رخصتی کا وقت ہوا تو سب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
بیٹیاں تو ویسے ہی گھر کی جان ہوتی ہیں اور اگر بیٹی وجیہہ جیسی ہو تو گھر
کی جان کے ساتھ ساتھ گھر کا مان بھی ہوتی ہیں۔ضرغام کے ساتھ وہ کھڑی
تھی۔انمول اس کے سر پر قرآن کا سایہ کیا ہوئے تھا۔حجاب نے دنوں ہاتھوں سے
وجیہہ کے لہنگے کو سمیٹ رکھا تھا۔رضیہ بیگم کی تو جیسے سانسیں ہی گلے میں
اٹک کر رہ گئی تھیں۔ قدم ساتھ ہی نہیں دے رہے تھے۔سب آگے بڑھ گئے مگر وہ سب
سے پیچھے صوفے کے سہارے ٹیک لگائے کھڑی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
وجیہہ کا معصوم چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ جس کو اپنے ہاتھوں سے چلنا
سیکھایا۔ اپنی گود میں جس کو کھیلایا ، آج وہ اتنی بڑی ہوگئی کہ ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے ان کو چھوڑ کر جا رہی ہے۔ رضیہ بیگم کو دروازے پر نہ پاکر
شگفتہ بی بی پلٹی تھیں
’’دیکھیں! میں آپ کو دکھ سمجھ سکتی ہوں لیکن آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ آپ کی
بیٹی آج پورے مان سمان کے ساتھ اپنے گھر کی ہو رہی ہے۔‘‘ شگفتہ بی بی نے
انہیں حوصلہ دیا تھا
’’آنکھوں سے اشک نہ بہیں تو کیا بہیں۔۔۔ جس بیٹی کو اتنے سال اپنے گھر کے
آنگن کا پھول بنائے رکھا آج وہی پھول توڑ کر کسی اور کے آنگن کا حصہ بنانے
جا رہی ہوں ۔۔اور وہ بھی۔۔۔ اپنے ان ہاتھوں سے۔۔‘‘ان کا لہجہ گلوگیر تھا
’’یہ تو دنیاکی ریت ہے رضیہ بہن۔۔۔ بیٹیوں کو چاہے کتنا ہی نازوں سے پال
لیا جائے ، چاہے کتنا ہی دنیا کی نظر سے بچاکر رکھ لیا جائے ایک نہ ایک دن
تو اسے جانا ہی ہوتا ہے۔لیکن آپ کو تو خوش ہونا چاہئے آپ کی وجیہہ پورے مان
سمان اور عزت سے اپنے گھر کی ہورہی ہے۔ایک باعزت طریقے سے اپنے گھرہستی کی
بنیاد رکھنے جا رہی ہے۔‘‘ان کے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا
’’ آپ وعدہ کریں۔۔ ہمیشہ میری بیٹی کا خیال رکھیں گی۔۔ اس پر کبھی کوئی آنچ
نہیں آنے دیں گی‘‘
’’ وجیہہ اب صرف آپ کی ہی بیٹی نہیں رہی میری بھی بیٹی ہے۔اس کا خیال رکھنا
اب میری ذمہ داری ہے۔ آپ بے فکر رہیں میں ضرغام سے بھی زیادہ اپنی بیٹی کا
خیال رکھوں گی۔۔‘‘شگفتہ بی بی کے الفاظ سن کر رضیہ بیگم کو کچھ حوصلہ
ملا۔سب باہر کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو
پلکوں کی اوٹ میں چھپانے کی کوشش کی مگر آنسو تو آویزاں ہو کر ہی جان
چھوڑتے ہیں ورنہ آنکھوں میں سوئی کی طرح چبھتے رہتے ہیں۔انمول کی آنکھیں
بھی بھیگی بھگی تھیں۔باہر سے وہ چاہے کتنا ہی کٹھور بننے کی کوشش کرتا تھا
، کتنا ہی وجیہہ کو تکلیف پہنچاتا تھا مگر تھا تو وہ وجیہہ کا بھائی
ہی۔۔۔یہ بھائی ہی تو ہوتے ہیں جو دنیا کے سامنے اپنی بہنوں سے لڑتے ہیں مگر
تنہائی میں جا کر آنسو بہاتے ہیں مگر اس کی آنکھیں تو ہجوم میں ہی نم
تھیں۔دائیں ہاتھ سے قرآن کا سایہ کرتے ہوئے وہ بائیں ہاتھ کی انگلی سے
پلکوں پر چمکتے آنسوؤں کو پونچھ رہا تھا۔علی عظمت بھی اس کو سینے سے لگا کر
آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے۔ حجاب بھی ان کا دامن پکڑے آنسو بہا رہی تھی۔
رضیہ بیگم تو اس کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔وجیہہ کی بھی
آنکھیں بھر آئی تھیں۔ اس نے آخری بار سب کے چہروں پر نگاہ دوڑائی تھی۔ایک
بیٹی کی حیثیت سے کیونکہ آج کے بعد جب وہ اس گھر میں قدم رکھے گی تو وہ ایک
بیٹی نہیں ہوگی۔ ایک بہو ہوگی ، ایک بیوی ہوگی۔ضرغام نے آہستہ سے وجیہہ کا
ہاتھ تھاما۔ ناجانے کیوں اس بار اسے کوئی جھٹکا نہیں لگا نہ ہی کوئی اجنبیت
محسوس ہوئی اور نہ ہی اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے
اس کو اپنی طرف بلا رہا تھا۔ اپنی دنیا کی طرف۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس
کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ ایک ہاتھ سے اپنا لہنگا سمیٹ کر وہ کار کی
طرف بڑھنے لگی۔کار کے پاس پہنچ کر ضرغا م نے وجیہہ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور
ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ بیٹھ گیا، شگفتہ بی بی نے اس کو پیچھے بٹھا دیا۔خود
اس کے ساتھ بیٹھ گئیں۔حجاب، انمول ، رضیہ بیگم اور علی عظمت کھڑے اس کار کو
جاتا دیکھ رہے تھے۔
* * * * *
پورا گھر سنسان تھا۔ مگر سجاوٹ میں اب بھی ویسے ہی تھی۔ٹی وی لاؤنج میں ہر
طرف اندھیرا تھا۔ہر شے تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔گھر آئے مہمان اب لوٹ چکے
