سب سے پہلے میں آپکے علم میں اضافی کیے دیتا ہوں کہ
افلاطون کا اصل نام جوبتایا جاتا ہے وہ ارسٹو کلینز ہے۔افلاطون (ارسٹو
کلینز) کا شُمار مغربی فکر کر عظیم بانیوں میں ہوتا ہے۔قدیم یونانی فلسفی
افلاطون کی فکر مغربی سیاسی فلسفہ اور بہت حد تک اخلاقی اور الطبیعیاتی
فلسفہ کے نقطہ کے آغاز کو ظاہر کرتی ہے۔ان موضوعات کو تقریباََ دو ہزار تین
سوبرسوں سے مسلسل پڑھا جا رہا ہے۔افلاطون کے گھرانے کے بارے میں یہ بات
سامنے آتی ہے کہ افلاطون ایتھنز کے ایک ممتاز گھرانے میں 427قبل مسیح میں
پیدا ہوا۔افلاطون نے ایتھنز کو چھوڑ دیا تھا مگر کیوں چھوڑا اُسکی ایک بہت
بڑی وجہ سامنے آتی ہے کہ نوجوانی میں افلاطون کی ملاقات فلسفی سقراط سے
ہوئی ۔جو اس کا دوست اور رہنما بن گیا افلاطون کے دل میں جمہوری حکومت کے
لیے نفرت پیدا ہوئی مگر وہ کیسے؟اُسکی وجہ اُسکا دوست ہی بنا۔ 399قبل مسح
میں ستر برس کی عمر میں سقراط پر بے دینی اور ایتھنز کے نوجوانوں کو
ورغلانے کے مبہم الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور مقدمے کے فیصلے میں
آخر کار اس کو
موت کی سزا سنا دی گئی۔افلاطون کے الفاظ میں سقراط ’’دانا ترین ‘عادل ترینــ‘‘
اور ان تمام لوگوں سے بہترین ہے جن سے آج تک مل پایا ہوں ۔اور یہی وجہ بنی
کہ سقراط کی موت نے افلاطون کے دل میں جمہوری حکومت کے لیے ایک مستقل نفرت
بھر دی اور ایتھنز چھوڑنے کی بھی یہی وجہ بنی کہ سقراط کی موت کے کچھ عرصے
بعد افلاطون نے ایتھینز چھوڑ دیا ۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اگلے دس یا
بارہ برس اس نے سفر میں گزارے۔387قبل مسیح کے قریب وہ ایتھینز واپس آیا اور
ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔جسے اکادمی(اکیڈمی)کا نام دیا ۔جو نو سو سال سے
زائد عرصہ تک قائم رہی۔افلاطون نے زندگی کے بقیہ چالیس برس ایتھینز میں
گزارے ۔وہ فلسفہ کی تدریس کرتا اور لکھتا رہا۔یوں تو افلاطون کے شاگردوں کی
تعداد لا تعداد تھی مگر ان میں سے ایک بہت معروف شاگرد ارسطو تھا جو سترہ
سال کی عمر کا تھا تو اکادمی میں داخل ہو گیا تھا۔اور جب ارسطو اکادمی میں
ہوا توتب افلاطون کی عمر ساٹھ سال تھی۔افلاطون 80برس کی عمر میں 347میں
وفات پا گیا۔وہ صرف زندگی کے 80 برس ہی دیکھ پایا تھا۔افلاطون ایک بہت ہی
قابل اور ماہر فلسفی تھا افلاطون نے قریباً چھتیس کتابیں تحریر کیں ۔جن میں
سے بیشتر سیاسی اور اخلاقی مسائل پر بحث کرتی ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی بہت
سی کتابیں لکھیں ۔جن میں الطبیعات اور الہیہات بھی موجود ہیں۔افلاطون جیسے
عظیم فلسفی کی عظیم تحریروں کو یہاں چند سطروں میں اجمالاََ بیان کرنا ممکن
نہیں ہے۔مگر افلاطون کی معروف کتاب ـ’جمہوریہ‘ میں موجود اس کے اہم سیاسی
نظریات کو اجمالاََ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔جس میں ایک مثالی معاشرے کا
تصور پیش کیا گیا ہے۔افلاطون کے خیال میں بہترین حکومت اشرافیہ کی حکومت
ہے۔اس سے اس کی مراد کسی وراثتی اشرافیہ سے نہیں تھی۔بلکہ یہ ایک معتبر
اشرافیہ ہے۔یعنی یہ کہ بہترین اور دانا ترین افراد ریاست پر حکومت کریں
گے۔ان کا انتخاب شہریوں کی رائے دہندگی کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔بلکہ باہمی
معاونت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔جو لوگ پہلے سے سرپرست طبقہ رکن ہیں۔انہیں
اضافی اراکین کا سخت معیا رات پر انتخاب کرنا چاہیے افلاطون کا خیال تھا کہ
سرپرست طبقہ کے لیے مرد اور عورت کے لیے کوئی تخصیص نہیں ہے وہ پہلا اہم
فلسفی تھااور آئندہ طویل عرصہ تک کوئی دوسرا اس جیسا پیدا نہ ہوا جس نے
عورت اور مرد کی برابری کی بات کی۔اور یہ کہا کہ دونوں کو ہر طرح کے مواقع
سے مستفید ہونے کا برابر حق حاصل ہے۔افلاطون نے ریاست کو بچوں کی نگہداشت
کا ذمہ دار قرار دایا۔اس نے شاعری اور موسیقی وغیرہ کو ممنوعہ علوم قرار
دیا۔اس نے ایک مکمل تعلیمی نظام دیا کہ ریاضیات اور دیگر مدرساتی علوم کو
بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔متعدد مراحل پر شدید آزمائش کرلینی چاہیے
ایک کم کامیاب انسان میں معاشرے کی معاشی فعالیت کی پرکھ لینی چاہیے ۔جبکہ
زیادہ کامیاب لوگوں کو مسلسل مزید تربیت حاصل کرنی چاہیے ۔اس اضافی تعلیم
میں نہ صرف عمومی مدرساتی موضوعات شامل ہوں بلکہ یہ فلسفہ کی تربیت کا بھی
احاطہ کرے ۔جس سے افلاطون کی مراد دراصل مثالی اشکال کے اپنے مابعد
الطبیاتی نظریہ کی تدریس تھی۔پینتیس برس کی عمر میں جو لوگ نظریاتی ضوابط
پر عبور حاصل کر لیں۔انہیں مزید پندرہ برس تربیت دی جائے گی۔جو عملی تجربہ
پر مبنی ہو گی صرف یہی افراد جو یہ ثابت کریں وہ اپنے کتابی علم کو حقیقی
دنیا پر عملاََ منطبق کر سکتے ہیں۔سرپرست طبقہ میں جگہ پا سکیں گے۔مزید یہ
کہ صرف وہی لوگ جو واضح طوریہ ظاہر کر دیں کہ وہ بنیادی طور پر عوامی فلاح
میں دلچسپی رکھتے ہیں۔خود سرپرست بن سکیں گے۔تاہم ہر کوئی سرپرست طبقہ میں
داخل ہونے کا مجاز نہیں ہو گا۔سرپرست طبقہ دولت مند نہیں ہو گا سرپرستوں کو
صرف ایک معمولی حد تک ذاتی جائیداد پاس رکھنے کی اجازت ہو گی۔ان کی نہ کوئی
زمین ہو گی نہ کوئی ذاتی گھر انہیں ایک مخصوص مشاہرہ ملے گا۔جو ہر گز زیادہ
نہیں ہو گا۔انہیں سونا چاندی اپنے پاس رکھنے کا حق نہ ہو گا۔سرپرست طبقہ کے
افراد کو علیحدہ گھر بنانے کی بھی ممانعت ہو گی۔قارئین افلاطون نے تقریباً
دو ہزار سال پیشر یہ بات حکمران اشرافیہ کے لیے طے کر دی تھی کہ جس نے
حکمرانی کرنی ہے اُس نے پھر دولت نہیں کمانی اُ س نے بس پھر خدمت کرنی ہے۔
معاشرئے کے لیے سرپرست بن کر رہنا ہے۔دولت کے انبار نہیں لگانے۔ موجودہ دور
کی اشرافیہ نے عوام کا لہو چوس لیا ہے۔ پاکستان کی حد تک تو ایسا ہی نظر
آتا ہے
|