ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا نے مختصر سے وقت میں ترقی کی بلند
ترین سطح کو چھو لیا ہے۔لفظ ذرائع ابلاغ یا میڈیا معلومات کی ترسیل کے تمام
ذرائع کا مجموعہ ہے جن کے توسط سے ہم اپنا نقطہ نظر ، اپنی بات، اپنے
خیالات اور اپنی فکر دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ان ذرائع ابلاغ میں
الیکٹرونک(برقی) میڈیا یعنی ٹیلی فون بشمول سیل فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور
انٹر نیٹ شامل ہیں ۔ ان سب میں برقی میڈیا نے اپنے آپ کو مقبولیت کی صف میں
سب سے آگے لاکھڑا کیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جس
میں اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے میں برقی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
انٹر نیٹ کے ذریعہ سماجی ویب سائٹس ، موبائل ایس ایم ایس، فیس بک، ٹیوٹر،
اسپیس، گوگل پلس، ڈگ اور دیگر انٹر نیٹ سے جڑے ہوتے ہیں۔ ویب سائٹس سوشل
میڈیا میں معروف اور مقبول الیکٹرانک میڈیا ذریعہ ہے جس نے پوری دنیا کو
ایک گاؤں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ راہ و رسم،دوستی ، تعلقات ، رکھ رکھاؤ،
لکھنا پڑھنا غرض سب کچھ سمٹ کر سوشل میڈیا میں مرکوز ہوکر رہ گیا۔ قطعہ نظر
اس بات کہ اس کے فوائد کس قدر ہیں اور نقصانات کی کیا صورت ہے اس ذرائع نے
ہر دوسرے فرد کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس کا منفی پہلو یہی کیا کم ہے کہ
ہم اپنے ہی گھر میں آمنے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے سیل پر
فیس بک سے مزے لینے میں مصروف ہوتا ہے، بچے کارٹون دیکھنے میں مگن ہوتے
ہیں۔ اپنے اہل خانہ کو عید کی مبارک باد بعد میں دیتے ہیں فیس بک کے دوستوں
کو دو دن قبل ہی عید مبارک، عید مبارک کے حسین و جمیل پیغامات وائرل کررہے
ہوتے ہیں۔ یہاں میرا موضوع انٹرنیٹ کی اچھائیاں اور برائیاں گنوانا نہیں
بلکہ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ’’شہکار‘‘ کی کارگزاری کا جائزہ لینا ہے جسے
سو شل میڈیا کی دنیا میں نمودار ہوئے ابھی صرف 30ہوئے ہیں۔ اس مختصر سے
عرصے میں شہکار اپنی توجہ سوشل میڈیا کے لکھاریوں، ناظرین و استعمال
کننداگان کی جانب مبذول کرانے میں کامیاب و کامران دکھائی دیتا ہے۔
’شہکار‘کی تیس دن کی کہانی کو قلم بند کرنے یا اس پر کچھ لکھنے کی وجہ اس
ویب سائٹ کے مبدع و مُختررضا شاہ جیلانی ہیں ۔ جنہوں نے شہکار پر قلم درازی
کی دعوت دی ، میں ایک معروف سوشل ویب سائٹ ’ہماری ویب‘کے علاوہ کئی ویب
سائٹ سے وابستہ ہوں ۔میں نے شہکار کی ٹیم کو مخلص اور کچھ کر گزنے والا
پایا۔ اس لیے نہیں کہ میری تحریریں شہکار کی ذینت بنیں بلکہ حقیقت میں یہاں
سچائی، کام کرنے کی لگن، ادب و احترام دکھائی دیا ۔ شہکار کو دنیا میں آئے
عید کے دوسرے دن ایک ماہ ہوجائے گا۔ یہ تحریر فرمائشی پروگرام ہے۔ لکھاریوں
کو اس قسم کی فرمائشوں کا سامنا رہتا ہے اور وہ انہیں پورا بھی کیا کرتے
ہیں۔ جیسے شاعر فرمائش پر غزلیں ، نظمیں ، قصیدے، سہرے وغیرہ کہتے ہیں۔
فرخندہ لودھی مرحوم معروف افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں ان کے شوہر
پروفیسر صابر لودھی خاکہ نگار تھے۔ دونوں سے میرے ادبی مراسم تھے۔میں نے
فرخندہ کا خاکہ لکھا جو میری خاکہ کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ میں
شامل ہے جب کہ پروفیسر صابر لودھی کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ فرخندہ نے
اپنے شوہر صابر لودھی کے بارے میں لکھا کہ ’’ کیا خوب خاکے لکھتے ہیں بلکہ
