پارا چنار اور تفرقہ بازی؟

 صدمے تو اور بھی بہت تھے، پاراچنار اور کوئٹہ دھماکوں اور فائرنگ نے عید کی خوشیوں کو سوگ میں بدل دیاتھا، اوپر سے بہاول پور کے قریب آئل ٹینکر کے الٹنے سے تیل گرا اور تیل اکٹھا کرنے والے دو سو کے قریب لوگ بھڑکنے والی آگ میں کوئلہ بن گئے۔ کراچی میں فائرنگ نے پریشانی اور خوف وہراس میں مزید اضافہ کردیا۔ بعد ازاں حویلیاں کے قریب نجی چیئر لفٹ گرگئی ․․․ حادثات رکے نہیں تھے کہ ایک اور بڑا صدمہ جوکسی حادثے سے کم نہیں، وہ پارا چنار میں بھڑکنے والی آگ تھی، جس میں فرقہ پرستی کا جن بوتل سے باہر آرہا تھا، جسے بہت مشکلوں سے علماء، قوم، حکومت اور افواج پاکستان نے کوششیں کر کے بوتل میں بند کیا تھا۔ فرقہ پرستی کا یہ سلسلہ کئی عشروں سے پاکستان کے امن کے لئے خطرہ تھا، بلا مبالغہ ہزاروں لوگ اس کی بھینٹ چڑھ گئے، بہت سے بے گناہ بھی اس کا نشانہ بنے، نفرت کی جڑیں اس قدر گہری ہوگئی تھیں کہ انہیں اکھاڑتے اکھاڑتے عشرے گزر گئے، محبتوں کی نرمی نفرت کی سختی کا مقابلہ کرتے کرتے زندگی گزار گئی۔ ملک بھر میں تمام فرقے نفرت کے خاتمے کا عرصہ پہلے اعلان کر چکے، نفرت اور دشمنی سے اظہارِ لاتعلقی کر چکے، مگر نفرت کے بیج ابھی موجود ہیں، جو کسی بھی حادثہ یا انتہائی غصہ کے عالم میں ایک خاردار پودے کی صورت زمین سے نمودار ہوجاتے ہیں۔

پارا چنار میں جو کچھ ہوا، اس سے پورے ملک میں غم وغصے کی لہردوڑ گئی، عوام نے اظہار یکجہتی و ہمدردی کیا، مگر وہاں غصہ غیظ وغضب میں تبدیل ہو چکا تھا، جذبات نفرت کا روپ دھار چکے تھے، ضرورت تھی کہ وہاں کے مظلومین کی داد رسی کی جاتی، ان کے مطالبات تسلیم کئے جاتے، ان کے تحفظات دور کئے جاتے۔ حکومت کی جانب سے کچھ تاخیر ہوئی، احمد پور شرقیہ میں تیل میں جل مرنے والوں کی مدد کا اعلان پارا چنار کے شہدا کے لواحقین کے غصہ میں اور بھی اضافہ کا موجب بنا، ان کی تنقید میں نفرت کے شعلے نمایاں ہونے لگے، اس فرق کو فرقہ پرستی کا شاخسانہ قرار دیا گیا، گویا ’وہ‘ فلاں فرقے سے تعلق رکھتے تھے، اس لئے انہیں بھاری امداد دی جارہی ہے، ہم فلاں فرقے سے ہیں ، ہمیں اس کی سزادی جارہی ہے۔ جذبات شعلوں کی شکل اختیار کرتے گئے اور بات بگڑتی گئی، جذبات کی حد تک پورا ملک ہی اس کی لپیٹ میں آنے کو تھا، جگہ جگہ ریلیاں اور مظاہرے شروع تھے، کہیں سے ایک نظریے کے حق میں بیانات سامنے آنے لگے تو کہیں سے دوسرے نکتہ نگاہ کی حمایت دکھائی دینے لگی۔ ایک ہیجان کی کیفیت طاری ہو رہی تھی، نفرت اور تفرقہ پرستی کی سوکھی جڑیں ہری ہونے لگی تھیں۔ بات دھرنوں ، ریلیوں، احتجاجوں سے ہوتی ہوئی نفرت کا لاوہ بننے تک پہنچ گئی، اس سے قبل کہ بات مزیدبگڑتی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پارہ چنار پہنچے، عمائدین سے ملاقات کی، ان کے تحفظات سنے، ان کے مطالبات تسلیم کئے، ان کو تحفظ دینے کے لئے اقدامات کئے، ان کا سب سے اہم مطالبہ انسانی جانوں کی حفاظت کا ہی تھا، ظاہر ہے یہ ریاست کا اولین فریضہ ہے، آرمی چیف نے وہاں اضافی فوج کی تعیناتی کا اعلان کیا، پارا چنار کو سیف سٹی قرار دیا، ایف سی کمانڈنٹ کو تبدیل کیا، شہداء کو زر تلافی دینے کا اعلان کیا، بتایا کہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا۔ اُدھر حکومت نے شہدا کے لواحقین کی مدد کا اعلان بھی کردیا ۔

سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ پارا چنار میں جنرل باجوہ نے یقین دلایا کہ ہم سب مسلمان ہیں، فرقہ پرستی سے بالا تر ہو کرہر مسلمان اور پاکستانی کی حفاظت اور سکیورٹی کا بندوبست ہمارا فرض ہے۔ خوش بختی ہی جانئے کہ ملک بھر میں علما نے میڈیا میں آکر پارا چنار کے شہدا اور پاک فوج سے یکجہتی کا اظہار کیا، دہشت گردی اور فرقہ پرستی کی نفی کی۔ پارا چنار کے شہداء کے لواحقین کے جذبات اپنی جگہ، مگر انہیں اس بات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہیے کہ اور اس سچائی کو تسلیم کرنا چاہیے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جہاں مساجد اور بازار بھی دہشت گردی سے محفوظ نہ ہوں، وہاں کس مسلک کا دہشت گرد اپنے مخالفین کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے مرنے والوں میں ہر فرقے اور طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گرد وں کا اسلام سے ہی کوئی تعلق نہیں، تو بے جا نہ ہوگا،کیونکہ کوئی مسلمان کسی بے گناہ کو قتل نہیں کر سکتا۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427260 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.