حنظلہ عماد
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کاسب سے بڑاصوبہ ہے، قدرت نے دل کھول کر
اسے وسائل سے نوازا ہے۔ ان دنوں پاک چین اقتصادی راہداری کے باعث مرکز توجہ
بھی ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے ہاں اس خوبصورت روایات کے حامل صوبے کے بارے
میں پایاجانے والا تاثرحقیقت سے یکسرمختلف ہے۔ ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی
آدھی ادھوری اور زیادہ ترفرضی کہانیوں کی بدولت ہم بلوچستان کاحقیقی چہرہ
دیکھنے سے قاصر ہیں۔
خوبصورت ساحل، وسیع وعریض صحرا، سرسبز پہاڑ اور گرم ترین خطہ، ان متنوع
علاقہ جات کاخوبصورت امتزاج لیے یہ صوبہ بجاطورپر قدرت کاایک شاہکارہے۔
بیرون بلوچستان میں اس صوبے کے بارے محض سنی سنائی باتوں کے باعث بہت سی
حقیقتیں ابھی بھی آشکار نہیں ہوپائی ہیں۔ یہاں کے ماحول،عوام اوربالخصوص
حالات کے بارے لوگوں کے تبصرے ایک ایسے بلوچستان کی تصوربناتے ہیں کہ جو
شاید صرف مشکلات اور پریشانیوں سے عبارت ہے۔
راقم الحروف بھی کچھ ایسے ہی خیالات کاحامل تھا کہ بلوچستان جانے کاموقع
ملا۔2014ء میں جب پہلی بار کوئٹہ کاسفرکرنا تھا توذہن میں طرح طرح کے
خیالات، وسوسے اور انجانے خدشات سراٹھارہے تھے ۔اس سب کے باوجود ہم مصرتھے
کہ اس صوبے کو ایک دفعہ توضرور دیکھ لیں۔ ان دنوں مختلف قومیتوں کے لوگوں
کی ٹارگٹ کلنگ کی خبریں بھی آئے روز ہماراحوصلہ توڑنے کی پوری کوشش کرتیں
مگر ناکام رہتیں۔
لاہور جنکشن سے کوئٹہ کی ٹرین پربیٹھے تو جی بھرکر لاہور کودیکھ لیا۔ رستے
میں پنجاب کے سارے مناظر نگاہوں میں سمولیے کہ شاید یہ منظر دوبارہ نصیب نہ
ہوں۔ ہمارا یہ رویہ غیرارادی اور میڈیاکے طاقتور نفوذکامظہر تھا۔ اگرچہ اس
رویے کوٹرین میں موجود بلوچستان کے لوگوں کی گفتگو اورانداز و اطوار سے
شکست مل رہی تھی۔ مگر ذہن ان حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔
انہی وسوسوں اور خدشات میں گھرے ہم بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے تو
پہلااحساس اپنا ئیت کا تھا۔مٹی سے آنے والی سوندھی مہک گویا گلے لگاکر تمام
شکوے کہہ دیناچاہتی تھی،کھلیانوں کاسبزہ اپنے مہمان کے واسطے مزیدنکھر
گیاتھا اور دہقان نے حق میزبانی ادا کرتے ہوئے اپنی فصل کو مزید توانا کر
دیا تھا۔ سرسبزعلاقے گزرے توخشکی کادور آیا۔بظاہر خاموش اوربنجر پہاڑوں میں
آبادی کانام ونشان تک نہیں تھا۔ سبزپتہ دیکھنے کو نگاہیں ترسنے لگیں۔ اسی
صورتحال سے سازشی ذہن نے فائدہ اٹھایااور لگاپھرسے دلائل دینے کہ یہ صوبہ
تولائق التفات نہیں مگراس حقیقت سے یہ عقل غافل تھی کہ ان بنجر اور خشک
پہاڑوں میں معدنیات کے وہ ذخائر چھپے ہیں کہ جو سرسبز زمینوں کے ہاں
عنقاہیں۔
بلوچستان کی رنگ بدلتی سرزمین سے یونہی سرگوشیاں کرتے جب کوئٹہ کے قریب
پہنچے خوبانی، سیب اور الائچی کے باغات خوشی سے بے تاب نظر آئے ۔مسرت کایہ
عالم کہ گویاابھی اپناتمام پھل نچھاور کردیں ۔گوکہ کچھ ناراض بھی تھے مگریہ
شکوہ التفات تھا۔ ایک سہانی اور خوبصورت شام میں کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن
پراترے تواس شہرکاپہلا تاثر ہی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہونے کاتھا۔
مگرتعمیرات اور مقامات سے ہمیں کیانسبت کہ ہم تویہاں لوگ اور اور ان کے
رویے پڑھنے آئے تھے۔ بلوچ عوام کے ذہن میں در آنے والے یاٹھونس دیے جانے
والے خدشات کا عمیق جائزہ لینے آئے تھے۔
آغاز کار ہوا توابتدا ہی میں پہلے سے قائم تصورات کی عمارت دھڑام سے زمین
بوس ہوتی نظر آئی۔ اناکے ستون لگاکر اسے سہارا دیااور پھر سے خرابیاں
ڈھونڈنے لگے۔مگریہاں انسانوں کے اس ہجوم میں بحیثیت بشرہونے والی کوتاہیوں
کے سواکچھ نظرنہ آسکا۔ بلوچ قوم کی مہمان نوازی نے تودل جیت لیا۔ ناراض لوگ
بھی نظرآئے کہ جوریاست سے کس قدر نالاں تھے۔ مگریہ اس اولاد کی مانند تھے
کہ جو باپ کی ناانصافی پراس امید پر روٹھے پھرتے ہیں کہ جلد ہی انہیں
منالیاجائے گا۔ اس سفر کے دوران کوئٹہ سے باہر مضافات بھی گھومے کہ شہر کے
تمدن کے باعث کہیں حقیقتیں نقاب نہ اوڑھے ہوئے ہوں مگر دیہات توان شہروں سے
بھی زیادہ شفاف نکلے۔
2014ء کے وسط میں ہونے والے اس سفر نے بلوچستان کے بارے بہت سی غلط فہمیوں
کاازالہ کردیا اور بہت سے تصورات کی اصلاح ہوگئی۔ اس صوبے کی عوام کی
بہادری اورغیرت کامشاہدہ توہمیں ان سے محبت پرمجبور کر گیا۔ چنانچہ اس محبت
کادم بھرنے کے واسطے ہر سال ملاقات کاارادہ طے کرلیا۔
امسال بھی اسی مانند بلوچستان کے حالات اور بالخصوص پاک چین اقتصادی
راہداری کے حوالے سے یہاں کے عوام کے نظریات کامطالعہ کرنے کے لیے سفر کا
قصد کیا۔یوں بھی سال ہونے کوآیاتھا۔ ملاقات کے واسطے معقول بہانہ بھی
میسرتھا تو سوچاایک بار پھر سے اپنے ان بلوچ بھائیوں کی مہمان نوازی کامزا
لے لیاجائے۔ ملتان سے کوئٹہ کی طرف عازم سفرہوئے توحسب سابق مقامات
اورتعمیرات سے بے نیازہوکر رویوں اور عادات کے مطالعے میں ہی مگن رہے۔
البتہ اس دوران سفر میں جابجا ہونے والے ترقیاتی کام نظروں سے اوجھل نہ رہ
سکے۔بالخصوص فورٹ منروسے لورالائی تک تیزی سے تعمیر کے مراحل طے کرتی ہوئی
موٹروے اور جابجاکھلنے والے کاروباری مقامات توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
گزشتہ تین سال سے بلوچستان سے ملاقات کرنے متواترآرہے تھے توراستوں سے خوب
شناسائی تھی۔ کوئٹہ پہنچتے ہی منزل مقصود پرپہنچ کر سانس لیااور اپنے کام
کو سرانجام دینے کامنصوبہ ترتیب دیا۔
کسی قوم میں پرورش پانے والے نظریات و افکار کو جانچنے کابہترین محل تعلیمی
ادارے ہیں۔ چنانچہ ہم بھی گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سریاب روڈ پہنچے اور
لگے پھر سے ذہن کی گتھیاں سلجھانے…… رمضان المبارک تھا تو میزبانوں نے
ہمارے لیے پرتکلف افطارکااہتمام کیاہوا تھا۔کالج میں جابجاسفیدی پھیری گئی
تھی۔استفسار پر معلوم ہواکہ یہاں منفی نعرے درج تھے جنہیں اب مٹا دیا گیا
ہے۔دل کواس امر سے بے حدتسلی ہوئی کہ یہ اقدام قربتیں بڑھانے کاباعث
ہے۔اگرچہ دماغ اور عقل ناقص معلومات کے ہجوم تلے دب کرابھی بھی منفی
عناصرتلاش کر رہے تھے مگر وہاں موجود طلباسے ہونے والی سیرحاصل گفتگو نے
انہیں بھی گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیا۔
پاکستان کے بارے میں وفاداری کاسوال کرنا ہی عبث تھاکہ گزشتہ تین سالوں سے
یہاں کی غیورعوام کی اس پاک وطن سے محبت کومشاہدہ کرتے آئے تھے۔ان کی یہ
چاہت خان آف قلات کی طرف سے قائداعظم محمدعلی جناحؒ اور پاکستان کے لیے بے
تحاشہ التفات کی روایت کی امین تھی۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ خان آف قلات
نے بھارت کی بھرپور کوشش کے باوجود نہ صرف پاکستان سے الحاق کااعلان کیا
بلکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو سونے اور چاندی میں برابر تول کر اپنی اس
محبت کا عملی ثبوت بھی دیا۔
بات چیت اقتصادی راہداری پرچلی تو دل خوشی کے مارے نہال ہوا کہ منفیت
توکریدنے اور ڈھونڈنے کے باوجود مفقود تھی۔ طلباپرعزم اور پرامید تھے۔
حالات کی سخت کوشی سے باخبرہونے کے ساتھ کچھ اپنوں کی چاہت کے مزید منتظر
بھی تھے۔ باقی اہل پاکستان کے نام ان کے پیغام میں محض الفت مزید کامطالبہ
پنہا ں تھا۔ دل کا توخوشی سے براحال تھا۔وقتی طورپردماغ بھی متاثر
ہوامگرجونہی تنہائی میسرآتی لگا پھر سے منطق جھاڑنے……کوئٹہ توشہرہے، یہاں
تمدن نے لاکھ نقاب اوڑھے ہیں جن میں اصلیت کاپتہ کہاں چلتاہے۔ ان تمام
باتوں کاجواب ڈھونڈنے خضدارکی طرف عازم سفرہوئے۔ہمارے میزبان کی خوشی
کاٹھکانہ نہیں تھا کہ اس کے ہاں بیرون بلوچستان سے کوئی فرد آیاہے۔ ان کی
اس مسرت کااندازہ افطار کے دسترخوان پرہوا۔ گھر کی حیثیت سے کہیں زیادہ بڑھ
کر سجاہوا دسترخوان دماغ کو چڑانے کے لیے کافی تھا مگر مزیدتسلی کی خاطر
گفتگو کابھی فیصلہ کیا۔باتوں ہی باتوں میں کریدااور تعصب کی بوسونگھنے کی
بھرپور کوشش کی مگر کامیابی نہ مل سکی۔ اسلامی اخوت اور پاکستان سے محبت ہر
چیزپر غالب آچکی تھی۔
اگلے دن مقامی ممبر صوبائی اسمبلی جناب رئیس جاویدکو ہماری آمد کی اطلاع
ملی توملنے چلے آئے۔ سوچاحکمران طبقہ ہے، یقینا ان کے ہاں توشکایات کے
انبارہوں گے مگریہاں بھی امید اور تعمیر کاعزم دیدنی تھا۔ان سب حالات میں
دماغ نے بھرپور گواہی دی کہ بلوچستان سے بڑھ کر حب الوطن کوئی نہیں ۔کچھ
ناخوشگوار واقعات نے اس تصور کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی مگر ناکام
رہے۔یوں بلوچستان سے محبت کومزیدگہرا کرتے ہوئے ہم واپس عازم سفر ہوئے۔
|