عرفان اﷲ خان مروت سندھ صوبائی سمبلی کی سیٹ ایس پی ۱۱۴
جس میں کشمیر کالونی، اختر کالونی، محمود آباد، جنیسر گوٹ، کراچی
ایڈمنسٹریشن سوسائی اور منظور کالونی بستیوں پر مشتمل ہے نون لیگ اور جماعت
اسلامی کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے الیکشن جیتے تھے۔ گو کہ جماعت اسلامی
نے کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی کی وجہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کیا
تھا۔ عرفان مروت کے خلاف ۲۰۱۴ء میں الیکشن کمیشن میں کیس درج کیا گیا
تھا۔الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔ انہوں نے ا لیکشن کمیشن کے
فیصلہ کے خلاف اپیل کی تھی۔ بلآخر الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا
اور ان کو اس سیٹ سے فارغ کر دیا گیا۔الیکشن کمیشن نے اس سیٹ پر زمنی
انتخاب کا اعلان کیا اور اس کے لیے ۹ جولائی کو ووٹنگ ہونی ہے۔ امیدواروں
نے اپنی اپنی الیکشن مہم زور شور سے شروع کر رکھی تھی جو الیکشن کمیشن کے
حکم کے مطابق وقت ۷ اور ۸ جولائی کی رات ختم ہونے والی ہے۔ تمام قابل ذکر
امیدواروں ، جن میں جماعت اسلامی کے ظہور جدون، نون لیگ کے اصغر گجر، تحریک
انصاف کے نجیب ہارون، ایم کیو ایم پاکستان کے ٹیسوری اور پیپلز پارٹی کے
سعید غنی صاحبان اور ان کی جماعتوں کا اس حلقہ میں عوام کے مسائل کرنے پر
تقابلی جائزہ لیا جائے تو اور ووٹروں کی رہنمائی کی جائے تو اس میں جماعت
اسلامی کے امیدوار ظہور کی ممکنہ جیت نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی اس علاقہ
اور کراچی کی ایک موثر ترین سیاسی جماعت ہے۔ یہ ہمیشہ کراچی کے مفادات کے
لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں آواز اُٹھاتی رہی ہے۔ کراچی سے جماعت
اسلامی کے مشہور ومعروف رہنماپروفیسر عبدالغفور اور محمود د اعظم فاروقی
اور سابق میئر کراچی عبد الستار افغانی منتخب ہو کر کراچی کے عوام کی بے
لوث خدمت کرتے رہے ہیں۔سارا پاکستان اور پوری دنیا کے انصاف پسند اور حق گو
انسان ان کی صداقت اور ایمان داری کی گواہی دیتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اور
جماعت اسلامی کے دوسرے منتخب ممبران قومی اسمبلی ،ممبران صوبائی اسمبلی ،بلدیاتی
ناظمین اوربلدیاتی ممبران کبھی بھی کرپشن میں ملوث نہیں پائے گے۔ انہوں نے
پلاٹ،پرمنٹ، ناجائز سفارش اور نوکریوں کی سیاست سے اجتناب کیا۔ حتہ کہ
پاناما کیس کی کاروائی کے دوران سیاسی پارٹی کے سربراؤں کے ایمان داری پر
ملک کی اعلی عدلیہ کے جج نے اپنے ریماکس میں فرمایا کی اگر پاکستان کے آئین
کی ۶۲۔۶۳ پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو پرکھا جائے تو جماعت
اسلامی کے امیر اور سینیٹرسراج الحق کے سوا دوسرا کوئی بھی لیڈر پورا نہیں
اُترتا۔ صاحبو! پاکستان کی اعلی ٰ عدالت کے طرف سے یہ سند جماعت اسلامی اور
اس کے امیدوار سندھ سمبلی ظہور جدون کے لیے بڑا اعزاز ہے۔سندھ صوبائی
اسمبلی کے منتخب ممبر اور بعد میں کراچی شہر کے ناظم منتخب ہونے پر نعمت اﷲ
خان ایڈوکیٹ نے کراچی میں ترقیاتی کام کرنے میں اور جماعت اسلامی کی
نمائندگی کرتے ہوئے بڑانام کمایا ۔ پہلی دفعہ کراچی کی سڑکیں استعمال کرنے
والے کراچی کے بڑے بڑے اداروں جس میں کے پی ٹی اور دوسرے ادارے شامل تھے
