاب، چیف کمشنر سرگودھا اور چیف انجنیئرمحکمہ
آبپاشی سرگودھا کو درخواستیں بھی ارسال کی ہیں لیکن اس کاکوئی خاطر خواہ
نتیجہ نہیں نکلا۔ اگر ان غریب کسانوں کی زمینیں نالہ برد ہوگئیں اور ان کے
کھیت برباد ہوگئے تو وہ فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب
شہباز شریف کو صورت حال کا نوٹس لے کر کسانوں کی داد رسی کرکے حقیقی معنوں
میں خادم اعلیٰ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ زرعی یونیوسٹی فیصل آباد نے اپنے
چھ طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرکے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دور
کی یاد تازہ کردی۔ اس دور میں راقم اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اس
وقت کئی طلباء کو یونیورسٹی سے نکالا گیالیکن آج کے جمہوری دور میں ایسے
اقدامات ناقابل فہم ہیں اورحکومت پنجاب کو اس معاملہ میں مداخلت کرنی چاہیے۔
زرعی یونیورسٹی سیکورٹی کی طرف سے میڈیا کے نمائدگان پر تشدد قابل مذمت ہے
اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
|