تھے۔جویریا مثال اور فرمان بھی اب اپنے والدین کے ساتھ واپس جا چکے تھے۔
نزہت بھی اب واپسی جا چکی تھی۔ صرف گھر میں شگفتی بی بی ، ضرغام اور وجیہہ
تھی۔وجیہہ اپنے کمرے میں بیٹھی ضرغام کے انتظار میں تھی۔ضرغام پانی پینے
کچن میں آیا تھا۔ پانی پینے کے بعد وہ کمرے میں جانے کے لئے بڑھا تو شگفتہ
بی بی نے اسے آواز دی
’’ جی امی۔۔‘‘ وہ پلٹا تھا۔ چہرے پر ہلکی سی طمانیت تھی
’’تمہارا شکریہ۔۔۔!! میرا مان رکھنے کے لئے۔ اپنا وعد پورا کرنے کے
لئے۔۔‘‘انہوں نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے
ایک فائل ضرغام کی طر بڑھا دی
’’تم نے اپنا وعدہ پورا اب میری باری ہے اپنا وعدہ پورا کر نے کی۔۔۔ یہ
لو۔۔ یہ پیپرز ہیں۔۔‘‘فائل کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک عجیب
سی ہنسی تھی
’’ مجھے یقین تھا کہ آپ اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گی۔۔‘‘ایک شاطرانہ
مسکراہٹ کے ساتھ اس نے وہ فائل تھامی تھی۔
’’مجھے یقین ہے تم میرے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچاؤ گے۔۔‘‘انہوں نے اس
کے شانوں کو آہستہ سے تھپتھپایا تھا
’’آپ بے فکر رہیں۔۔۔‘‘ ضرغام کا لہجہ معنی خیز تھا۔ایک ثانیے کے لئے شگفتہ
بی بی نے اس کے چہرے کو دیکھا اور پھر اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔ وہ کچھ دیر
ان کو جاتا دیکھتا رہا اور فائل کو دیکھ کر کچھ سوچنے لگا
* * * *
ہلکی ہلکی خوشبو پورا کمرہ مہک رہا تھا۔وہ کاسنی رنگ کے لہنگے میں لال
گلابوں کے درمیان بیٹھی تھی۔پورا بیڈ اس کے لہنگے سے سجا ہوا تھا۔ نیلی
مدہم روشنی سے جگمگاتے اس کمرے میں وہ ضرغام کا انتظار کر رہی تھی۔آنکھوں
میں حیا کا دامن سمیٹے ، انگلیوں کو آپس میں دباتے ہوئے وہ ایک لامکاں سوچ
کی دنیا میں مکمل طور پر کھو چکی تھی۔دروازے کی چڑچڑاہٹ سے جیسے اس کے دل
پر کسی نے لکیر کھینچی ہو۔ایک بار دل نے کہا کہ گھونگٹ اٹھا کر اسے دیکھ لے
مگر ہمت نہ ہوئی۔کمرے میں داخل ہونے والے نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد
دروازے کی چٹکی اوپر کی اور پھر کچھ دیر وہیں کھڑے رہنے کے بعد آگے کی سمت
اختیار کی۔وجیہہ کے دل کی دھڑکن تو جیسے ہر گھڑی تیز ہی ہوتی جا رہی
تھی۔ضرغام پہلے تو بیڈ کی پائی کے پاس آکر کچھ دیر کھڑا رہا مگر پھر وارڈ
روب کی طرف بڑھا اور اس کا دروازہ کھو ل کر ہاتھ میں موجود فائل کو کپڑوں
تلے دبا دیا۔اور پھر وارڈروب بند کر کے واپس بید کی طرف پلٹا۔بیڈ کو گلاب
کی لڑیوں نے گھیرے ہوئے تھا۔ ا س نے لڑیوں کو ہاتھ سے سمیٹا اور بیڈ پر نیم
دراز ہو کر بیٹھا۔اس کا ایک پاؤں بید پر تھا دوسرا زمین پر۔وجیہہ اب بھی
گھونگٹ میں منہ چھپائے اس کا انتظار کر رہی تھی۔کچھ دیر وہ اسے دیکھ کر
سوچتا رہا۔شاید الفاظ ڈھونڈرہا تھا۔
’’ شادی کی رات ہر شوہر اپنی بیوی کو کچھ نہ کچھ منہ دیکھائی میں ضرور دیتا
ہے ۔ لیکن میں نے تمہارے لئے کچھ نہیں خریدا۔۔‘‘ اس طویل عرصے تک چھائی
ہوئی خاموشی کو آخر اس نے توڑا تھا۔
’’ کوئی بات نہیں۔دنیاوی چیزوں کی مجھے غرض بھی نہیں۔۔۔‘‘الفاظ کو مجتمع کر
کے اس نے کہا تھا
’’بہت خوب۔۔۔ لیکن میں تمہیں پھربھی کچھ دینا چاہتا ہوں۔ کچھ ایسا جو شاید
ہی کو ئی شوہر اپنی بیوی کو پہلی رات میں دیتا ہو۔۔‘‘ وہ بائیں ہاتھ پر
اپنا سر ٹکائے یک ٹک اس کے گھونگٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کی طرف سے دی گئی ہر شے میرے لئے متاع جان ہوگی‘‘اس نے پرخلوص لہجے
میں کہا تھا
’’واہ۔۔ کیا ڈائیلاگز ہیں؟‘‘طنزیہ کہتے ہوئے اس نے وجیہہ کا گھونگٹ اپنے
بائیں ہاتھ سے لاپرواہی سے کھینچا۔
’’ آہ۔۔‘‘گھونگٹ کے ساتھ لگی پنیں اس کے بالوں میں الجھ کر رہ گئیں۔ اس کے
بال جو حجاب نے آدھ گھنٹے میں سیٹ کئے تھے۔ضرغام نے خراب کرنے میں ایک
سیکنڈ بھی نہیں لگایا۔اس کی گردن میں ایک جھٹکا آیا مگر لب پر مہر خاموشی
رہی۔پلٹ کر اس نے ضرغام کے چہرے کی طرف دیکھا۔روشنی اب بھی مدہم تھی۔سفید
رنگت بھی کسی قدرے ماند پر رہا تھا مگر اس کی ڈارک براؤن شیروانی اب بھی
اپنے جوبن پر تھی۔اِس نے پہلی بار اس کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا۔کسی
اجنبی مرد کو اتنے پاس سے دیکھاتھا مگر اب یہ اجنبی نہیں رہا تھا۔پوری
زندگی کا ساتھ بن چکا تھا۔سائے کی طرح اس کے وجود کا حصہ بن چکا تھا۔وہ اس
کے چہرے کو اپنے من میں اتار رہی تھی۔آنکھوں کے آگے آئی بالوں کی لٹوں
کواپنے بائیں ہاتھ سے کان کے پیچھے اڑیسا۔ضرغام ابھی بھی استہزائیہ انداز
میں اس کا دوپٹہ اپنے بائیں ہاتھ میں لپیٹ رہا تھا۔وہ ضرغام کی اس حرکت سے
