ایک پیشی سے پورے ملک میں اودھم مچ گیا، وہ شور
اٹھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ جوڈیشل اکیڈمی کے راستے سیل ہو
چکے تھے، گاڑیوں کی طویل قطاریں تھیں، مسافر اپنی اپنی منزل پر پہنچنے کے
لئے بے تاب اور ناراض تھے، مگر کیا کرتے کہ جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم کی
صاحبزادی کی پیشی تھی۔ ن لیگ والے غیظ وغضب کا اظہار کر رہے تھے، مخالفین
اسے عام کارروائی قرار دے رہے تھے۔ وزراء ، مشیر اور پارٹی کے دیگر اہم
لوگوں سے لے کر کارکن تک کا یہ خیال تھا کہ ایک بیٹی کو پیشی پر نہیں بلانا
چاہئے تھا، مذکورہ بیٹی کا بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی فہرست میں ان کا
نام شامل نہیں تھا، تو آخر محترمہ کو کیوں بلایا گیا۔ بعض سیاسی مخالفین نے
بھی اس بلاوے کو تنقید کانشانہ بنایا، تاہم نیت کا حال اﷲ تعالیٰ کو ہی
معلوم ہے۔ لیکن اتنے ہنگامے سے تو بہتر تھا کہ موصوفہ کو جب جے آئی ٹی کا
نوٹس ملا تھا، یہ اپنے دلائل کے ساتھ سپریم کورٹ تشریف لے جاتیں، اور عدالت
عظمیٰ کو بتاتیں کہ اول تو ان کا نام ہی ملزموں کی فہرست میں نہیں، دوم یہ
کہ قوم کی ایک بیٹی کو یوں پیشیوں پر بلانا اخلاقی لحاظ سے بھی مناسب نہیں،
پھر جو فیصلہ عدالت کرتی، اس پر عمل کیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا نہ ہوا، گئے
بھی، اور شور اور ہنگامہ کرتے۔ فیصلہ ممکن نہیں، کیونکہ ہر فریق اپنے موقف
پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، کوئی بھی سرِمُو پیچھے ہٹنے پرآمادہ نہیں۔ ایک فریق
کا کہنا ہے کہ ’بیٹی‘ کو نہیں بلانا چاہیے، دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی
انہونی نہیں، ایسا ہوتا آیا ہے۔
دوسرا متنازع ہنگامہ یہ ہوا کہ وزیراعظم کی بیٹی کو اس قدر پروٹوکول کیوں
دیا گیا، ایک خاتون پولیس افسر نے سیلوٹ کیوں کیا؟ (پین نیچے سے اٹھا کر
دینے کے معاملہ پر کسی حد تک خاموشی ہے)۔ اس ضمن میں اطلاعات کی وزیر مملکت
نے وضاحت پیش کردی ہے کہ مریم نواز کو پروٹوکول نہیں دیا گیا، بلکہ وہ لوگ
اپنی گاڑیوں پر آئے، جب کہ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے، اس
کے خطرات کے پیش نظر ان کے بچوں کی حفاظت ضروری ہے اور حفاظت کو پروٹوکول
قرار دینا غلط ہے۔ امید ہے مخالفین کو پروٹوکول اور حفاظت کے فرق کی اچھی
طرح سمجھ آچکی ہوگی، اگر نہیں آئی تو پھرکبھی آجائے گی۔ میڈیا کے ذریعے قوم
نے دیکھا کہ اور قوم کو بتایا بھی گیا کہ مریم نواز کی سکیورٹی وزیراعظم کو
ایسی ہی پیشی کے موقع پر ملنے والی سکیورٹی سے زیادہ تھی، اگر پہلے 2500کی
نفری تعینات تھی تو اب یہ تعداد مزید پچاس افراد تک زیادہ تھی، کہ اس میں
لیڈی پولیس کمانڈو بھی شامل تھیں، اور وہ ایس پی بھی جنہوں نے میڈم مریم کو
سیلوٹ کیا اور ان کی کوئی گری ہوئی چیز زمین سے اٹھا کر دی۔ اس حفاظتی حصار
پر چار ایس پی، گیارہ ڈی ایس پی اور تینتیس انسپکٹر مامور تھے۔ اگر اس سب
کچھ کے باوجود ایک معزز خاتون وزیر کہتی ہیں کہ پروٹوکول کے بغیر ہی مریم
نواز پیشی پر گئی ہیں تو وہ کہہ سکتی ہیں، کیونکہ وہ وزیر ہیں، ان کا
محکمانہ فرض ہے کہ وہ ایسے ہی دلائل سے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔
کسی حساب کتابی صحافی بھائی نے یہ حساب بھی لگایا ہے کہ ان پیشیوں پر آنے
والے اس خاندان کے افراد کے لئے جتنا پروٹوکول دیا گیا، اس پر سوا دو کروڑ
روپے سے زیادہ خرچ اٹھ چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خرچہ قومی خزانے
سے ہوا، اور خزانہ عوام کے ٹیکسوں اور دوسرے ممالک سے سود پر لئے گئے قرضوں
سے بھرا جاتا ہے۔
ن لیگ والوں کو اس موقع پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ ان کی مستقبل کی ایک
رہنما اپنی قیادت کے سفر کا آغاز کر رہی ہیں، موروثی سیاست کا تو کیا کہنا،
کہ اس کی مخالفت مناسب نہیں لگتی۔ اگر جج کا بیٹا وکالت کر سکتا ہے، کہ بعد
میں باپ کے راستے پر چلے، جنرل کا بیٹا فوج میں کمیشن لے سکتا ہے کہ آگے
آئے، تاجر کا بیٹا تاجر بن سکتا ہے، تو سیاست دان کی اولاد بھی سیاست میں
آسکتی ہے۔ مگر اب کلچر یہی ہے کہ اپنی اولاد کو اپنے زیر سایہ ہی آگے لانے
کی کوشش کی جاتی ہے، گویا برائلر تیار کئے جاتے ہیں، اگر مریم کو پیشی پر
جانا پڑگیا تو یوں جانئے کہ ان کی لیڈر کو عملی سیاست میں قدم رکھنے کا
موقع مل گیا۔ مگر یہ سب کچھ قوم کے ٹیکسوں کے خرچ پر نہیں ، جیب سے ہونا
چاہیے۔ |