فرمائشی خاکہ نگار ہیں۔دوستوں کے اصرار پر ان کا خاکہ لکھ دیتے ہیں، خاکہ
اڑانے سے احتراز کرتے ہیں ،قلم کو ایسا کنٹرول میں رکھ کر چلاتے ہیں کہ
خاکہ لکھوانے والا باغ باغ ہو جاتاہے اور اپنے حلقہ احباب میں دکھاتا،
سناتا پھر تا ہے۔ اب ان کی خاکہ نگاری کی دھوم کچھ اس انداز سے مچی ہے کہ
دوردور سے خاکہ لکھوانے کی فرمائشیں اور سفارشیں آنے لگیں ہیں‘‘۔ فیس بک پر
لکھنے والی خاتون مصنفہ مہر افروز نے ابھی اپنے کسی مضمون کے بارے میں لکھا
کہ یہ انہوں نے کسی کی فرمائش پر تحریر کیا ہے۔ اس تحریر فرمائش ہر جو لکھی
گئی لیکن اس میں میری رضا کے ساتھ ساتھ شہکار کے رضا کی رضا بھی شامل ہے ۔
شہکار کا آغاز تو رضا شاہ جیلانی نے لگتا ہے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کیا
کیوں کہ ان کا پیشہ تو وکالت ہے۔ وکیل عام طور پر سیاست میں زیادہ فعل ہوا
کرتے ہیں ،کبھی کبھی کاروباری بھی اچھے سیاست داں ثابت ہوتے ہیں اور تین
باریوں کے بعد چوتھی باری کے لیے تانے بانے بننا شروع کردیتے ہیں۔یہ سوشل
میڈیا کا دور ہے اب سیاست میڈیا پر زیادہ فعل رہناہوگیا ہے۔ شیخ رشیدتنہا
پارٹی میں سب کچھ ہیں لیکن روز کسی نہ کسی چینل پر لمحہ موجود کے حکمرانوں
کو جو ان کے ماضی کے ہم نوالہ و ہم پیالہ لیکن آج کے دشمن ہیں کو آڑے ہاتھو
ں لے رہے ہوتے ہیں۔ رضا شاہ جیلانی صحافت کے پیشے سے وابستہ رہ چکے ہیں
انہوں نے کسی چینل پر اور اخبار میں بھی خدمات انجام دیں۔ لکھنے کا شوق بھی
ہے۔ وکالت ان کا آبائی پیشہ ہے بالکل اسی طرح کہ جیسے میرے آبا کا پیشہ بھی
وکالت ہی تھا لیکن میں نے تدریس ، تصنیف و تالیف کو اپنا پیشہ بنا لیا۔
شہکار سے پہلے وہ مکالمہ سے وابستہ تھے،اب شہکار میں اپنی مہارت کے جوہر
دکھا رہے ہیں ۔ ایک ماہ قبل انہوں نے ‘شہکار‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ
متعارف کرئی اور لکھاریوں کو اس میں لکھنے کی دعوت دی۔ اس قسم کا کوئی بھی
کام تنہا انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک ٹیم بلکہ مخلص اور ایماندار لوگوں کا
ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ثمینہ رشید جن کا تعلق اب لندن سے ہے کو شہکار کا چیف
ایڈیٹر مقرر کیا ۔ثمینہ رشید کا تعلق کراچی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی
اینڈ پلانٹیشن (SUIT)سے تھا جہاں پر وہ کوآرڈینیٹر کے فرائض انجام دے رہی
تھیں پھرلندن چلی گئیں اور وہیں کی ہورہیں۔ لکھاری ہیں ، کافی عرصہ سے لکھ
رہی ہیں سیاست اور کرنٹ افئیرز ان کے خاص موضوعات ہیں۔ شہکار سے قبل وہ
’مکالمہ‘ اورپھر ’دلیل ‘کا حصہ ہوئیں،ان میں لکھتی رہی ہیں ۔ ’دلیل‘ میں ان
کا ایک مضمون ’دلیل‘ کے ساتھ میرا تجربہ ، تاثرات ، خصوصیات‘ نظر سے
گزرا۔اچھا لکھتی ہیں۔ شہکار کی چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں
مختلف قسم کی ہوگئیں ہیں ، خود لکھنے کے ساتھے ساتھ مضامین کی ادارت بھی ان
کے فرائض میں شامل ہو گیا ہے۔ شہکار کے ایک اور نوجوان ساتھی سرگودھا سے
تعلق رکھتے ہیں، ماس کمیونیکیشن میں ڈگری رکھتے ہیں ۔ ان کا میڈیا میں فعال
ہونا یقیناًمفید ہوگا۔ سرگودھا کا ذکر جب بھی آتا ہے مجھے سرگودھا
یونیورسٹی میں گزارے ہوئے چند ماہ و سال یاد آجاتے ہیں۔ سرگودھا کے لوگ بہت
ملن سار ، محبت کرنے والے ہیں ، میرے فیس بک دوستوں میں اکثریت کا تعلق
سرگودھا سے ہی ہے۔ مجھے سرگودھا یونیورسٹی کو چھوڑے چھ سال ہوچکے لیکن فیس
بک پر میرے دوست اور شاگرد آج بھی محبت ، شفقت اور احترام کا اظہار کرتے
ہیں۔ محمد حسن صاحب یقیناًشہکار کے لیے قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔
شہکار نے بہت ہی مختصر عرصے میں لکھاریوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر لکھنے والے کالم نگار جو دیگر ویب سائٹس پر عرضہ دراز سے لکھ
رہے ہیں اب شہکار پر بھی اپنی شہکار تحریریں پوسٹ کر رہے ہیں۔ میرا تعلق
ہماری ویب سے ہے جو اردو کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ ویزٹ کی جانے والی
ویب سائیٹ ہے۔ ہماری ویب نے آن لائن لکھاریوں کا ’ہماری ویب رائیٹرز کلب ‘
بھی تشکیل دیا ہے۔ میں گزشتہ دو سال سے اس کلب کا صدر ہوں ۔ ہماری ویب کے
کئی لکھنے والے بشمول میرے سید انور محمودصاحب، ارشد قریشی، اعظم عظیم اعظم
شہکار میں بھی لکھ رہے ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر معروف لکھنے والوں میں لالہ
سحرائی، صفدر چیمہ، نجم گوجر، سعادیہ کامران، شہانہ جاوید، مہہ جبیں آصف،
آصف جیلانی، ثمینہ رشید ، محمود سیال اور دیگر شامل ہیں ، رضا شاہ جیلانی
بھی اچھا مزح لکھتے ہیں۔ شہکار کی ترقی لکھنے والوں سے وابستہ ہے، جس قدر
لکھنے والے شہکار کی جانب متوجہ ہوں گے شہکار کو مقبولیت ملے گی، شہکار کے
مقاصد میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہونا چاہیے اور یقیناًہوگی
، نئے لکھنے والوں کو لکھنے کی ترغیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم من حیث
القوم لکھنے پڑھنے سے دور ہوچکے ہیں۔ میڈیا کی آڑ لیتے ہوئے اکثر لوگ کتاب
کو غیر اہم تصور کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب کتاب کی کوئی ضرورت
نہیں۔ میڈیا کس قدر بھی ترقی کر لے کتاب کی اہمیت اور ضرورت کبھی کم نہیں
ہوسکتی۔ سوشل میڈیا پر لکھنے والے کتنی بھی تعداد میں کالم ویب سائٹس پر
پوسٹ کریں ایک نہ ایک دن وہ اپنے کالموں کو کتابی صورت میں محفوظ کرنے کی
منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔میں از خود ان دنوں اپنے ان کالموں کو جو
روزنامہ ’جناح‘ میں شائع ہوئے ’’رشحاتِ قلم‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت دینے
میں مصروف ہوں۔
ویب سائٹس پر معلومات کی فوری اشاعت اور طویل عرصہ تک موجودگی سے انکار
نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس ہی ہیں کہ جنہوں نے
لکھاریوں کو اخبارات و رسائل کے ایڈیٹروں کی منت سماجت اور چاپلوسی سے آزاد
کر دیا ہے۔ اس فکر سے انہیں چھٹکارا مل گیا ہے کہ کالم یا مضمون بھیج
کرطویل عرصہ اس کی اشاعت کا انتظار کرتے رہیں پھر بھی یہ اطلاع ملے کہ’ آپ
کی تحریر قابل اشاعت نہیں‘ حالانکہ وہ تحریر مدیر کے فرشتوں نے بھی نہیں
پڑھی ہوتی۔وہاں اقربا پروری، دوستی، اپنوں کو نوازنے کا بازار گرم ہے۔سوشل
میڈیا پرابھی لکھا اور ابھی میڈیا کے توسط سے کسی نہ کسی ویب پر وائرل
ہوگیا۔ لکھنے والے کی خواہش اور نفسیات ہے کہ وہ اپنی تخلیق خواہ کیسی ہی
کیوں نہ ہو مکمل ہوجانے کے بعد اس کی فوری اشاعت چاہتا ہے خواہ وہ پرنٹ
میڈیا پر ہو یا الیکٹرانک میڈیاپر ۔ الیکڑونک میڈیا اب اسے یہ سہولت فراہم
کرتا ہے ، اس کی خواہش کی تکمیل کرتا ہے اس لیے لوگ برقی میڈیا کی جانب
زیادہ راغب ہورہے ہیں۔
لمحہ موجود میں فیس بک نے تمام ذرائع ابلاغ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ویب
سائٹس نے بھی اپنے آپ کو فیس بک سے منسلک کر دیا ہے۔ مضمون کسی بھی ویب یا
گروپ مثلاً شہکار ، ہماری ویب، مکالمہ، دلیل، دانش، ہماری لگن، علم و ادب
فورم، ندائے وقت، ہماری ویب رائیٹرز کلب، قلم قبیلہ، ورلڈ رائیٹرز، کہانی
گر، ہم سب، سخن ور، فروغ اردو ادب،اردو ادبی یونین یا کسی دیگر ویب پر پوسٹ
ہوتا ہے وہ فیس بک پر بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ان ذرائع پر پوسٹ ہونے والا