بے خبر اس کے روشن چہرے کو دیکھ رہی تھی۔جو مدہم روشنی میں بھی بدر کی طرح
چمک رہا تھا۔آنکھوں کی شرارت اس سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔بھنوؤں کی شوخیوں کو
وہ اچھی طرح سمجھ سکتی تھی۔گلابی لبوں پر چھائی طنزیہ مسکراہٹ اس کے نزدیک
کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ وہ تو بس اس کے کلین شیو حصے کو دیکھ کر یہ
گمان کر رہی تھی کہ اگر یہ چہرہ کلین شیو میں اتناحسین ہے تو جب حضورﷺ کی
سنت کو اپنے چہرے پر سجا لے تو کتنا خوبصورت لگے گا۔
’’اس سے پہلے تم ایکٹرس تو نہیں تھی؟جو اتنے اچھے ڈائیلاگز بولتی ہو؟یا پھر
میرے شو سے اتنا متاثر ہو گئی ہو کہ جملوں کے تانے بانے خود بخود بنتی جا
رہی ہو۔۔۔‘‘نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹتے ہوئے اس نے وجیہہ پر ایک نظر
دوڑائی تھی
’’کیا مطلب ہے آپ کا۔۔‘‘ضرغام کا ایک ایک جملہ اس کے لئے نیا تھا۔ایکٹرس
اور شو۔۔ ان دو لفظوں نے تو جیسے اس کی روح میں چھید کر دیا۔وہ یک ٹک اسے
دیکھتی رہی۔کئی شبہات اس کے دل میں جنم لینے لگے۔ اِ س نے ہمیشہ ہی گمان
کیا تھا کہ شگفتہ بی بی کا بیٹا بھی انہی کے جیسا دین دار ہوگا مگر حقیقت
تو کچھ اور ہی تھی۔ ایک کے بعد ایک سچائی سامنے آرہی تھی
’’بھولی نظر آتی ہو یا پھر بننے کی کوشش کر رہی ہو۔۔‘‘ طنز کا اگلا تیر
چلاتے ہوئے اس نے ایک جمپ لگایا او ر اٹھ کھڑا ہوا۔وجیہہ کے جسم میں ایک
جنبش بھی نہ آئی۔ وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ ایک جھٹکے سے اس
کے گریبان کا ایک بٹن کھل گیا تھا۔
’’ویسے شادی کی رات کا گفٹ تم جانتی ہو میں کیا دینے والا ہوں؟‘‘ اس نے
بچوں کی طرح ایسے سوال کیا تھا جیسے وہ اس کے گفٹ کا بے صبری سے انتظار کر
رہی ہو لیکن اسے تو کوئی غرض ہی نہیں تھی۔وہ اس کی آنکھوں کو صاف صاف پڑھ
سکتی تھی جس میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ وہ کشش محبت کی تھی نہ ہی شادی کی۔
اس کشش کی وجہ تو کچھ اور ہی تھی۔
’’پوچھو تو سہی ۔۔‘‘ ترچھی گردن کئے وہ بس اس کے ہلتے لبوں کو دیکھتی جا
رہی تھی۔
’’ چلو میں ہی بتا دیتا ہوں۔۔ تمہارا گفٹ یہ ہے کہ۔۔‘‘وہ آہستہ آہستہ وجیہہ
کے قریب گیا۔ گھٹنوں کے بل تو وہ پہلے ہی بیڈ پر بیٹھا تھا۔ بس اپنے ہاتھوں
کو آگے بیڈ کی بائی کی طرف بڑھاتے ہوئے وہ ذرا ترچھا سا ہوا تھا۔وجیہہ ابھی
بھی ایک شاک میں تھی۔ اسے احساس تک نہ ہوا کہ کب ضرغام اس کے اتنے قریب
آگیا کہ اُ س کی سانسوں کی گرمی اس کے لبوں سے ٹکڑانے لگی تھی۔وہ یکدم
پیچھے ہٹی تو اس کا سر پیچھے ٹیک سے جا لگا۔ادھ کھلے بال اس کی کمر تک جا
رہے تھے۔ضرغام قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔اپنی ٹانگوں کو حرکت دئیے
بغیر وہ بس اپنا سینہ اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔اپنے ہاتھوں کو وجیہہ نے
مضبوطی سے بند کرلیا۔ آنکھوں کو ایک لمحے کے لئے موند لیا۔سانسوں کو ایک
ثانیے کے لئے تھامنے کی کوشش کی ۔دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ ضرغام
اس کے اتنا قریب آچکا تھا کہ دونوں کی سانسیں آپس میں گھل مل گئی تھیں۔
’’گفٹ یہ ہے کہ۔۔۔‘ ‘ نر م گرم لہجے میں یہ ہلکے سے الفاظ اس وقت وجیہہ کو
بہت بھاری لگ رہے تھے۔وہ جانتی تھی کہ کچھ تو ضرور ہے جو اب کھلنے جا رہا
تھا۔کوئی ایسی بات جو شاید نہیں کھلنی چاہئے تھی
’’تم بھاڑ میں جاؤ میری طرف سے۔۔۔۔‘‘اپنے لبوں کو اس کے کان کے قریب جاکر
آہستہ سے سرگوشی کی اور پھر ایک زور دار قہقہ لگاتے ہوئے پیچھے ہٹ
گیا۔وجیہہ کے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔یہ لفظ نہیں پہاڑ تھے جو
کسی نے اس کے سر پر لا کھڑے کئے تھے۔ وزن اتنا تھا کہ وہ دبتی جا رہی
تھی۔وہ اپنے ہاتھوں کو پیچھے کرتے ہوئے قہقہے مار مار کر ہنس رہا تھا۔اس کا
مذاق اڑا رہا تھا۔اس نے دائیں ہاتھ سے بالو ں کی لٹ کو جو اب بالکل بے جان
سے محسوس ہو رہی تھی ، پیچھے کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’کتنی بے وقوف ہو تم۔۔۔۔ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ تم میری۔۔ ضرغام عباسی
کی بیوی بن سکتی ہو۔۔‘‘وہ ہاتھ جھاڑتا ہوا بیڈ سے کھڑا ہوچکا تھا۔گلاب کی
لڑیوں سے باہر اس کا چہرہ دھندلا سا گیا تھا۔ شاید ان آنسوؤں کی وجہ سے جو
کسی بھی لمحے بہہ سکتے تھے۔
’’ میں ضرغام عباسی ہوں ضرغام عباسی۔۔۔اور ضرغام عباسی کبھی تم جیسی کالی
لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘ ایک بار پھر اس کا رنگ اس کا طعنہ بن گیا۔
لیکن اس طعنے کی کات بہت گہری تھی۔ پہلے تو صرف انمول اس کے رنگ کر برا
