اخلاقی بگاڑ کے معاشرے پر اثرات

 ہمیں ایشیاء، افریقہ اور یورپ کےمختلف ممالک میں کئی ایک ماحول اور معاشرے دیکھنے کا موقع ملا۔ لوگوں کے اخلاق و کردار اور معاشروں کے اتار چڑھاؤ سے آگاہی ہوئی۔ اس بناء پر تقابلی جائزہ لینے میں بھی قدرے آسانی رہتی ہے۔ ہر معاشرہ اپنی وضع قطع کے لحاظ سے خوبیوں اور خامیوں کا حامل ہوتا ہے۔ معاشرے کی بقاء باہمی کا دارو مدار اخلاقی اقدار کی پاسداری پر ہوتا ہے۔ تاریخ عالم پر گہری نظر و فکر رکھنے والی عظیم شخصیت علامہ ابن خلدو ن اپنی شہرۂ آفاق کتاب "مقدمہ ابن خلدون" میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں عروج و ترقی کے زینوں تک پہچنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون: باب دوم فصل بیس)۔

علامہ ابن خلدون نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں جو بات صدیوں پہلے کہی تھی، دنیا کا آج کا نقشہ بھی اسے درست ثابت کرتا ہے۔ نیلگوں آسمان کی کہکشائیں گواہ ہیں کہ وہی قومیں ترقی کے بام عروج تک پہنچیں جنہوں نے عمومی اخلاقی اقدار کو رواج دیا۔ وہ معاشرے برباد ہوگئے جنہوں نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ اسلامی ثقافت اور مذہبی تعلیمات نے اخلاق حسنہ کی ترویج پر جتنا زور دیا شاید ہی کسی مذہب و ملت کی تعلیمات میں ملتا ہو۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے عمومی مسلم معاشروں میں کئی بگاڑ آچکے ہیں۔ قرون اولی کی مسلم سوسائٹی سے کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔ عملی طور پر گھروں، دکانوں اور کوچہ و بازار سے لیکر مذہبی تہواروں، ٹریفک کے نظام اور سیاسی و سماجی ایوانوں تک نگاہیں حسن اخلاق کی ایک ایک جھلک دیکھنے کو ترستی رہتی ہے۔ الا ماشاء اللہ- لغوی لحاظ سے "اخلاق" خلق کی جمع ہے جس کا معنی ہوتا ہے عادات و اطوار۔ انسان کے اشرف المخلوقات کے منصب تک رسائی کی ایک بڑی وجہ حسن خلق ہی ہے۔ بے شمار صفات میں انسان دیگر حیوانات سے مشابہت رکھتا ہے۔ کھانا پینا، افزائش نسل اور وجود میں خون کی گردش انسان اور جملہ حیوانات کی مشترک صفات ہیں۔ اگر کوئی صفت انسان کو ممتاز کرتی ہے تو وہ اعلی پائے کی شعوری قوت، معرفت باری تعالی سے آشنائی پانے والا دل اور اچھائی برائی میں تمیز کرنے والی عمدہ صفات ہیں۔ حیوانوں کو بھوک لگے تو پیٹ بھرنے کیلئے حلال و حرام میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ جو کچھ بھی سامنے آیا اسے کھا کرپیٹ بھر لیا۔ کسی خواہش نے انگڑائی لی تو اچھائی برائی کا فرق کئے بغیر اس خواہش کو پورا کرلیا۔ لیکن قدرت نے انسان کو ایسا شعور بخشا ہے جو اسے اچھائی برائی کی تمیز یاد دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تخلیق ہی فطرت سلیمہ پر ہوئی۔ رب کریم نے حضرت انسان کی اخلاقی و روحانی تربیت کا موثر ترین خوبیوں سے آراستہ نظام تعلیم و تربیت ودیعت فرمایا۔ انسانی معاشروں کے اعلی ظرف اور پاک صاف ہستیوں کو ازل سے چنا اور ان کے سروں پر نبوت یا رسالت کا تاج سجا کر انہیں بنی نوع انسان کی پیشوائی کا فریضہ سونپ دیا۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ "بے شک آپ اخلاق کے اعلی ترین منصب پر فائز ہیں"۔ بد قسمتی سے یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفائے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اور اپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہو چکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر خرابیاں بطور مجموع معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے اسلام کی بد نامی کا سبب بن رہے ہیں۔ جس سماج میں سو فیصد مسلمان آباد ہوں وہاں کوئی شخص باہر گاڑی، موٹر سائیکل یا سائیکل تک کھڑی نہیں کر سکتا کہ چور اڑا لے جائیں گے ۔ پانی کی سبیل پر گلاس کو اسلئے باندھ دیا جاتا ہے کہ چوری کرلیا جائے گا۔ مسجد جیسی مقدس جگہ پر بسا اوقات جوتے سامنے رکھ کر نماز پڑھنی پڑھتی ہے کہ چوری نہ ہوجائیں۔ ہمارے پیارے دین کی تعلیمات میں سے ایک خوبصورت اخلاقی سبق یہ ہے کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ " جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں"۔ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ، ادویات میں مضر صحت اجزاء کی ملاوٹ، گفتگو میں جھوٹ کی ملاوٹ، رویوں میں فریب اور دھوکہ دہی کی ملاوٹ اور رشتوں میں قطع رحمی کی ملاوٹ سمیت سبھی کچھ تو اس میں آتا ہے۔ آجکل مختلف ممالک کی آمدن کا بڑا ذریعہ اپنے ملک کی اجناس اور مصنوعات کا برآمد کرنا ہے۔ چائنہ اور دیگر ترقی یافتہ یورپی ممالک کی اکانومی کا انحصار ہی برآمدات پر ہے۔ جہاں دیانتداری اور سچائی ہے وہاں آنکھیں بند کر کے لوگ اشیاء خرید لیتے ہیں۔ لیکن بد دیانت اور دجل و فریب میں شہرت رکھنے والے ممالک کی برآمدات کو کوئی قبول کرنے کیلئے ہی تیار نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا معیار زندگی پست اور مالی حالت کمزور ہوتی ہے۔ اس معاشی ابتری کے نتیجے میں کئی سماجی خرابیاں مثلا چوری چکاری، رشوت ستانی اور لوٹ مار جنم جنم لیتی ہیں۔ اکثر ان برائیوں کا آغاز معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ افراد کی فطرت ثانیہ اور معاشرے کے ماتھے پر بدنامی کا داغ بن جاتی ہیں۔ آج کا دور میڈیا کا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر میڈیا پر اعلی اخلاقی اقدار پر مبنی مواد دکھایا جائے تو بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ البتہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ بیشتر سیٹلائٹ چینلز معاشرے کے اخلاق اور اسلامی ثقافت کو بگاڑنے کا موجب بن رہے ہیں۔یہ ٹیلی ویژن چینلز لبرازم کے نام پر اپنے جن مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے ہیں،وہ یہ کہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔منشیات کے عادی افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے اور معاشرے میں عدم تحفظ پیدا ہوا ہےان چینلوں میں سے زیادہ تر نہ صرف خاندانوں کی بنیاد کو کمزور کررہے ہیں بلکہ بچوں کی تعلیم میں بھی خلل انداز ہورہے ہیں اور جو بچے سیٹلائٹ چینلوں کی نشریات کے زیراثر ہوتے ہیں ،ان کا کردار بھی مناسب نہیں ہوتا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں بہت سے غیرملکی سیٹلائٹ چینلز اردو اور انگریزی میں اپنی نشریات پیش کرتے ہیں۔یہ زیادہ تر خبریں، فلمیں ،تفریحی پروگرام اور ڈرامے دکھاتے ہیں۔ دینی غیرت و حمیت رکھنے والی تنظیمیں اور شخصیات باقاعدگی سے ان چینلوں کی بیہودہ اور اخلاق باختہ نشریات کی مذمت کرتے رہتے ہیں اور اسے پاکستانی ثقافت اور اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی اچھے معاشرے کی تشکیل کیلئے عمدہ اخلاق کے افراد ہی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نصاب تعلیم میں مناسب تبدیلیاں کر بھی اخلاقی بے راہ روی پر قابو پایا جا سکتا ہے تاکہ اس باوقار معاشرہ کی تشکیل ہوسکے جس کا خواب دیکھتے دیکھتے ہمارے کئی بزرگ آسودہ خاک ہو گئے۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240868 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More