مواد گوگل پلس، لنکڈان، پرنٹسٹ ،یو ٹیوب وغیرہ پر بھی وائرل ہوجاتے ہیں۔
برقی میڈیا نے لکھنے والوں اور معلومات کے حصول کی خواہش رکھنے والوں کے
لیے ایسی سہولت فراہم کردی ہے کہ جس کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہ تھا۔ با
کل ایسے ہی کہ جیسے کبھی ریڈیو پر آواز سنی جاتی تھی اور بڑے بزرگ اپنے
بچوں سے کہا کرتے تھے کہ مستقبل میں ایسا ریڈیو ایجاد ہوگا جس میں آواز کے
ساتھ سا تھ بولنے والے خود بھی چلتے پھر تے ، باتیں کرتے نظر آئیں گے اور
معصوم ذہن اس بات کو خواب و خیال تصور کیا کرتے تھے لیکن وقت نے یہ ثابت
کردکھایا ، آج ٹیلی ویژ ن تو دور کی بات انٹر نیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک
چھوٹے سے موبائل میں بند کردیا ہے۔ ہزاروں میل دور کسی واقع کی خبر ہی نہیں
بلکہ لائیواس واقع کو دیکھا جارہا ہوتا ہے۔یہ ہے انٹر نیٹ کا کمال۔ دنیا
میں ہر اچھی چیز کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ انٹر نیٹ کے بھی منفی پہلو
ہیں۔ یہاں وائرل کی جانے والی تحریر، کوئی جملہ، کوئی تصویر ، کوئی مووی،
کوئی گفتگو ہمیشہ نہیں تو طویل عرصہ تک محفوظ رہتی رہے گی، ایک تصویر ایک
سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے اور اسی طرح سفر کرتی ہوئی نہ معلوم کہاں کہاں
پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے بھولے بھالے بچے اور بچیاں یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کی
تصویر جو فیس بک پر آگئی ہے شاید یہ صرف وہی لوگ دیکھیں گے جو ان کی فرینڈ
لسٹ میں ہیں ، نہیں ، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ، اسے منفی سوچ رکھنے والے
انٹر نیٹ کے ماہر حاصل کر لیتے ہیں اور اس کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا
ہے ۔ ایک ماہر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا بشمول فیس بک
پر ہر چیز بہت سوچ سمجھ کر تحقیق کر کے ڈالی جائے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ
آپ کی پوسٹ کی گئی تحریر، کمنٹس، تصویر کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
شہکار صرف لکھنے والوں کو کالم لکھنے کی ترغیب ہی نہ دے بلکہ انٹرنیٹ کے
مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اثرات سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا اہم
ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد اپنی رائے دوسرا تک کم سے کم وقت
میں پہنچانا ہے۔ یہاں جو کچھ بھی شیئر کیا جائے تحقیق کے بعد شیئر ہونا
چاہیے۔لکھنے والوں کا کام لکھنا ہوتا ہے وہ اتنا تو کر لیتے ہیں کہ اپنی
تحریر جس سوشل میڈیا کو بھیجتے ہیں معمول کے مطابق پوسٹ کردیں لیکن وہ اس
کی بہت سی ٹیکنیکل باتوں سے لاعلم ہوتے ہیں، جیسے بلاگ کیسے بنائیں، بلاگر
ز کون ہوتے ہیں، ایس ایم ایس کس طرح کیا جائے، ٹوئیٹ کیسے کیا جاتا ہے، ان
پیچ کی فائل کو یونی کوڈ میں کیسے منتقل کریں، تحریر کے ساتھ تصویر کیسے
منسلک کی جائے، یوٹیوٹ میں مووی کیسے اپ لوڈ کی جائے،وغیرہ وغیرہ اس قسم کی
باتوں کے بارے میں بھی شہکار کو خدمات فراہم کرنی چاہیں۔نئے لکھنے والوں کی
حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔ شہکار پر اسلامی نظریات کا فروغ، پاکستانیت کا
پرچار، مکالمے کی ترغیب، اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترقی کے علاوہ شہکار
لکھاریوں کے لیے سالانہ ’شہکار ایوارڈ‘ اور اسناد کا اہتمام کیا جائے خاص
طور پر نئے لکھنے والوں کے لیے تاکہ انہیں لکھنے کی ترغیب ملے اس لیے کہ
مستقبل انہیں کا ہے۔ |