بھلا کہتا تھا لیکن اب اس کے سانولے رنگ کو برا کہنے والا کوئی اور نہیں اس
کا شوہر تھا۔ اگر انمول ہوتا وہ اسے یہ طعنہ دیتا تو شاید اسے اتنا برا نہ
لگتا مگر ضرغام کے منہ سے یہ طنعہ سن کر اس کا دل ٹوٹ گیا۔ پل دو پل کی
خوشی ریت کی دیوار ثابت ہوئی
’’اور پھر اوپر سے تم پسند بھی میری امی کی ہو۔۔۔۔ ظاہر ہے انہی کی جیسی
نمازی پرہیزی۔۔ اللہ اللہ کرنے والی۔۔ نصیحتوں کی دکان۔۔۔‘‘ایک ایک لفظ اس
کے دل کو چاک کر رہا تھا۔آنکھوں میں آنسو تو جیسے تیرتے جا رہے تھے۔اس نے
مضبوطی سے اپنی انگلیاں بھینچ لیں۔
’’ضرغام۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں خفگی کم آس زیادہ تھی
’’ویسے یہ جاننا نہیں چاہو گی کہ میں نے تم سے شادی کیوں کی؟‘‘ترچھی آنکھوں
سے اس کے ہراساں وجود کو دیکھتے ہوئے کہا تھا لیکن وہ اب ابھی خاموش تھی
’’میں نے تم سے شادی صرف یہ پراپرٹی حاصل کرنے کے لئے کی تھی۔تم سے شادی
کرنے کے بعد یہ پراپرٹی اب میری ہوچکی ہے ، اب مجھے تمہاری کوئی ضرورت
نہیں۔۔ تم جب چاہو مجھ سے طلاق لے کر اپنے گھر جاسکتی ہو۔۔‘‘استہزائیہ
انداز میں اس نے بیڈ کے چاروں طرف لٹکی گلاب کی لڑیوں میں سے ایک لری توڑی
اور اچھال کر سامنے صوفے پر پھینک دی۔وہ حواس باختہ بس اسے ہی دیکھتی جا
رہی تھی۔
’’ چلو اب اٹھو یہاں سے۔۔مجھے نیند آرہی ہے۔۔ مجھے سونا ہے‘‘اس نے چٹکی
بجاتے ہوئے کہا تھا مگر وہ یک ٹک اس کے چہرے کی طرف دیکھتی جا رہی تھی۔
’’سنا نہیں تم نے۔۔ اٹھو یہاں سے۔۔‘‘اس بار اس نے جھلا کر کہا تھا
’’خوبرو لوگ اکثر سنگدل ہوا کرتے ہیں۔۔‘‘حجاب نے ایک بار اس سے کہا تھا۔
شاید ٹھیک کہا تھا کیونکہ سامنے کھڑا شخص بھی خوبرو شخصیت کا مالک تھا ۔
مگر اخلاق سے عاری تھا۔
’’لگتا ہے ، مجھے ہی اٹھانا پڑے گا۔۔‘‘آگے بڑھتے ہوئے اس نے بے دردی سے
وجیہہ کے بازو کو پکڑا اور کھینچ کر کھڑا کیا۔اس نے مزاحمت کرنا بھی گوارا
نہ کی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہاں اس کی شنوائی نہیں ہونے والی۔وہ
لڑیوں سے باہر بیڈ کے پاس کھڑی اپنے داہنے بازوکو بائیں ہاتھ سے دبائے ہوئے
تھی جبکہ ضرغام دونوں ہاتھوں کو سر کے نیچے دبائے آنکھ بند کر کے لیٹ
گیا۔چہرے پر ایسا سکون تھا جیسے برسوں سے امن میں ہو۔ پریشانی کوسوں دور
تھر کے صحراؤں میں بسنے والے باسیوں کی قسمت میں ہواور ان کی خوشیاں اس کے
مقدر میں۔ایسی طمانت جیسے کوئی فکر ہی نہ ہو۔ دنیا سے بے فکر۔ رشتوں سے
انجان ۔اپنی ہی خواہشوں میں مدہوش وہ لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔
’’ ایک لڑکی کے لئے دنیا سے لڑنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا اپنے شوہر سے
ہوتا ہے۔۔!!‘‘ایک سرگوشی اس کے کانوں میں ہوئی تھی
’’دادی!آپ تو کہتی ہیں کہ لڑنا بری بات ہے۔پھرایک لڑکی بھلا اپنے شوہر سے
کیوں لڑتی ہے؟‘‘ایک معصومانہ سوال گڑیاکو دلہن بناتے ہوئے اس نے پوچھا تھا
’’بیٹی! یہ وہ لڑنا نہیں ہوتا جس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہا جائے۔ایک
دوسرے پر لعن و طعن کی جائے بلکہ اِس کا مطلب تویہ ہے کہ ایک دوسرے کے پاس
رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور رہنا ‘‘
’’ دادی! ایک دوسرے کے پاس رہتے ہیں بھلا دور کیسے رہا جاسکتا ہے؟‘‘اپنی
گڑیا کو سجاتے ہوئے اس نے لال دوپٹہ بھی اوڑھا دیا
’’بیٹی ! جب ایک دوسرے سے دل نہ مل سکیں تو پاس رہتے ہوئے انسان بھی دور
رہتے ہیں۔ شادی صرف دو اجسام کو نہیں ملاتی بلکہ دو روحوں کو یکجا کرتی ہے
لیکن بعض اوقات دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے تھوڑی سی ڈھیل اس شادی نامی
ڈوری کو ایک امتحان بنا دیتی ہے۔ ایک کی لغزش دوسرے کے لئے آزمائش بن جاتی
ہے ۔پھر اس پٹری کو چلانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ لیکن بیٹی یہی وقت ہوتا جب
سونا کندن بنتا ہے۔محبت کی فضاؤں میں تورشتوں کو ہر کوئی نبھانا جانتا ہے
مگر جو انسان نفرت کی وادی میں ، انا کی زمین پر ، صبر کے ہاتھوں سے،احساس
کا بیج بوئے اور پھر وفا کے پانی سے رشتے کو پروان چڑھائے تو ایک نہ ایک دن
محبت کا پودا ضرور اگتا ہے اور پھر اُس کا پھل شہد سے زیادہ شیریں ہوتا
ہے‘‘
’’ دادی! آپ نے شاید سچ ہی کہا تھا‘‘آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔اپنی انگلیوں
کے پوروں سے بے مقصد نکلے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے اس نے ڈریسنگ کارخ کیا۔
اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا۔جہاں ایک نئی نویلی دلہن کھڑی اپنے ساجن کی بے
