دکھ اور مزاح نگاری
نعیم ابرار
ایک ایس ایم ایس موصول ہوا، میں کام میں مصروف تھا لہذا ساتھی کارکن یعنی
نوجوان چپراسی سے کہا ذرا پڑھو کیا لکھا ہے۔ اس نے پڑھا،
’’سب کے کرپشن کی میعاد میں توسیع ہوگئی ہے‘‘۔
میں نے سوچا یہ لا محدود توسیع تو ہمیشہ سے ہے یہ بتانے کے لئے چند روپے
ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ میں نے لڑکے سے کہا، مجھے دکھاؤ کیا لکھا
ہے۔ پیغام یوں تھا کہ
’’ سبسکرپشن کی میعاد میں توسیع ہوگئی ہے‘‘۔
یعنی کسی ادارے نے فیس جمع کرانے کی میعاد بڑھادی تھی لیکن نوجوان چپراسی
کے ذہن میں بھی کرپشن چھایا ہوا تھا، سبسکرپشن اس کی فہم سے بالا تر تھا۔
اس نے خود ہی لفظ کی تصحیح کردی جملہ درست ہوگیا قومی منظر نامہ کے عین
مطابق۔
مزاح کی پیدائش اسی برجستگی کے ساتھ ہوئی ہے۔ شعر کی طرح اس میں بھی آمد
کا عمل دخل ہو تو بات دلّی سے نکل کر دل میں جذب ہوتی ہے۔ کمالِ کاریگری
اچھا کاریگر بناتی ہے اچھا فنکار نہیں۔ کاریگری سے اچھی تخلیق جنم نہیں
لیتی۔ رفیع عباسی کی تحریر پڑھتے جائیے آپ خود محسوس کریں گے کہ اس نے کس
سادگی اور بھولپن سے کسی کاریگری کے بغیر مزاح کے پھول کھلائے ہیں۔
وہ میری طرح بے استادے نہیں بلکہ مستند استادئیے ہیں۔ اسے گالی مت سمجھئے
گا بلکہ یوں ہے کہ استاد کو اس کا جائز مقام دینا رفیع عباسی کو آتا ہے۔
یہ بڑی تہذیب کی بات ہے کیوں کہ جس معاشرے میں کسی کا کوئی جائز مقام نہ ہو
بلکہ جس کا مقام ہو، ناجائز ہو وہاں استاد کی بے توقیری سب سے پہلے کی جاتی
ہے۔ رفیع عباسی کو میں نے جس طرح استادوں کا احترام کرتے دیکھا ہے وہ اسی
کا وصف ہے ۔ جس معاشرے میں یہ کہا جاتا ہوکہ زیادہ پڑھنے سے آدمی پاگل
ہوجاتا ہے وہاں کچھ نہ پڑھے بغیر بھی صحیح الدماغ اور نارمل رہا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ مس فٹ (mis fit) لوگ وہی ہیں
جو حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے ہیں کیوں کہ یہ نارمل معاشرے کے اکّا دکّا
ایب نارمل افراد ہیں۔ لوگ اندھیرے میں تو مزے سے جی لیتے ہیں بلکہ جی رہے
ہیں لیکن اکثر لوگوں کے لئے چندھیانے والی روشنی میں جینا بہت مشکل ہوتا
ہے۔ یہی حال دکھوں کا ہے جس کے ہجوم میں اکثر لوگ گم ہوجاتے ہیں اپنی پہچان
اور شناخت کھو بیٹھتے ہیں لیکن انہی لوگوں میں سے کچھ لوگ ولی اور طنزومزاح
نگار بھی بن جاتے ہیں۔
رفیع عباسی نے اپنے حصے کے زیادہ تر دکھ بچپن میں بھوگ کر فراغت حاصل کرلی
تھی لیکن یہ بات غلط ہے۔ آدمی زندگی میں صرف خوشیوں سے فراغت حاصل کرسکتا