فنڈ لے کر کراچی شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ کچی آبادی اختر کالونی کو صرف ۲۵
رہے گز کے حساب سے لیز دے کر عوام کے دل جیت لیے۔ مرحوم عبدالستار افغانی
نے اپنی دو دفعہ کراچی کی میئر شپ کے دروران اختر کالونی میں پانی کی نئی
لین ڈلوا کر عوام کے دل جیت لیے۔ پی ایس ۱۱۴ کی بستیوں میں بارش کے دوران
سیلاب کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی اور بستیوں کے گھروں میں سیلاب کا پانی
آٹھ آٹھ فٹ تک بھر جاتا تھا ۔ ورلڈ بنک سے مذاکرات کر کے اس کے لیے فنڈ
مختص کرائے اوران بستیوں کے لیے سیلاب کے پانی کو روکنے کے لیے مٹی کا بند
بنوا کر ہمیشہ کے لیے ان کو بارش کے صورت میں سیلاب سے بچا کر انسانیت اور
ان بستیوں پر احسان کیا۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام اور پی ایس ۱۱۴ کے
عوام کی خدمت کے لیے الخدمت کے شفاہ خانے اور پانی کے فلٹر پلانٹ سے صاف
پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ظہور جدون اور عمران باغپانی نے اپنی نظامت کے
دروان اختر کالونی اور کراچی ایڈمنسٹریشن کالونی میں عوام کی ریکارڈ خدمت
کی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان شاندار خدمات اور نیک نامی اور کرپشن
سے پاک جماعت اسلامی کے امیدوار پی ایس ۱۱۴ ظہور جدون کو ان بستیوں کے عوام
اپنے ووٹ استعما ل کر کے کامیاب بنائیں گے۔اگر پیپلز پارٹی کے امیدوار کی
بات کیا جائے۔ تو سعید غنی صاحب کی پارٹی کو اس حلقہ سے کامیابی مشکل نظر
آتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کئی برسوں سے حکمرانی کرتی آئی ہے یہ بستیاں
سندھ میں ہی ہیں مگر اس نے ان بستیوں میں پانی ، سڑکوں، سوریج اور صحت کا
کچھ بھی انتظام نہیں کیا نہ ہی اس بستیوں کی کچی آبادیوں کو مستقل رہائشی
حقوق دیے۔ کرپشن کا ریکارڈ بھی پیپلز پارٹی نے قائم کیا۔ ایم کیو ایم جو
دھونس دھاندلی سے کراچی کے عوام پر ڈاکے ڈال کر مصنوئی طریقے سے اقتدار
حاصل کرتی رہی ہے۔ ایک دہشت گرد اورلسانی تنظیم کے حوالے سے ظلم و ستم کی
کہانیاں جنم لیتی رہیں ہیں۔ یہ جماعت دہشت گرد الطاف حسین سے پاکستان کے
خلاف تقریر کرنے پر علیحدگی کا اعلان کر کے تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہی
ہے۔ ایک حصہ کے طورپرایس ۱۱۴ پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ اس لیے ایک
بدنام دہشت گرد پارٹی کے نمائندے کو عوام رد کر دیں گے۔ جہاں تک تحریک
انصاف کے نمائندے نجیب ہارون کا معاملہ ہے تو یہ صاحب نہ تو اس حلقہ کے
رہاشی ہیں نہ اس حلقہ کے مسائل سے روشناس ہیں۔ اس لیے ان کی کامیابی بھی
نظر نہیں آرہی ۔ اگر نون لیگ کے پہلے نمائندے کی بات کریں جس کو الیکشن
کمیشن نے ڈی سیٹ کیا اور س حلقہ میں نئے انتخاب ہو رہا ہے نہ تو اس نے اس
حلقہ کے مسائل پہلے حل کیے نہ وہ نون لیگ سے وابستہ ہیں ۔پہلے پیپلز پارٹی
میں شرکت کی کوشش کی نا کامی کے بعد میں تحریک انصاف میں بسیرا کیا۔ اب نون
لیگ کے نئے امیدوار سے بھی عوام کی کوئی اچھی توقعات نہیں۔ اس لیے نظر آتا
ہے کہ ان بستیوں کے عوام کراچی کی بے لوث خدمت کرنے والی جماعت اسلامی اور
کرپشن سے پاک پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے نیک نامی کی سند حاصل کرنے والی
جماعت کے امیدوار ظہور جدون کو۹ جولائی کو منتخب کریں گے۔ |