رخی کا گلہ کر رہی تھی۔ اس نے جھٹ اپنا چہرہ چہرے سے ہٹایا اورایک ایک کر
کے زیوروں کو اتار کر ڈریسنگ پر رکھ دیا۔
* * * * *
’’ اتنی جلدی اٹھ گئی تم؟ تھوڑا سا آرام ہی کر لیتیں۔۔‘‘شگفتہ بی بی ناشتے
کا انتظام کرنے کچن میں آئیں تو وجیہہ کو وہاں کھانا بتاتے ہوئے پایا
تھا۔ایک کیتلی چولہے پر رکھی ہوئی تھی جس میں سے کھیر کی خوشبو جوش ما ر
رہی تھی۔وہ خود چاپنگ بور ڈ پر بادام کو چوپ کر رہی تھی
’’ نہیں میڈم۔۔اوہ سوری۔۔۔‘‘عادت اتنی جلدی نہیں بدلتی۔ شگفتہ بی بی کا
چہرہ دیکھتے ہی اسے ایسا گا جیسے وہ اب بھی کالج کی پرنسپل ہوں اور وہ
خودوہاں ایک ٹیچر۔ لیکن اب رشتہ بدل چکا تھا۔
’’ کوئی بات نہیں۔۔‘‘ وجیہہ کی بات پر انہیں ہنسی آگئی۔ آگے بڑھتے ہوئے
انہوں نے کیتلی کا ڈھکن اٹھایا
’’ویسے تم مجھے امی کہہ سکتی ہو۔۔۔ اور یہ کھیر دیکھنے میں تو بڑی مزے کی
لگ رہی ہے۔۔‘‘بھنویں اچکاتے ہوئے اس کی تعریف کی تھی۔وجیہہ نے چوپ کئے
باداموں کو ایک طرف سمیٹ کر رکھا اور پھر پیچھے شیلف کی طرف مڑی
’’ شکریہ امی۔۔!! اور یہ پستہ کہاں رکھا ہے؟‘‘ شلیف پر رکھے تمام ڈبوں کو
اس نے تقریباً چیک کر لیا تھا، وہاں تمام سوغات تھیں سوائے پستے کے
’’ میرے خیال سے پستہ تو ختم ہوچکا ہے لیکن پھر بھی تم اس ڈبے کو دیکھ لو۔۔
میں عموماً اس ڈبے میں رکھتی ہوں پستہ۔۔‘‘ شیلف میں سب سے پیچھے ایک چھوٹا
سا نیلے رنگ کا ڈبہ تھا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اُس میں صرف پستے کے چار
دانے نکلے۔
’’چلو یہ بھی چلے گا۔۔‘‘اس نے چاروں دانوں کو چوپنگ بورڈپر رکھا اور دوبارہ
چاقو سے بڑی مہارت اور نفاست کے ساتھ انہیں چوپ کرنے لگی۔
’’ بیٹا یہ ویسے ہی کہہ ڈال دیتیں۔ اب بھلا اتنی سی چیز کو کیا چوپ
کرنا۔۔‘‘کھیر تقریباً بن چکی تھی۔ شگفتہ بی بی نے چولہہ بند کر کے کیتلی کو
ذرا سائیڈ میں رکھا
’’ امی اس طرح سب کے حصے میں آجائے گا۔ ورنہ تو چاروں ایک ہی چمچ میں سما
جائیں گے ۔‘‘چوپ کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
’’ بہت خوب۔۔ ویسے ضرغام کو بہت پسند ہے پستے والی کھیر۔۔ اکثر مجھ سے
فرمائش کر کے بنواتا ہے‘‘ کھیر کی خوشبو کو سونگھتے ہوئے انہوں نے کہاتھا۔
چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ کھیر مزید بنی ہے
’’تو پھر میں سب سے پہلے یہ ضرغام کو ہی دے کر آتی ہوں۔۔‘‘جلدی پستہ کو
کھیر کے اوپر ڈالا اور کچھ علیحدہ سے بچالیا۔سٹینڈ سے ایک پیالی لی اور اس
میں کچھ کھیر نکال کر باقی بچا ہوا پستہ ڈال دیا۔
’’ میں ابھی دے کر آتی ہوں ضرغام کو۔۔‘‘بڑے مان کے ساتھ وہ پیالی کو ہاتھ
میں لئے کمرے کی طرف بڑھنے لگی ۔شگفتہ بی بی اس کو جاتا دیکھ کر مسکراتی
رہیں اور دل سے دونوں کے لئے دعائیں دینے لگیں۔
’’ ضرغام میں آپ کے لئے۔۔‘‘ اس کے الفاظ یہ دیکھ کر ادھورے رہ گئے کہ وہاں
کوئی نہیں تھا۔ بیڈ پر لحاف پڑا تھا مگر ضرغام نہیں تھا۔اس نے کھیر کو آگے
بڑھ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔ اتنے میں ضرغام واش
روم سے فریش ہو کر باہر آگیا۔ اس کو دیکھ کر وہ خوشی سے پھول گئی۔چہرے پر
ہلکی سی تبسم چھاگئی۔وہ بلیک جینز اور بلیک بنیان پہنے ہوئے تھے۔ٹاول اس کے
کندھے پر جھول رہا تھا۔ وہ بالوں کو جھٹکتے ہوئے ڈریسنگ کے سامنے آیا اور
اور لٹکی ہوئی شرٹ کو پہننے کے لئے ٹاول کو بیڈ پر دے پھینکااور گنگناتا
ہوا شرٹ پہننے لگا
’’ ضرغام۔۔ میں آپ کے لئے یہ کھیر بنا کر لائی ہوں۔۔‘‘ وہ پیالی لے کر اس
کے سامنے آئی مگر اس نے ان سنا کر دیا وہ مسلسل اس کو اپنی وہاں ہونے کا
احساس دلا رہی ھی مگر وہ مسلسل اگنار کر رہا تھا۔سیٹی بجاتے ہوئے آئینے کے
سامنے گیا۔ کنگی کی اور پرفیوم لگایا مگر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں
دیکھا۔وہ سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتی رہی۔ کمرے کی جس کونے میں جاتا ،
پیچھے پیچھے دل دیتی، جس سے وہ مزید چڑ گیا اور تپ کر بولا
’’کیا سائے کی طرح میرا پیچھاکر رہی ہو۔۔ ایک جگہ ٹِک کر کھڑا نہیں ہوا
جاتا۔‘‘آنکھیں دیکھاتے ہوئے اس نے کہا تھا
’’وہ ۔ میں۔۔ کھیر۔۔۔۔‘‘اس نے بس یہی الفاظ کہے تھے کہ ضرغام نے ایک جھٹکے
سے اس کے ہاتھوں میں موجود پیالی کو اچھال دیا ۔ ساری کھیر فرش پر بکھر
گئی۔اور وہ بس دیکھتی رہ گئی۔
’’ سمیٹ لو اب اپنی کھیر۔۔۔‘‘ اس نے جھلاتے ہوئے کہا تھا۔
’’کیا ہوا؟۔۔۔ اور یہ‘‘ضرغام کے چلانے کی آواز سن کر وہاں شگفتہ بی بی بھی
آموجود ہوئیں۔ کھیر کو بکھرا ہوا پایا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
