میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ مولانا عطاء اللہ شہاب
صاحب کی سیاسی مصروفیات نے ان کی علمی وقلمی مصروفیات کو زک پہنچایا ہے۔
باوجود اس کے مولانا کے قلم سے تین بہترین کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں
۔۔چوتھی کتاب بھی عنقریب منظر عام پر آئے گی۔(شاید اس کا عربی ورژن بھی
آئے)
آج مولانا کے ساتھ ان کے دولت کدے پر ایک بہترین فکری اور معلوماتی نشست
رہی۔ مولانا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دھیمے انداز میں اپنی بات بلاکم و کاست
کہہ جاتے ہیں۔ اگر کہیں بات گول کرنا بھی ہو، تو اتنی خوبصورتی سے کر جاتے
ہیں کہ اگلا محسوس ہی نہیں کرپاتا۔۔۔میرے لیے انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ
مولانا جیسے قدآورسیاسی انسان اور قلمی شخصیت میری تحریروں کو غور سے
پڑھتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے مولانا میری فکری اور معلوماتی لغزشوں یا
خامیوں کو نہ صرف نوٹ فرماتے ہیں بلکہ مہینوں بعد ملاقات پر اس کی نشاندہی
بھی کرتے ہیں، ڈسکس کرکے بعض فکری اور معلوماتی الجھنوں کی درستگی بھی
فرماتے ہیں۔گلگت بلتستان میں یہ انہی کا خاصہ ہے۔ اس طرح ٹیکنیکل انداز میں
گرفت کرنے والے جی بی میں بہت کم لوگ ہیں۔علماء میں تو شاید ایک بھی نہیں۔۔
آج کی ملاقات بنیادی طور پر مولانا کی عیادت کرنے کے حوالے سے تھی،مولانا
بیمار ہیں تاہم مولانا ایلوپیتھک دواوں کے زور سے ہشاش بشاش نظرآئے۔۔ چھ
جولائی کو آپریشن ہے۔ اللہ سلامتی کا معاملہ فرمائے۔
مولانا کے ساتھ سیاست سے لے کر ادب تک، معیشت سے لے کر سیاحت تک، امن و
امان سے لے کر عالمی حالات تک بہت سے لوکل اور نیشنل موضوعات پر گفتگو
رہی۔۔۔۔۔۔۔۔بلاشبہ مولانا معلومات کا خزینہ رکھتا ہے اور شاید میری طرح
کوئی غور سے سننے والا مل جائے تو مولانا دیر تک اپنی معلومات شیئر کرتے
رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کی مجلس میں ہونے والی کچھ گفتگو تو واضح
انکشافات پر مبنی ہے۔اگر لکھ دوں تو کہیں پیشی نہ
ہوجائے۔۔۔۔ہاہہاہہااہہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا نے آنے والے دنوں کے سیاسی و مذہبی حوالے سے بھی اچھے تجزیے
کیے۔۔ماضی کے حوالے سےاپنوں کی بے رعنائیوں کا بھی ذکر کیا اور غیروں کی
ریشہ دوانیوں کا بھی۔۔۔۔۔کچھ گفتنی بھی اور بہت کچھ ناگفتی
بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ جے یو آئی کے حوالےسے مولانا کا
کردار ابھی جی بی سے بڑھ کر ملکی لیول کا ہوگیا ہے۔۔ مرکزی سطح پر انہیں
اہم اسائنمنٹ دیے جاتے ہیں۔ کبھی صدسالہ اجتماع میں اہم ذمہ داریاں سونپی
جاتی ہیں تو کبھی خارجہ امور کے حوالے سے جی یو آئی کی مرکزی قیادت اور
سرکار مولانا شہاب کی معلومات سے استفادہ کرتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے
ہونے والی گفتگو پھر کبھی حسب حال و ضرورت کسی تحریر میں جگہ پالے گی،
سردست کم از کم اس کو اوپن کرنے کی نہ گنجائش ہے نہ اپنے ناتواں کندھے پر
اتنا بوجھ اٹھانے کی ہمت ہے۔۔۔۔۔۔۔
شہاب صاحب کے ساتھ ہرملاقات میں کچھ نیا سننے کو ملتا ہے۔۔عجیب بات یہ ہے
کہ میں نے ہمیشہ ان کے ساتھ بہت سارے امور میں اختلاف کیا۔اس پر وہ خوش
ہوتے ہیں نہ کہ ناراضگی کا اظہار ۔۔کچھ لوگوں کو تو کسی کی چھینک پر بھی
غصہ آجاتاہے اور پھر وہ قد و کاٹھ تولنے لگتے ہیں یا پھر الزامات کی
پٹاریاں کھولنے لگتے ہیں، مگر شہاب صاحب میں یہ بات نہیں۔
شہاب صاحب گلگت بلتستان کونسل کے ممبر، جے یو آئی گلگت بلتستان کے جنرل
سیکرٹری رہے۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی شوریٰ و عاملہ کے ممبر ہونے
کے ساتھ ایک طویل عرصہ مسئول کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے ہیں۔اور آج کل
جے یو آئی پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ممبر ہیں۔آج کل دیگر سرگرمیوں کے
ساتھ اپنے کاروباری امور پر توجہ خاص مرکوز کیے ہوئے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ |