اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست کی بنیاد کرپشن ہے
اورسیاستدانوں کا کام ہی سیاست کرنا ہے اور وہ سیاست کو عبادت نہیں بلکہ
کاروبار سمجھ کر کرتے ہیں۔سیاستدان سیاست میں آنے سے پہلے کتنا ہی غریب
کیوں نہ ہو ایک دفعہ جب اس کی گڈی چڑھ جائے تو پھر اس کے بنک بیلنس میں
ایسے اضافہ ہوتا ہے جیسے اس نے کبھی غربت دیکھی ہی نہیں تھی یا سونے کا چمچ
منہ میں لے کر پیدا ہوا ہو اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ غریب کا بچہ غریب ہی مر
جاتا ہے ،حق حلال سے جینے والے کی معاشرے میں بھی کوئی عزت نہیں۔جس کے پاس
جتنے زیادہ پیسے ہیں اس کی اتنی ہی زیادہ عزت ہے چاہے اس نے دس ،بیس قتل ہی
کیوں نہ کئے ہوں۔اﷲ معاف کرے ۔ہر طرف دو نمبری کا بازار گرم ہے،کسی بھی
ادارے،محکمے میں چلے جائیں قصاب کھال اتارنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔
سیاستدانوں نے تو پاکستان بننے کے بعد سے اب تک عوام کو کچھ نہیں دیا ،اسی
عرصے میں بھی فوجی ڈکٹیٹر بھی اقتدار پر قابض ہوئے مگر وہ بھی عوامی امیدوں
پر پورا نہیں اترے اور اپنے بنک بیلنس میں ہی اضافہ کیا۔خیر جیسا کہ آج کے
کالم کا عنوان ہے کیا عوام کبھی خوشحال ہو سکیں گے تو اس کا جواب میری رائے
کے مطابق نہیں میں ہے۔جی ہاں پاکستان کے عوام کبھی خوشحال نہیں ہو پائیں
گے،اس کی بنیادی وجوہات کچھ یوں ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اپنے سے نیچے والے
کو حقیر اور خود کو نعوذ باﷲ خدا سمجھتا ہے اور ہر کام اپنی مرضی کے مطابق
کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق کرپشن کرنے میں
مصروف ہے چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہو،بچا صرف وہی ہے جس کو موقع
نہیں ملا۔میرے خیال سے عوام کے موجودہ حالات کے ذمہ داروہ خود ہیں،شاید
عوام اپنی حالت بدلنا ہی نہیں چاہتے یا غلام بنے رہنے کی عادت سی ہو چکی ہے
۔
مولانا ظفر علی خان کی کتاب بہارستان کا ایک شعر یاد آگیا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اور جیسا کہ قرآن پاک کی آیت ہے ترجمہ: بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛
جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اﷲ کسی قوم کو برے دن دکھانے
کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اﷲ کے سوا ایسوں کا
کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔ پانامہ،کرپشن،لوٹ مار،جلاؤ گھیراؤ،تھانہ
کچہری سے عوام کو کچھ لینا دینا نہیں یہ سیاستدانوں کا کام ہے اور وہ اپنے
مفادات کیلئے یہ سب کرتے رہتے ہیں ،غریب عوام کو تو گزر بسر کیلئے دو وقت
کی روٹی اور سر چھپانے کیلئے چھت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں
غریب عوام کیلئے تعلیم،صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ملنا خواب بن چکا ہے ،تعلیم
،صحت کی سہولیات تو کھربوں پتی سیاستدان عوام کو دینا ہی نہیں چاہتے۔موجودہ
دور کی بات کی جائے تو اس وقت ملک میں تین بڑی پارٹیاں ن لیگ،تحریک انصاف
اور پیپلز پارٹی حکومت میں ہیں مگر تینوں کو عوام پر ذرا بھی ترس نہیں
آتا،پنجاب میں میٹرو،سڑکیں،پل بنائے جا رہے ہیں مگر ہسپتالوں میں برن یونٹ
تک نہیں۔ جی ہاں پچھلے دنوں سانحہ احمد پور شرقیہ میں 210سے زائد افراد
زندہ جل گئے تھے اوردرجنوں جھلسے ہوئے ہسپتال میں زیر علاج تھے مگر وہاں
برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ذرائع کے مطابق سانحہ احمد
پور شرقیہ میں 300کے قریب ہلاکتیں ہوئیں ،ہر گھر سے دو چار افراد لا پتہ
ہیں،جگہ جگہ سے لاشیں،اعضا مل رہے ہیں مگر حکومت کو عوام کی فکر ہی
نہیں،ترس بھی نہیں آتا جیسے مرنے والے انسان نہیں جانور ہوں۔سندھ میں لوٹ
مار اور کرپشن عروج پر ہے۔نیب جو سیاستدانوں کو کرپشن کرنے پر سزا دیتا ہے
کا ادارہ ہی ختم کر دیا گیا،پولیس کو بھی سیاسی بنا دیا گیا،کوئی بھی شریف
آدمی سندھ حکومت کو پسند نہیں آتا ۔محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد زرداری
صاحب نے پانچ سال حکومت کر کے جو لوٹ مار کی اس سے پی پی ایک صوبے تک محدود
ہوگئی،سندھیوں کو پانی تک نہیں مل رہا،تعلیم اور صحت کی سہولیات ملنے کا تو
سوچتے بھی نہیں۔پنجاب میں تو بھٹو مر چکا مگر سندھ میں ابھی بھی ہر گھر سے
نکل رہا ہے مگر شاید آئندہ الیکشن میں عوام بھٹو کے نام پر بھی ووٹ نہ
دیں۔خیر تبدیلی والوں کا ذکر بھی کر لینا چاہئے ۔کے پی کے میں بھی دودھ کی
نہریں نہیں بہہ رہیں مگر حالات کچھ بہتر ضرور ہیں۔تعلیم اور صحت پر بھی کام
ہوا ہے مگر اتنا نہیں جتنی ضرورت تھی یا ہے۔پولیس کو غیر سیاسی کیا گیا مگر
کالی بھیڑیں اب بھی موجود ہیں۔عمران خان میٹرو اور سڑکوں پر تنقید کرتے
نہیں تھکتے تھے مگر میٹرو پر دن رات کام جاری ہے،سڑکیں بھی بنائی جا رہی
ہیں۔میں ذاتی طور پر ترقی کا مخالف نہیں۔سڑکیں،پل،میٹرو،ٹرینوں جیسے منصوبے
ضرور ہونے چاہئیں مگر اس سے پہلے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی
بنائی جانی چاہئے۔عوام خوشحال ہونگے تو ہی میٹرو پر سفر کرتے اچھے لگیں
گے،ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی بہترین سہولیات ملیں گی تب ہی خوبصورت سڑک
پر سفر کرتے اچھا لگے گا۔غریب پاکستانی کے گھر جب اﷲ کی طرف سے خوشی آتی ہے
تو ہمارا نظام اور حکمران اسے بھی پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں،غریب کے
گھر بیٹا یا بیٹی پیدا ہو تو اسے سب سے پہلے ہسپتال کی طرف سے لمبے چوڑے بل
تھما دیئے جاتے ہیں جسے دیکھتے ہی وہ اپنی خوشی بھول کر ڈاکٹروں کو خوش
کرنے میں مصروف ہو کر عزیز و اقارب سے ادھار پکڑنے پر بھی مجبور ہو جاتا
ہے۔بعد میں بچے کی دیکھ بھال،تعلیم،صحت پر جمع پونجی لوٹا دیتا ہے۔تھانے
کچہری جاتے بھی غریب گھبراتا ہے جبکہ بڑے لوگ تھانے خرید لیتے ہیں۔غریب
اپنے بچے کو سرکاری سکول میں بھی نہیں پڑھا پاتا جبکہ امیر کا بچہ بیرون
ملک تعلیم حاصل کرتا ہے،امیر کے سر میں بھی درد ہو تو امریکہ،لندن میں
ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جاتا ہے جبکہ غریب کا بچہ بیماری کی صورت میں سرکاری
ہسپتالوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ امیر اور غریب میں فرق بہت بڑھ
چکا ہے جسے ختم کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔پہلے تو میرا ماننا یہ تھا کہ
الیکشن میں ووٹ کے ذریعے تبدیلی لائی جا سکتی ہے عوام ووٹ کا صحیح استعمال
کر کے کرپٹ سیاستدان کو سسٹم سے نکال باہر پھینک سکتے ہیں مگر ایسا نہیں
کیو نکہ کوئی بھی سیاستدان ایسا نہیں جو عوام کی بھلائی کیلئے کچھ کرنا
چاہتا ہو۔میرے خیال سے موجودہ سیاستدان عوام کی حالت نہیں بدل سکتے اور نہ
ہی عوام کو اپنی حالت بدلنے میں کوئی دلچسپی ہے ایسے میں خونی انقلاب سے ہی
تبدیلی آ سکتی ہے۔آخر میں ایک دعا اﷲ پاک پیارے پاکستان سے دہشت گردی
کاخاتمہ کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بنائے(آمین) ……پاکستان زندہ باد |