’’ایک بات کان کھول کر اپنے دماغ میں بٹھالومیرے آگے پیچھے یوں بھنبھنانے
کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔میرا اور تمہارا تعلق صرف نکاح کی حد تک تھا۔ اب جب
نکاح ہوگیا اور یہ ساری پراپرٹی میرے نام ہوگئی تو میرا تم سے اب کوئی
واسطہ نہیں۔۔۔ سنا تم نے۔۔‘‘اُس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا ۔
شگفتہ بی بی بس اس کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔ یہ کہہ کر وہ زور دار آواز سے
دروازے کو بند کرتا ہوا چلا گیا۔
’’ وجیہہ۔۔‘‘شگفتہ بی بی نے وجیہہ کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دینا
چاہا مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ وجیہہ ہے۔بچپن سے آج تک یہی تو بے
رخی برداشت کرتی آرہی ہے ۔ حالات کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنا تو جیسی اس
کی عادت بن چکی ہے۔ ایک ہلکی سی تبسم کے ساتھ اُس نے شگفتہ بی بی کی طرف
دیکھا اور پھر پیالی کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں اٹھانے لگی۔
* * * *
’’ امی۔۔۔‘‘وہ چلاتا ہوا گھر میں داخل ہوا تھا۔غصے سے اس کا رنگ پہلے سے
کہیں زیادہ سرخ ہوچکا تھا۔ ہاتھوں میں کاغذ کے ٹکروں کو فولڈ کئے بری طرح
نوچ رہا تھا
’’کہاں ہیں آپ۔۔؟ باہر آئیے۔۔‘‘ضرغام کے چیخنے کی آواز سن کر شگفتہ بی بی
اپنے کمرے سے باہرآئیں ۔ وجیہہ بھی کچن سے ہاتھوں میں پانی ایک گلاس لئے ٹی
وی لاؤنج میں آموجود ہوئی
’’کیا ہوا؟ ایسے کیوں چیخ رہے ہو؟ تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے تم
میں؟‘‘شگفتہ بی بی نے آتے ہی اس کو جھاڑا
’’تہذیب ؟ یہ آپ مجھے کہہ رہی ہیں؟ آپ نے جو مجھ سے وعدہ خلافی کی ۔ اُس کا
کیا؟‘‘و ہ دہکتی آنکھوں شگفتہ بی بی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ ضرغام آپ پانی پئیں۔۔‘‘وجیہہ نے پانی کا گلاس ضرغام کی طرف بڑھایا تو
اُس نے غصے میں گلاس کو اچھال دیا۔ سارا پانی وجیہہ کے کپڑوں پر جا گرا۔
’’ یہ کیا بدتمیزی ہے ضرغام؟‘‘
’’بدتمیزی؟ ‘‘ اس نے جھلاتے ہوئے مزید کہا
’’ پہلے تو آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ یہ کیا ہے؟‘‘پیپرز کو ہو ا میں
اچھال دیا
’’آپ نے جو کہا میں نے کیا مگر آپ نے پھر بھی پراپرٹی میرے نام نہیں کی ۔۔۔
کیوں؟‘‘ضرغام عقابی آنکھوں سے شگفتہ بی بی کی طرف دیکھ رہا تھا
’’اوہ۔۔ تم اس لئے غصہ ہو ۔ ‘‘ طنزیہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر ابھری تھی
’’تم نے پراپرٹی کی بات کی تھی۔سو میں نے کر دی۔‘‘ ان کے چہرے پر طمانت تھی
’’براق گروپ آپ کالجز میرے نام کیوں نہیں کئے؟‘‘دہکتی آنکھوں سے اس نے سوال
داغا تھا
’’ہر چیز کو پانا اتنا آسان نہیں ہوتا ضرغام۔۔ تم کیا سمجھے تھے ؟ میں
تمہاری چال کو نہیں سمجھ پا ئی۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ تم یہ شادی محض
پراپرٹی کے لئے کر رہے ہواور پراپرٹی حاصل کرنے کے بعد یہ شادی تمہارے لئے
بے معنی ہوجائے گی بس اس لئے میں نے ایک حصہ وجیہہ کے نام کر دیا۔اب اگر تم
اسے چھوڑتے ہوتو پراپرٹی کے ایک بڑے حصے سے تم ہاتھ دھو بیٹھو گے‘‘ایک ایک
بات انہوں نے کھول کر بتا دی
’’یہ آپ نے اچھا نہیں کیا‘‘زیر لب وہ بڑبڑایا تھا
’’ضرغام! آپ غصہ مت ہوں ۔ جو کچھ میرا ہے ، اُن سب پر آپ ہی کا تو حق ہے ۔
بھلا میں کیا کروں گی اِن سب کا۔ایک بیوی کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا
ضرغام‘‘وجیہہ نے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کا طعش بڑھتا ہی جا رہا
تھا
’’جسٹ شیٹ اپ۔۔تم اپنی بکواس بند کرو اور یہ مت سوچنا کہ میری پراپرٹی کو
تم اتنی آسانی سے ہضم کر لو گی۔میں تم سے اپنا سب کچھ واپس لے کر رہوں گا۔۔
کِیپ اِن مائینڈ۔۔‘‘چیلنج کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔کچھ پل یونہی گھورنے کے
بعد وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
’’دیکھا۔۔ کہا تھا ناں میں نے ۔۔‘‘ضرغام کے جانے کے بعد شگفتہ بی بی وجیہہ
کے پاس آئیں اور ایک حسرت بھری نگاہ اس سیڑھیوں پر ڈالی جن کو چڑھتا ہوا وہ
وہاں سے گیا تھا۔
’’بہت جلد سمجھ جائیں گے۔۔‘‘اس کے سوا وہ اس وقت کچھ نہ کہہ سکی۔
* * * * *
شادی سے پہلے ہی شگفتہ بی بی نے وجیہہ کو ضرغام کے بارے میں سب کچھ سچ سچ
بتا دیا تھا اور اس کو اِس سچائی سے بھی روشناس کروا دیا تھا کہ ضرغام اس
سے شادی محض پراپرٹی کی خاطر کر رہا ہے۔یہ سن کر پہلے تو وجیہہ کو ایک
دھچکا لگا مگر پھر سوچ و بچار کے بعد وہ اس رشتے پر رضامند ہوگئی۔آخر کبھی
