بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کے ساتھ ملاقات اور ضیافت سے چند گھنٹے پہلے یہ اعلان کیا گیا۔ ضیافت
میں امریکی خاتون اول کی شرکت اور دیگرتاثرات سمیت سب کہتے ہیں اس کا مقصد
مودی کی خوشنودی تھا۔ جو بھارت کو امریکی منڈی بنانے اور فوجی اڈے فراہم
کرنے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی
وجوہات میں سے ایک یہ بھی بیان کی گئی کہ انھوں نے مسلہ کشمیر کو پرامن طور
پر حل کرنے میں رکاوٹ ڈالنے،مزید کشمیری ٖخود کش بمباروں کی ٹریننگ
اورکشمیر کو بھارتی فورسز کا قبرستان بنانے کا اعلان کیاہوا ہے۔ وہ فوج جو
کشمیر میں Genocideمیں مصروف ہے۔ عوام کا قتل عام کر رہی ہے۔جس نے سیکڑوں
نہتے بچوں اور خواتین تک کی پیلٹ اور زہریلی گیسوں سے بینائی چھین لی ہے۔
ہزاروں نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں اور جیلوں میں ذہنی اور جسمانی طور پر
معذور بنایا جا رہا ہے۔جو فوج عوام کا قتل عام کر رہی ہے اور سنگین جنگی
جرائم جاری رکھے ہوئے ہے ، جو فوج کشمیر پر جبری قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور
قبضے میں توسیع کے عزائم رکھتی ہے، جو بندوق کی نوک پر عوام کی تمام
آزادیاں اور حقوق سلب اور پامال کر رہی ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد کو دہشتگردی
قرار دے کر ٹرمپ حکومت نے ظلم اور ناانصافی کی نئی داستان رقم کی ہے۔ وائٹ
ہاؤس میں مودی کے ٹرمپ ے ساتھ معانقے اور ’’ریڈیکل اسلامک ٹررازم‘‘کے خلاف
دونوں کا عزم دہشتگردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش سمجھی جاتی ہے۔ اس میں
ہندو دہشتگردی کی کوئی اصطلاح کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ امریکہ نے مودی
اور بھارت کا دہشتگردانہ کردار نظرانداز کر دیا۔ جس سے جارج واشنگٹن اور
ابراہیم لنکن کی تحریک کی نفی ہوتی ہے۔ امریکہمطالبہ کرتاہے کہ پاکستان کی
سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہ ہو۔ لیکنبھارت پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا
کہ وہ کشمیر میں سرکاری ریاستی دہشتگردی بند کرے۔ امریکہ اپنا مزید زنگ
آلود اسلحہ بھارت کو فروخت کرے گا جو نہتے کشمیریوں کے خلاف استعمال ہو
گا۔اس اسلحہ گولہ بارود، ڈرون، جنگی ساز و سامان کی فروخت کے لئے کشمیر کی
مقامی تحریک اور مقامی تنظیم حزب المجاہدین ،مقامی تنظیموں کے اتحاد کے
سربراہ کو عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا۔ جس نے کبھی بھی امریکی مفادات کو
نقصان نہیں پہنچایا۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام
سے روکے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے میں مزید
تاخیری حربے استعمال نہ کرے۔ امریکہ اگر بھارت کی ریاستی دہشتگردی کو
کشمیری مسلمانوں کے لئے درست سمجھتا ہے تو وہ دنیا میں انسانی حقوق کی
پاسداری کا منافقانہ موقف کیسے اپنا سکتا ہے۔ امریکی ایگزیکٹو آرڈر کی رو
سے سید صلاح الدین عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے
امریکا کا سفر نہیں کرنا اور نہ ہی امریکہ میں جائیداد یا اثاثے جمع کرنے
ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹ بھی امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک میں نہیں ہیں۔ اس
لئے امریکی اعلان سے صلاح الدین صاحب کو کوئی نقصان کیسے پہنچے گا۔ سید
صلاح الدین اس لئے عالمی دہشتگرد قرارپائے کیوں کہ وہ مسلمان ہیں اور آزادی
پسند بھی۔ ان کا اصل نام محمد یوسف شاہ ہے۔ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے
تھے۔انہوں نے 1987میں مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔
لیکن بھارت نے روایتی طور پر انتخابی دھاندلی کی۔ جس سے مایوس ہو کر وہ
بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ سید صلاح الدین سمیت کسی بھی کشمیری مجاہد
کمانڈر نے آج تک امریکہ یا کشمیر سے باہر حملہ کرنے کی بات نہیں کی۔ کیوں
