دیار غیر میں رہتے ہوئے وطن سے محبت کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔
نازیہ (فرضی نام) کی عمر اس وقت پنتیس سال ہے۔ لندن میں پیدا ضرور ہوئی ہے
لیکن دل آج بھی پاکستانی ہے۔ شرم و حیا ، اسلامی طرز زندگی ۔ لگتا ہی نہیں
ہے کہ نازیہ گوروں کے ساتھ رہ کر جوان ہوئی ہے۔ نازیہ میں انگریزی بولنے کے
علاوہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی اسے یوکے بارن کہہ سکے۔ سو فیصد
پنجابی مٹیار ہے۔ ڈبل ایم اے اور پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ سماجی اور مذہبی
حلقوں میں اچھی پہچان کی حامل ایکٹیوسٹ ہے۔پاکستان سے محبت نازیہ کو ورثے
میں ملی جس کا وہ پالن کرتی آ رہی تھی مگر ایک واقعہ نے نازیہ کو نہ صرف
پاکستان سے دور کر دیا بلکہ پاکستانیوں بالخصوص پاکستانی مردوں سے نفرت کی
حد تک جذبات پید ا کردیے ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ نازیہ اپنی پیشہ وارانہ
امور کیلئے ایک کمپنی کے آفس جاتی ہے۔ وہاں ایک شخص نے نازیہ کو تاڑ کر کہ
پاکستانی لڑکی ہے۔ اپنا تعارف کرایا آئی ایم فرہاد احمد اور ساتھ وزٹینگ
کارڈ تھما دیا کہ وہ بھی پاکستانی ہے۔ نازیہ نے حسب عادت خوشی کا اظہار کیا
اور پاکستانی شخص فرہاد کو اپنا موبائل نمبر دیتے ہوئے کہا کہ ملاقات رہے
کی انشائاﷲ۔ پاکستانی مرد فرہاد نازیہ کو اکثر ایس ایم ایس کرتا اور کبھی
کال بھی کر لیتا ۔ نازیہ خوش اخلاقی سے بات بھی کرتی اور ایس ایم ایس کے
جوابات بھی باقاعدگی سے دیتی رہی ۔ ملاقات کے دس پندرہ دن بعد فریاد نے
نازیہ کو کال کی اور بتا یا کہ سنڈے کو اس کی سالگرہ ہے۔ وہ آپ کو سالگرہ
میں شرکت کی دعوت دینا چاہتا ہے۔ نازیہ نے خوش دلی سے دعوت قبول کرتے ہوئے
کہا کہ وہ ضرور شریک ہوگی۔ نازیہ نے اپنی امی کو بھی بتایا کہ وہ ایک
پاکستانی دوست کی سالگرہ تقریب میں جا رہی ہے۔ نازیہ کی امی نے تفصیل پوچھی
کہ پاکستان سے کہاں سے ہے وغیرہ غیرہ ۔ نازیہ نے اپنی امی کو کہا وہ واپسی
پر سب کچھ تبائے گی اور تصاویر بھی بنا کر لائے گی۔ نازیہ جب فریاد کے فلیٹ
پر پہنچی تو وہاں سالگرہ تقریب کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ فریاد اکیلا ہی
تھا۔ نازیہ نے دوستو اور کیک کا پوچھا تو فرہاد نے آئیں بائیں شائیں کرتے
ہوئے کہا کہ آپ تشریف رکھیں ۔ دوست کچھ لیٹ ہیں ۔ کیک بھی دوستو نے ہی لیکر
آنا ہے۔ نازیہ کے بیٹھتے ہی فریاد کے اندر کی وحشی مردانگی ابلنے لگی۔
نازیہ کے انکار پر فریاد نے وحشت کا وہ مظاہرہ کیا کہ نازیہ کیلئے سالگرہ
قیامت بن گئی۔ گھر واپس جا کر نازیہ نے صاف صاف اپنی امی کو بتایا دیا کہ
آپ کے ہم وطن نے اسے abuse بھی کیا ہے اور use بھی کیا ہے۔ ماں بیٹی سے
شرمندہ ہے۔ اب گھر میں پاکستان کا نام لینا ممنوع قرار پایا ہے۔نازیہ کا
کہنا کے کہ وہ فرہاد کیخلاف کچھ نہیں کرنا چاہتی ہے۔ بس وہ برطانیہ میں
مقیم پاکستانی اور مسلم لڑکیوں میں یہ شعور اجاگر کرتی رہیگی کہ پاکستانی
مردوں سے دور رہیں ۔ کبھی کسی پاکستانی مرد پر ٹرسٹ نہ کرنا۔نازیہ جس تجربے
سے گزری ہے ۔ اس پر وہ ایک پلے اور دستاویزی فلم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایسی مردانگی ایک اور پاکستانی نوجوان نے ایک نوعمر گوری لڑکی کو دکھائی ۔
پہلے دوست بنایا اور پھر فلیٹ پر بلا کر ریپ کرنے کی کوشش کی ۔ لڑکی کے
مزاحمت کرنے پر جان سے مار دیا اور آج کل کسی برطانوی جیل میں سزا کاٹ رہا
ہے۔
|