نہ کبھی تو اسے شادی کرنی ہی تھی ۔ کبھی نہ کبھی تو اس گھر سے بیدائی تو
ہونی تھی اور کیا معلوم جس گھر میں جاتی وہ اسے اِس روپ میں اپنا بھی پاتے
یا نہیں۔ یہاں کم سے کم شگفتہ بی بی تو وجیہہ کوسمجھتی تھیں۔اس کے احساسات
کو جانتی تھیں۔یہی سوچتے ہوئے اس نے ضرغام سے شادی کے لئے ہامی بھر لی۔
شادی کے بعد وہ کئی دن تک اپنے میکے نہ گئی۔وہاں کیا ہورہا ہے کیا نہیں اسے
کچھ خبر نہ تھی۔ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد رضیہ بیگم کا فون آیا کہ وہ ایک
بار ان کے ہاں چکر تو لگائے۔ شادی کا مطلب یہ تو نہیں کہ بیٹی کا میکے سے
تعلق ہی ختم ہوگیا۔اب اکیلے جانا کئی سوالات کو جنم دے سکتا تھا اور ضرغام
وہ تو وجیہہ کے ساتھ کہیں جانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔اِس کا خیال تھا
شاید وجیہہ کا ذہن اس سے ملتا ہو مگر دونوں کے ذہنوں میں تو زمین و آسمان
کا فرق تھا۔ ایک زمین تھی وت دوسرا آسمان۔ ایک اسلام کا اشعار اپنے ہوئے تو
دوسرا دنیا کے رنگ میں کھوئے ہوئے۔شگفتہ بی بی نے منت سماجت کر کے ضرغام کو
وجیہہ کے سان جانے پر آمادہ کیا۔ نہ جانے اس کے دل میں کیا آئی اس نے اثبات
میں سر ہلادیا
’’السلام علیکم امی!السلام علیکم ابو۔۔‘‘گھر پہنچی تو علی عظمت اور رضیہ
بیگم ٹی وی لاؤنج میں تھے۔ضرغام اور وجیہہ دونوں ٹی وی لاؤنج میں داخل
ہوئے۔ضرغام کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ بنا بولے وہ ایک صوفے پر براجمان ہوگیا
’’کیسی ہو وجیہہ؟ اتنے دنوں بعد؟ سسرال جاکر تو ہمیں بھول ہی گئی۔۔‘‘وجیہہ
کے گلے لگتے ہوئے رضیہ بیگم نے کہا تھا
’’جب سسرال میں اتنا آرام ملے گا تو میکے کو کون یاد کرے گا؟‘‘ضرغام نے
طنزیہ کہا تھا مگر رضیہ بیگم اور علی عظمت نے اس کی بات کا الٹا مطلب لیا
’’یہ تو ہے۔‘‘ ہنستے ہوئے علی عظمت نے کہا
’’کیا لو گے تم بیٹا؟‘‘رضیہ بیگم نے ضرغام سے پوچھا تو اس نے بے نیازی سے
اُن کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ یہ دیکھ کر رضیہ بیگم کے چہرے کا رنگ
پھیکا پر گیا
’’اِن کے لئے آپ گرین ٹی بنا لیں۔ انہیں بہت پسند ہے۔‘‘بات کو سنبھالتے
ہوئے وجیہہ نے کہا
’’ ہنہ۔۔۔‘‘طنزیہ انداز میں گردن جھٹکتے ہوئے اس نے ٹیبل سے ایک میگزین
اٹھا یا اور بے نیازی سے اس کے ورق الٹنے لگا
’’اور سناؤ بیٹا۔۔ کیسا جا رہا ہے تمہارا شو؟‘‘علی عظمت نے پوچھا
’’بہت اچھا۔۔‘‘بے رخی سے جواب دیا
’’ ابو۔۔ یہ انمول نظر نہیں آرہا؟ کہیں گیا ہوا ہے؟‘‘وجیہہ نے بات بدلتے
ہوئے پوچھا
’’بس کیا کریں بیٹا تم تو جانتی ہو اپنے بھائی کو۔۔۔ کہاں جاتا ہے کسی کو
بتا کر۔۔‘‘علی عظمت اور وجیہہ آپس میں باتیں کرتے رہے اور ضرغام سب سے بے
پروا ہ ہو کر گھر کے نقوش کو دیکھتا رہا۔
’’ یہ لو بیٹا! تمہاری گرین ٹی۔۔‘‘رضیہ بیگم نے ٹی سرو کی تو اس نے گردن کو
جھٹکتے ہوئے اپنا کپ اٹھایا اور پھر دوبارہ بے نیازی سے ٹانغ پر ٹانگ رکھے
گھر کو دیکھتا رہا
’’ایرانی طرز کا یہ نقش و نگار۔۔‘‘گھر کے نقش و نگار کو دیکھ کر وہ اس کی
تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔بوریت بھی اب اس کے چہرے سے دور ہوچکی تھی
’’ٹھیک کہا بیٹا۔۔یہ سب علی عظمت کی پسند کا ہے۔‘‘رضیہ بیگم چائے سرو کرنے
کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ چکی تھیں
’’ بہت اچھی چوائس ہے آپ کی۔۔‘‘حیرت سے اس نے علی عظمت کو دیکھا اور پھر
دوبارہ گھر کو دیکھنے لگا۔ وجیہہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔ جو
ڈر اس کے دل میں کھٹک رہا تھا وہ اب دور ہوتا دیکھا ئی دیا۔ضرغام نے یہاں
کسی قسم کو کوئی تماشا نہیں بنایا۔سب خاموشی سے چائے پی رہے تھے کہ وجیہہ
کے نظر دروازے کی جانب اٹھی اور جو دیکھا اس پر یقین نہ کرسکی۔
’’ انمول؟‘‘زیر لب اس نے کہا تھا۔یہ نام سن کر سب دروازے کی جانب دیکھنے
لگے۔ سب پر ایک سکتہ طار ی ہوگیا ماسوائے ضرغام کے۔ جو ہونے والے تماشے سے
محظوظ ہونے لگا۔ایک تمسخرانہ ہنسی اس کے چہرے پر ابھر آئی۔ دروازے پر انمول
اور عندلیب تھے۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ دہلیز کے اُس پار کھڑے
تھے۔عندلیب نے ایک سرخ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا ۔ جو کوئی دلہن اوڑھا کرتی ہے۔
بالکل ویسا ہی۔سب دہلیز کی جانب بڑھنے لگے
’’انمول۔۔۔ کیا ہے یہ؟‘‘علی عظمت نے کہا تھا
’’وہ ڈیڈ میں نے شادی کر لی ہے۔‘‘ اس نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا تھا
’’پٹاخ۔۔‘‘ایک تھپڑ اس کے سیدھے رخسار پر پیوست کیا وہ دائیں جانب کو جھک
