دنیا کی آبادی میں اگلے 1 برس کے دوران مزید ایک ارب
افراد کا اضافہ ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے سات
برسوں میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ کر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا
ملک بن جائے گا۔ یونائٹیڈ نیشنز کی جانب سے شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی مجموعی آبادی تقریباً10 ارب تک پہنچ
جائے گی۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی موجودہ مجموعی آبادی فی الوقت 7
ارب 60 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جس میں آنے والے عشرے میں ریکارڈ اضافہ
ہوجانے کی توقع ہے جبکہ آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ افریقہ میں بلند
شرح پیدائش ہوگی۔ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائیجیریا آبادی کے
لحاظ سے امریکا سے بڑا ملک بن جائے گا جبکہ 2050ء سے کچھ قبل یہ دنیا کا
تیسرا بڑی آبادی والا ملک ہوگا۔ اسی اثنا میں پورے جہاں فی الوقت شرح
پیدائش فی خاتون 1.6 بچے ہے، وہاں آنے والے عشروں میں شرح پیدائش مزید کمی
ہوجائے گی۔ ڈپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرز کے پاپولیشن ڈویژن کے
مطابق دنیا کی آبادی میں ہر سال 83 ملین افراد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
رپورٹ کے مضمون کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافہ کا رجحان مسلسل جاری رہے گا
حالانکہ شرح پیدائش کی رفتار جس میں 1960 کی دہائی سے کمی آئی ہے وہ بھی
مسلسل کم ہوتی رہے گی۔ پاپولیشن ڈویژن کے ڈائریکٹر جان ولموتھ نے بتایا ہے
کہ رپورٹ میں 233 ممالک یا علاقوں کی آبادی سے متعلقہ معلومات شامل ہیں۔
افریقہ میں آبادی اپنی تیز رفتار شرح کے باعث قابل ذکر ہے اور اعداد و
شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سے لے کر 2050ء تک دنیا کی آبادی میں ہونے
والے اضافے کے نصف کا تعلق اسی خطے سے ہوگا۔ دوسری جانب یورپ کی آبادی میں
آنے والے عشروں میں خاطر خواہ کمی ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن
ڈویژن کی پیش گوئیوں کے مطابق اس وقت سے لے کر 2050ء تک دنیا کی آبادی میں
ہونے والے مجموعی اضافے کا مرکز صرف 9 ممالک ہوں گے۔ ان میں بھارت،
نائیجیریا، کانگو، پاکستان، ایتھوپیا، تنزانیہ، امریکہ، یوگنڈا اور
انڈونیشیا شامل ہیں۔ اسی عرصے کے دوران 26 افریقی ممالک کی آبادی کم سے کم
دگنی ہوجانے کی توقع ہے۔ نائیجیریا فی الوقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا
ساتواں بڑا ملک ہے جہاں آبادی میں اضافہ کی رفتار دنیا میں تیز رفتار
آبادی والے 10 ممالک کی شرح سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق وسط صدی سے قبل
ہی اس کی مجموعی آبادی امریکا کی آبادی سے تجاوز کرجائے گی۔
رپورٹ میں چین کی آبادی کے بارے میں بھی پیش گوئی کی گئی ہے، فی الوقت چین
کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے اور دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا
ملک ہے۔ تاہم بھارت 2024ء میں چین سے سب سے زائد آبادی والے ملک کا ٹائٹل
چھین لے گا۔ فی الوقت بھارت کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔
’’دی ورلڈ پاپولیشن پروسپیکٹس: دی 2017 ریویزن‘‘ کے عنوان سے رپورٹ میں
بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں تقریباً تمام ریجنز میں شرح آبادی میں
کمی ہوئی ہے۔ ولموتھ کا کہنا ہے کہ 2010ء سے 2015ء کے درمیان دنیا کی
خواتین نے اپنی پوری زندگی میں 2 1/2 بچے فی خاتون جنم دیے ہیں۔ تاہم دنیا
کے مختلف حصوں میں یہ شرح مختلف ہے۔ یورپ میں شرح پیدائش سب سے کم ہے جہاں
ایک خاتون نے اپنی زندگی میں 1.6 بچوں کو جنم دیا۔ سب سے زیادہ شرح پیدائش
افریقہ میں ہے جہاں ایک خاتون نے 4.7 بچوں کو جنم دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا
ہے کہ 47 کم ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش انتہائی زیادہ ہے جہاں آبادی
میں 2.4 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ
آنے والے عشروں میں شرح پیدائش میں معمولی کمی کی توقع ہے، تاہم ان 47
ممالک کی مجموعی آبادی 33 فیصد اضافہ کے نتیجے میں ایک ارب کی موجودہ
آبادی سے بڑھ کر 2050ء میں ایک ارب 90 کروڑ تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک میں اب شرح پیدائش فی خاتون
2.1 بچے کی سطح سے کم ہے جسے موجودہ نسل کی شرح سے نیچے لانے کی ضرورت ہے۔
کم شرح پیدائش کے باوجود انتہائی آبادی والے 10 ممالک میں چین، امریکا،
برازیل، روس، جاپان، ویت نام، جرمنی، ایران، تھائی لینڈ اور برطانیہ شامل
ہیں۔ آبادی میں سست رفتار اضافے کے ساتھ کم شرح پیدائش والے ممالک میں
بوڑھوں کی آبادی بڑھ جاتی ہے۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ 60 سال یا
زائد عمر افراد کی آبادی جو کہ فی الوقت 962 ملین ہے وہ 2050ء میں دگنے
اضافے کے باعث 2 ارب 10 کروڑ ہوجائے گی جبکہ 2100ء میں ان کی آبادی تین
گنا اضافے کے ساتھ 3 ارب 10 کروڑ ہوگی۔ یورپ کی ایک چوتھائی آبادی کی عمر
پہلے ہی 60 سال یا زائد ہے جو کہ 2050ء تک 35 فیصد بڑھ جانے کی پیش گوئی کی
گئی ہے۔
اسی اثنا میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ زمینوں
کے بنجر ہوجانے کے باعث کروڑوں افراد براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ فارمنگ اور
مائننگ نہ ہونے اور موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں زمین کا ایکو سسٹم متاثر
ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ زمین کے
بہتر انتظام کے ذریعے لوگوں اور کمیونٹیز کو ایسی جگہ فراہم کی جائے جہاں
وہ اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔ یو این سی سی ڈی کا کہنا ہے کہ آبادی میں
ہونے والے اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ خوراک اور پانی کی ضروریات 2050ء تک دگنی
ہوجائیں گی تاہم خشک سالی اور فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے نتیجے میں خوراک
کی قلت کا سامنا ہوگا۔ یو این سی سی ڈی کے ایگزیکٹیو سیکریٹری مونیک باربوت
کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں دیہی علاقوں کے ایک ارب 30 کروڑ افراد
کو غذا کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک محتاط تخمینے کے مطابق تقریباً 500 ملین پیکٹرز زمین جو کہ ایک وقت میں
زرخیز اور قابل کاشت تھی وہ موسمیاتی تغیرات اور مقامی آبادی کی جانب سے
توجہ نہ دینے کے باعث بنجر ہوگئی ہے۔ یہ زمین تقریباً 20 لاکھ مربع میل کے
برابر ہے۔ یو این سی سی ڈی نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز
اور انسانی توجہ کے ذریعے بنجر زمین کے ایک بڑے حصے کو قابل کاشت بنا کر
خوراک کی قلت کے خدشہ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ فی الوقت دنیا بالخصوص سب
صحارہ افریقہ میں خوراک کی قلت دنیا کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ خوراک کی
قلت کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں معاشی، ماحولیاتی اور سماجی عناصر سرفہرست
ہیں۔ کاربن کے اخراج اور آلودگی میں کمی بھی خوراک کی قلت سے نمٹنے کے لیے
معاون ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک کو بالخصوص پسماندہ اور غربت کے شکار ممالک
کی معاونت کرنی ہوگی۔ اگر دنیا نے اس چیلنج کو صرف پسماندہ اور غریب ممالک
کو درپیش مسئلہ سمجھا تو خوراک کی قلت کا یہ اژدھا خود ترقی یافتہ ممالک کو
بھی نہیں چھوڑے گا۔
دنیا کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس کے نتیجے میں پہلے سے
آبادی کا بھاری دبائو برداشت کرنے والے شہروں پرناقابل برداشت دبائو آ
جائے گا۔فی الوقت ٹوکیو دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔دنیس
میں سب سے زیادہ آبادی والے دس شہروں میں سے صرف ایک شہر افریقہ ( قاہرہ)
میں ہے جبکہ لاطینی امریکہ میں کثیر آبادی صرف دو شہر سائو پالو اور
میکسیکو سٹی ہیں۔ تاہم اگلے تین عشروں میں یہ صورت حال قطعی تبدیل ہو جائے
گی۔اقوام متحدہ کے ورلڈ اربنائزیشن پروسپیکٹس کے مطابق 2030تک دنیا کے دس
زائد آبادی والے ملکوں میں سے پیشتر کا تعلق امریکہ یا یورپ سے نہیں ہو
گا۔میکسیکو سٹی کی آبادی 23.9ملین تک جا پہنچے گی۔لاگوس ، نائیجریا کی
24.2ملین ، قاہرہ ، مصر کی 24.5ملین ، کراچی ، پاکستان کی24.8ملین ، ڈھاکہ
، بنگلہ دیش کی27.4ملین ، بیجنگ ، چین کی 27.7ملین ، ممبئی ، بھارت کی
27.8ملین، شنگھائی،چین کی30.8ملین، دہلی ، بھارت کی 36.1ملین اور ٹوکیو کی
آبادی 37.2ملین تک پہنچ جائے گی ۔ |