کہ ان کا ٹارگٹ بھارتی فورسز ہیں جو کشمیریوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔
کشمیری مجاہدین نے کبھی بھارتی شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ کئی بار
نہتے بھارتی سیاحوں کی مدد کی۔ کشمیر میں بھارتی ہندؤں کا تہوار امرناتھ
یاترا شروع ہو چکی ہے۔ کشمیری مجاہدین نے ہندو یاتریوں پر کبھی حملے نہیں
کئے۔ بلکہ یہ کشمیری آزادی پسند عوام تھے ۔ جنھوں نے 2014کے سیلاب میں
پھنسے بھارتی فوجیوں کو رضاکارانہ طور پر ڈوبنے سے بچایا۔ انہیں شیلٹر اور
خوراک فراہم کی۔ جو بھارتی فوج کشمیریوں کو قتل کر رہی ہے، اس فوج کو مصیبت
کے وقت کشمیریوں نے امداد فراہم کی۔ اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل
سکتی۔
نریندر مودی کی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے امریکی وزیر دفاع جیمز مٹس اور
وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھارتی وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔ جب ٹیلر سن کی
مودی سے ملاقات جاری تھی، اسی وقت وزارت خارجہ کا نوٹیفکیشن آگیا جس میں
سید صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دیا گیا۔ تا ہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ
اس سے سید صلاح الدین کو نقسان کم اور فائدہ زیادہ ہو گا۔ مسلہ کشمیر عالمی
سطح پر اجاگر ہو گا۔ کشمیر کی آواز دنیا میں سنی جائے گی۔ یہ بھی درست ہے
کہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دینے سے امریکی مفادات کو نقصان
پہنچے گا۔ امریکہ کے خلاف کشمیریوں اور پاکستانیوں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر
کے مظلوم قوموں کے جذبات مشتعل ہوں گے۔ تارکین وطن کشمیری بھی امریکہ سے
مایوسی کا اظہار کریں گے۔ بھارت خطے میں بالادستی چاہتے ہیں۔ بھارت نے
جنوبی ایشیا اسلحہ کی دوڑ شروع کی ہوئی ہے۔ امریکی جنگی اسلحہ کی فروخت سے
اس خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز ہو سکتی ہے۔ جو کہ علاقائی اور عالمی امن کے
لئے خطرناک ہے۔ امریکہ نے پروفیسر حافط سعید، مولانا مسعود اظہر، ذکی
الرحمان لکھوی، داوود ابراہیم، عبد اﷲ منتظر سمیت لا تعداد پاکستانیوں کو
عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ ان کا تعلق القاعدہ، طالبان،
داعش سے جورا جا رہا ہے۔ جب کہ سابق امریکی وزیر خارجہ اور خاتون اول ہیلری
کلنٹن خود اعتراف کر چکی ہیں کہ داعش قائم کرنے میں امریکی کردارہے۔ یہ
اشارے بھی ملے ہیں کہ امریکہ اور بھارت نے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے قتل
عام کا جوا زپیدا کرنے کے لئے خود داعش قائم کی ہے اور اس کی تشہیر کی جا
رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کی مقبوضہ کشمیر میں موجودگی کا بھارت پروپگنڈہ
کر رہا ہے۔ بھارت نے امریکہ کو بھی شیشے میں اتار لیا ہے۔ سید صلاح الدین
کو گلوبل دہشتگردقرار دینے سے کشمیر کی تحریک کے گلوبلائز ہونے کے امکانات
ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ جب کہ حزب المجاہدین سمیت دیگرکشمیری تنظیموں کا کو
ئی عالمی ایجنڈا نہیں رہا ہے۔جب کشمیر میں داعش کے پرچم لہرائے جانے لگے تو
سید صلاح الدین اور جہاد کونسل نے داعش یا القاعدہ اور طالبان سے لا تعلقی
کا اظہار کیا۔ انہوں نے کشمیریوں سے بھی خبردار رہنے کی اپیل کی۔ کیوں کہ
کشمیر ی بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کا انخلاء اور اقوام متحدہ
کی قرادادوں کے مطابق رائے شماری ان کا مقصد ہے۔ اگر امریکہ کی طرف سے سید
صلاح الدین کو گلوبل دہشتگرد قرار دینے کے بعد کشمیریوں کی نسل کشی میں
اضافہ ہو ا تو یہ بھارت کو امریکہ کی کھلی چھوٹ ہو گی کہ وہ دہشتگردی کی آڑ
میں کشمیریوں پر امریکی جنگی اسلحہ استعمال کرے۔ امن پسند دنیا نے اس کا
سختی سے نوٹس نہ لیا تو بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور کشمیریوں کے
Genocideمیں اضافہ ہو جائے گا۔ |