گیا۔
’’بدتمیز۔۔ شادی ایسے ہوا کرتی ہیں۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی اتنا بڑا قدم خود
سے اٹھانے کی؟‘‘چہرے پر آئی طمانت پل بھر میں غائب ہوگئی۔
’’ انمول! یہ کیا کیا تم نے؟ہماری عزت کا ذرا بھی خیال نہ آیا تمہیں؟‘‘رضیہ
بیگم نے پہلی بار سخت لہجے میں انمول سے بات کی تھی مگر اب سخت لہجے کا
کوئی فائدہ نہیں تھا۔جب سخت لہجہ برتنا چاہئے تھا تب تو نرمی سے بات کرتے
رہے مگر آج جب پانی سر سے اونچاہوگیا تو انہیں احساس ہونے لگا
’’موم۔۔ یہ آپ کیا بات کر ہی ہیں۔ میں عندلیب کو پسند کرتا تھا اور اسی لئے
میں نے اس سے شادی کر لی اور ویسے بھی اتنے شور شرابے کا کیا فائدہ
تھا؟‘‘وہ ایسے ری ایکٹ کر رہا تھا جیسے کوئی بڑی بات نہ ہوئی ہو
’’ لیکن انمول! تم نے ایک بار بتاناگوارا بھی نہیں سمجھا‘‘وجیہہ نے کہا تھا
’’نہیں سمجھا!‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا
’’اور اب کیا آپ مجھے ایسے دیکھ رہے ہیں۔ میں نے شادی کی ہے کوئی گناہ
نہیں۔چلو عندلیب یہاں سے ۔۔‘‘ اس نے بے رکھی دیکھاتے ہوئے عندلیب کا ہاتھ
پکڑا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ علی عظمت اور رضیہ بیگم یک ٹک انمول
کی طرف دیکھتے جا رہے تھے۔
’’عجیب تماشا ہے دنیا۔۔‘‘ضرغام زیر لب گنگنایا تھا۔ اس کی آواز وجیہہ کے
علاوہ کوئی سن نہیں سکا۔ ایک عجیب سی کشش تھی اُس کے چہرے پر۔ایسا لگ رہا
تھا جیسے وہ ان سب سے محظوظ ہو رہا ہو۔دونوں ہاتھوں کو سینے پر ہاتھ باندھے
اس نے انمول اور عندلیب کو گزرنے کا راستہ دیا۔علی عظمت نے ایک نظر ضرغام
کے چہرے پر ڈالی جو تمسخرانہ ہنسی دبائے ہوئے تھا۔انہیں اپنی عزت کا جنازہ
نکلتا نظر آیا۔ گھر کے داماد کے سامنے ان کے بیٹے نے اپنی ہی بہن کے لئے
زندگی بھر کا ایک طعنہ چھوڑ دیا۔انہوں نے ایک نظر وجیہہ پر ڈالی جو حالات
کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’ویسے انمول نے اتنا برا بھی نہیں کیا۔۔ جسٹ چِل۔۔‘‘ضرغام نے جارحانہ لہجے
میں کہا اور باہر کی طرف چل دیا
’’وجیہہ تم ڈرائیور کے ساتھ آجانا مجھے شو کے لئے لیٹ ہو رہا ہے۔‘‘جاتے
ہوئے اس کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر تھا جسے وجیہہ محسوس کرسکتی تھی۔علی
عظمت اور رضیہ بیگم نے بھی روکنے کی جرات نہ کی۔وہ گنگناتا ہوا بالوں پر
ہاتھ پھیرتے ہوئے دہلیز کے پار چلاگیا ۔ وجیہہ نے استفہامیہ انداز میں علی
عظمت کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہوکہ
’’ میری زندگی پہلے کم مشکل میں تھی جو انمول نے مزید مشکل بنا دی۔ضرغام کے
سامنے اسے یہ راز افشاں نہیں کرنا چاہئے تھا۔‘‘ مگر جوہونا تھا وہ تو ہوچکا
تھا۔ اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔سوائے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول
کرنے کو۔
’’ امی! یہ انمول نے ٹھیک نہیں کیا؟ کم سے کم ضرغام کا تو خیال کرتا
وہ۔۔‘‘رضیہ بیگم اپنے ہی خیالوں میں گم کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی۔
وجیہہ پانی پینے کچن میں آئی تو اس نے گلاس شیلف سے اٹھاتے ہوئے کہا
’’اب بھلا میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘انہیں تو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی
نہیں آرہا تھا۔جس بیٹے پر اتنا مان تھا ۔ اس نے ایک پل میں ہی ایسا پرایا
کردیا کہ اپنی زندگی سے ہی بے دخل کردیا۔ زندگی کا اتنا بڑا اور اہم فیصلہ
اس نے اکیلے کر لیا۔وجیہہ نے پانی پی کر ایک نظر رضیہ بیگم پر ڈالی جو
ہراساں کھڑی اپنی ہی سوچوں میں گم تھیں
’’امی۔۔ میں ہمیشہ اسی دن سے ڈرتی تھی۔آپ کے بے جا لاڈ پیار نے آج اس کو یہ
قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔اُس نے ہمیشہ آپ کے پیار کا ناجائز فائدہ
اٹھایا ہے اور آج وہ اتنا حد سے گزر گیا کہ اس نے اپنی زندگی کا اتنا اہم
فیصلہ بنا کسی کے مشورے سے کر لیا۔۔‘‘وجیہہ نے رضیہ بیگم کے شانوں پر ہاتھ
رکھ کر کہا
’’ ہاں۔۔۔‘‘وہ تو جیسے اس کی باتوں کو سن ہی نہ سکیں۔ بس اپنے ہی خیالوں
میں گم تھیں
’’امی۔۔ ابھی بھی وقت ہے ۔سمجھ جائیں آپ کہیں ایسا نہ ہو اس سے بھی برا
ہو۔۔‘‘وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔رضیہ بیگم نے ایک حسرت بھری نگاہ کچن
کے دروازے پر ڈالی جہاں سے ابھی ابھی وجیہہ گزر کر گئی تھی۔ وجیہہ کے آخری
لفظ ان کے کانوں میں گونجنے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس ناول میں پیش آنے والے واقعات اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے
|