رمضان المبارک کے آخری ہفتے میں اﷲ تعالیٰ نے
پاکستانیوں کو ایک عظیم فتح اور شادمانی سے نوازا۔پاکستان کی ٹیم نے بھارت
سے چمپیئن ٹرافی کا فائنل شاندارطریقے سے جیتا۔ کرکٹ ٹیم نے اوول کے گراؤنڈ
میں اور پاکستانی قوم نے مساجد اور گھروں میں سجدہ شکر بجا لایا۔راقم
الحروف کو ویسے تو کرکٹ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ مگر جب کبھی بھارت سے
معرکہ ہوتا ہے ٗ تو پھر پاکستانیت جاگ اُٹھتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان
کی ٹیم شائد پہلی بار بھارت کے مقابلے میں قومی جذبے سے سرشار ہوکر اور ٹیم
سپرٹ کے ساتھ جان مار کر کھیلی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
پاکستان کے عوام نے رمضان المبارک میں اپنی ٹیم کی کامیابی کے لئے دن رات
دعا ئیں بھی کی تھیں ۔کچھ دوستوں نے یاد دلایا کہ 1992 کا ورلڈ کپ بھی
پاکستان رمضان المبارک میں ہی جیتا تھا۔ شاید اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر
یہ بات از راہ تفنن طبع بار بار دہرائی جاتی رہی کہ انگریز پوچھتے پھر رہے
تھے کہ یہ رمضان کون تھا ۔ جس نے پاکستان کو میچ جتا نے میں اہم کردار ادا
کیا ہے ؟۔بھارت سے کرکٹ کا فائنل میچ جیت کر آنے والے کھلاڑیوں خاص طور پر
کپتان سرفراز احمد کا تو تاریخی اور شاندار استقبال کیا گیا۔ حکومت پاکستان
اور دیگر اداروں اوربعض شخصیات کی طرف سے بھی نقد عطیات کا اعلان کیا
گیا۔گویا پوری قوم اپنی فاتح ٹیم پر صدقے اور واری جارہی تھی ۔ایسا لگتا
تھا کہ ہر آدمی اس خوشی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے ۔پاکستانیوں نے کُھل
کر اپنی ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ
سوشل میڈیا پر توخاص طو رپرجشن کا سماں تھا۔دُنیا بھر میں بسنے والے
پاکستانیوں نے خوشی اور انبساط کے ان لمحات کو بھر پور انداز میں انجوائے
بھی کیا اور شیئر بھی کیا۔یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے
مقبوضہ کشمیر کے بھائی پاکستان کی ہر خوشی اور دُکھ میں شرک ہوتے ہیں ۔یہ
صورتحال یہ تھی کہ اس دفعہ تو مقابلہ ہی بھارت سے تھا۔پاکستان کی جیت پر
کشمیر میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔کشمیریوں خاص طور پر نوجوانوں نے اس پر
اپنے انداز میں مسرت کا اظہار کیا۔ دوسری طرف پہلے ہی پور ے بھارت میں صف
ماتم بچھی ہوئی تھی۔کشمیریوں نے باہر سڑکوں پر آ کر پاکستان کی فتح کا جشن
منایا۔جس پر بھارتی فوج اور دیگر سیکورٹی کے اداروں نے خوشی کا اظہارکرنے
والے افراد کو چُن چن کر تشدد کا نشانہ بنایا اور مار پیٹ کی ۔ تھانوں میں
لے جا کر بند کر دیا اور ان پر مقدمات بھی قائم کئے ۔ اے بسا آرزو کہ خاک
شدہ ۔ ۔ ۔ ۔ کے مصداق خوشی اور مسرت کے یہ لمحات زیادی دیر تک قائم نہ رہ
سکے ۔ کوئٹہ اور پھر فاٹاکے علاقہ میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے افسوسناک
واقعات ہوئے ۔جن میں بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہو گئیں ۔ابھی قوم ان
کے غم میں نڈھا ل تھی کہ پنجاب کے ضلع بہاولپور کے قصبے احمد پور شرقیہ میں