ہے لیکن غموں سے نہیں، یہ دل و دماغ پر ایسے داغ چھوڑ جاتے ہیں جو ہمیشہ
ساتھ رہتے ہیں۔ مزاح نگار دکھوں کو اپنی طاقت بنالیتا ہے ۔ کوئی ضروری نہیں
کہ یہ اس کے ذاتی دکھ ہوں، ضروری صرف یہ ہے کہ اس کی ذات سب کے دکھوں کو
ذاتی دُکھ کی طرح محسوس کرنے والی ہو۔ گویا مزاح نگار قطعی خداداد ہوتا ہے
لیکن خدا کے واسطے اس کا مطلب یہ نہ لیں کہ آج سے آپ لکھنے والوں کو مزید
دکھی کریں گے تاکہ وہ اچھا مزاح لکھیں۔ آپ کو یہ کام کرنے کی کوئی ضرورت
نہیں کیوں کہ پورا معاشرہ یہی کررہا ہے۔
جو معاملات پہلے سے مضحکہ خیز ہوں ان کا مضحکہ اڑانا کیا کمال ہے…؟ کمال تو
یہ ہے کہ بظاہر سنجیدہ اور غمگین نظر آنے والے معاملات کی مضحکہ خیزی
اجاگر کی جائے لیکن کیا کریں اطراف میں سبھی کچھ مضحکہ خیز ہے اسی لئے
سیاست کی مضحکہ خیزی اجاگرکرنا پڑتی ہے۔ ہماری سیاست پر رفیع عباسی نے
برجستہ طبع آزمائی کی ہے لیکن یہ اسی حد تک ہے جس حد تک ہماری سیاست کا
عوام سے تعلق ہے اس سے آگے کا کام سیاست دان خود ہی کرتے ہیں یعنی سیاست
کی مضحکہ خیزی بھی خداداد ہے۔
رفیع عباسی مایوس اور ناامیدکہیںنظر نہیں آتے۔ ان کی تحریروں سے مسکراتی
ہوئی شرارت آمیز رجائیت ٹپکتی ہے۔ وہ جی کڑا کرکے پُرامیدی کی تلقین نہیں
کرتے کیوں کہ یہ جھوٹی ہوتی ہے۔ آپ رفیع عباسی کی تحریر پڑھتے جائیں تو
زندگی کے تضادات محسوس کریں گے۔ طنز و مزاح تضادات کی مضحکہ خیزی کو
ابھارنے اور ان پر مسکرانے کا فن ہے۔ ہمارے معاشرے کو جس چیز کی سب سے
زیادہ ضرورت ہے وہ طنز و مزاح یعنی خود پر ہنسنا ہے۔ یہ ضرورت اس لئے اور
زیادہ ہے کیوں کہ معاشرہ طنز و مزاح کا متحمل نہیں رہا۔ ہمارا دور کامیڈی
کا ہے مزاح کا نہیں۔ ہر شعبے میں کامیڈی ہے نتیجہ یہ کہ ادب کے نام پر
مَزاح لکھنے والے بھی پَرفارم کرکے داد وصول کررہے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں اب
ادبی مزاح پڑھنے والے کم رہ گئے ہیں۔ ہم نے ویسے بھی ماشاء اللہ ہر شعبہ
میں ترقی معکوس کی ہے۔ ویسے بھی پیٹ سب کے ساتھ لگا ہے بلکہ اکثرکے ساتھ تو
صرف پیٹ ہی لگا ہے، دل دماغ کا خلاء بھی اسی نے پُرکیا ہے۔ کامیڈی اور مزاح
میں وہی فرق ہوتا ہے جو حقیقی زندگی کی محبت اور محبت کی اداکاری میں ہوتا
ہے ۔
شادی کے بعد تو دکھ بھی مرد میرا مطلب ہے کہ شوہر جھیلتے ہیں۔ جو شادی کے
بعد بھی مرد رہتے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں، جنہیں روٹی میسر
ہو وہ جانتے ہیں کہ آٹے میں نمک ضروری ہوتا ہے۔ شادی کے بعد بھی مرد اگر
شوہر نہ بنے تو شادی کا فائدہ ہی کیا ہے بلکہ یہ تو بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔
یہ ایسے ہی کہ کسی بچے کو شفقت نہ ملے، جوان کو محبت نہ ملے اور بوڑھے کو
راحت نہ ملے لیکن بچپن کا دکھ سب سے بڑا ہوتا ہے کیوں کہ یہ عمر بھر ساتھ
رہتا ہے، شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہم اگر اپنی زندگیوں سے دکھ مائنس کردیں
تو اس میں کچھ بچتا ہی نہیں ہے اور ہم اپنی زندگیاں بچانا چاہتے ہیں اس لئے
خود کو اور دوسروں کو خوب دکھ دیتے ہیں۔ جس کے پاس دینے کو جو ہوتا ہے وہی
دیتا ہے۔ دکھ ہمارے پاس وافر ہیں سو ہم وہی دیتے ہیں لیکن جو لوگ دکھ کو
اپنے باطن کی بھٹّی میں پکا کر سونا بنا لیتے ہیں وہ مزاح نگار ہوتے ہیں۔
اچھی تحریر کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ Revealingہو۔ رفیع عباسی کی تحریر
اکثر مقامات پر کچھ منکشف کرتی ہے، ان کے جملے چونکاتے ہیں مثلاً دکھوں کی
ماری ، سوگ میں ڈوبی قوم کیلئے یہ کتنی بڑی خوشخبری ہوتی ہے کہ ’’ خودکش
حملہ آور کا سَر مل گیا‘‘، یہ سَر اگر نہ ملتا تو ہم کیا کرلیتے۔ آج سر
ملا انشاء اللہ کل پیر بھی مل جائے گا یوں ہمارے معاشرے کے بارے میں یہ
رائے کبھی نہ کبھی غلط ثابت ہو ہی جائے گی کہ یہاں تو کسی چیز کا سَر پیر
ہی نہیں ہے۔ خودکش حملہ آورکا سر ملنے سے نا امید قوم میں امید پیدا ہوتی
ہے۔ ہمارے حکمران قوم میں امید پیدا کرنے کیلئے جو کوششیں کرتے ہیں ان کو
سراہنا چاہئے۔ رفیع عباسی نے انہیں خوب سراہا ہے۔
رفیع عباسی نےزندگی سے ملے ہوئے دکھوں کو اپنی طاقت بنایا۔ میری اور رفیع
عباسی کی زندگی میں بہت سی قدریں مشترک ہیں بس اتنا فرق ہے انہیں دکھوں کا
تجربہ اس عمر میں ہوا جب دکھوں کا شعور نہیں ہوتا۔ میرا بچپن بہت اچھا گزرا
لیکن جوانی دکھوں میں کٹ گئی۔ رفیع عباسی کی تحریرکہیں کہیں un even ہے
لیکن یہ کوئی عیب نہیں بلکہ نشوونما کا مرحلہ ہے۔ ویسے بھی وہ جوان ہیں
کیوں کہ میرے ہم عمر ہیں۔ میں اپنے ہر ہم عمر کو جوان ہی سمجھتا ہوں۔ دکھوں
کو celeberate کرنے کے دو ہی طریقے ہیں، دوسروں کو دکھی کرنا یا ان کے دکھ
کم کرنا۔ رفیع عباسی دکھوں کو سمجھتا ہے اسی لئے میں رفیع عباسی کو سمجھتا
ہوں۔ اس نے دکھوں کو جو treatmentدیا اس کے نتیجے میں ہمیں ایسا شگفتہ مزاح
نگار ملا جو اگر سنجیدگی سے پورے ارتکاز کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہا تو
ہمیں مستقبل کا ایک اچھا مزاح نگار مل جائے گا۔
|