ایسا سانحہ عظیم ہوا کہ لوگ سکتے میں آگئے۔پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا ۔تیل
کا ایک ٹینکر سڑک کنارے اُلٹ گیا۔قریب کی آبادی سے لوگ بہتے ہوئے تیل
کواپنے برتنوں میں ڈالنے کے لئے بے تابی سے اُمڈآئے ۔ سینکڑوں افراد جمع
تھے کہ کسی نے وہاں ماچس کی تیلی سلگائی اور تیل نے فوری طور پر آگ پکڑ لی
۔ جس سے بھگدڑ مچ گئی اسی دوران ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے
آگ کے شعلے ہر طرف پھیل گئے ۔سینکڑوں افرادآگ کے شعلوں کی زد میں آگئے ۔
پاکستان کے عوام نے سانحہ کے غم میں ڈوبی ہوئی عید منائی ۔ وطن عزیزسالہا
سال سے مختلف نوعیت کی ارضی وسماوی آفات و بلیات اور حادثات و سانحات کا
شکار ہوتا چلا آ رہا ہے۔ تھوڑے تھو ڑے وقفے کے بعدقومی اور ملکی سطح پر بڑے
دلخراش اور ہولناک سانحات اور حادثات ظہور پذیر ہو تے رہے ہیں۔لوگ ان کے
بارے میں اپنے اپنے خیا ل اور علم کے مطابق تبصرے بھی کرتے نظر آتے
ہیں۔صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے تو
لوگ اس کے رنج و غم میں ڈوب جاتے ہیں۔افسوس اور تعزیت کے ساتھ ساتھ متاثرہ
افراد کے دُکھ درد میں شرکت اور ان کی دلجوئی کے علاوہ امداد کا سلسلہ جاری
رہتا ہے۔یہاں تک کہ ملک کے کسی دوسرے حصے میں کوئی اور افسوسناک اور دلخراش
سانحہ سامنے آجا تا ہے۔سارا ملک اور ساری قوم پہلے حادثے کو بھول کر نئے
سانحے کی طرف لپک کر جاتی ہے اور پھر وہی ریسکیو ٗمالی اور مادی امداد کے
سلسلے تاآنکہ ایک اور حادثہ غم اور دُکھ کا پہاڑ بن کرگر پڑتا ہے۔چند سال
قبل بھوجا ائرلائنز کا حادثہ ٗ اس سے قبل سیاچن کا واقعہ ٗ اور ان سے پہلے
سانحات اور حادثات و واقعات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہیں۔گلگت سے آنے
والا ایک جہاز بھی حادثہ کا شکار ہوا ۔ جس میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ
معروف نعت خوان اور مبلغ جنید جمشید بھی شہید ہو گیا تھا۔یہ اﷲ تعالیٰ کی
ذات ہی ہے کہ جواس طرح کے بڑے بڑے حادثات پر فردا فردا اور بحیثیت قوم بھی
صبر کی توفیق عطا کرتی ہے۔اتنے بڑے غم اور امتحان کی گھڑی سے نکلنے کے لئے
ہمت اور طاقت بھی عطا کرتی ہے ۔
یقینا قوموں پر آزمائش اور ابتلا کے دور آتے رہتے ہیں۔ماضی کی تاریخ عجیب و
غریب اور عبرتناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب توپاکستانیوں
نے بھی حادثات و سانحات میں جینا سیکھ لیا ہے۔اس لحاظ سے پاکستانی عوام بڑے
سخت جان واقع ہوئے ہیں۔شاید ایسی ہی صورتحال کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔
ـًًِّّّ ؔجہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدہر ڈوبے ٗاُدہر نکلے ٗاُدہر ڈوبے ٗاِدہر نکلے
دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر
بم گرائے تھے ٗ جن کی وجہ سے لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔جاپانی قوم
ہر سال ان کی یاد میں تقریبات منعقد کرتی ہے۔اب وہ سالہا سال سے دنیا بھر
میں ایٹم بموں کے خلاف مہم چلا تی چلی آرہی ہے کہ اس مہلک ہتھیار کے
استعمال نے ہمارے ہاں کتنی بڑی تباہی کی تھی ٗ جس کے مضر اثرات ابھی تک
جاری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندہ ٗ باشعور اور حادثات و سانحات سے سبق سیکھنے
والی قومیں آئندہ حادثات و سانحات سے بچنے کے لیے تمام ممکنہ تدابیر اور
بچاؤ کے طریقوں پر غور و فکر کرکے عملی اقدامات اٹھاتی ہیں۔اس مقصد کے لئے
ادارے اور محکمے ہی نہیں بلکہ وزارتیں بھی بنائی جاتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ
بعض واقعات اتنے بڑے اور شدید ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے ممالک کی تمام تر جدید
ترین ٹیکنالوجی بھی منہ دیکھتے رہ جاتی ہے۔جس طرح گذشتہ سال سونامی کی وجہ
سے جاپان کے ایٹمی ری ایکٹروں کو نقصان پہنچا تھا اور وہ ناکارہ ہو کر رہ
گئے تھے۔
ؔ ًًًٍٍفلک کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
افسوس کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی انتظام وانصرام سرے سے موجود ہی نہیں ہے کہ
حادثات وسانحات کا تجزیہ کیا جا سکے۔ان کے اسباب وعوامل کا جائزہ لیا جائے
اور آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے اپنی سی ہر ممکن تدابیر اختیار
کی جائیں۔ساری دنیا نے دیکھا کہ 2005ء کے زلزلے کے موقع پر پوری پاکستانی
قوم نے جس طرح ہمدردی ٗاخوت اور خدمت کا بے مثال عملی مظاہرہ کیا۔اس کی
مثالیں دنیا میں کم کم ہی ملتی ہیں۔مگر دوسری طرف یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ
متاثرین کے لیے جانے والا سامان کس کس طرح سے بعض سرکا ری اور مقامی بااثر
افراد نے اپنے اپنے قبضے میں لیا۔خود حکومت پاکستان کی کارکردگی اور بیرونی
ممالک سے آنے والے سامان اور عطیات کی تقسیم شفاف نہیں تھی۔اس پر بھی
انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔اس قسم کے معاملات میں غیر مسلم اور خدا کو نہ ماننے
والی اقوام ہمارے لیے نمونہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ہم تو دین اسلام کے پیروکار
ہیں۔ہمیں تو اﷲ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفےٰ ﷺنے تو امانت و دیانت کا
حکم دیا ہے۔تکلیف ومصیبت سے دوچار صرف کلمہ گو مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ
غیر مسلمو ں کی بھی امداد ودلجوئی ہمارا دینی فریضہ ہے۔افسوس کہ ہم نے اﷲ
اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھی بھلا دیا ہے۔ہم کتنے
خود غرض بن چکے ہیں ۔صرف اور صرف اپنی ذات کے حوالے سے ہی سوچتے ہیں۔ہماری
اجتماعی سوچ ختم ہو چکی ہے۔بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ہر گھر میں لڑائی
اور فساد نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
ؔ فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے مگر
کرتی نہیں قوموں کے گناہوں کو کبھی معاف
آئیے ! ہم سب اپنی اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں ۔فرقہ ٗمسلک ٗعلاقہ ٗ
زبان اور رنگ ونسل کی تفریق سے بالا تر ہو کر سوچیے۔بحیثیت مسلمان ہماری جو
دینی ذمہ داریاں ہیں۔ ان کو سمجھیں اور ادا کرنے کی فکر کریں۔اسی میں ہماری
دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
ؔنہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے غافل مسلمانو
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں |