کشمیر میں احتجاج کی نئی لہر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حبیب اﷲ قمر
برہان وانی کی شہادت کے بعد سے بھارتی فوج ظلم و بربریت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔نہتے کشمیریوں کا قتل روز کا معمول بن چکا ہے۔ کشمیری احتجاج کیلئے نکلتے ہیں تو ان پر پیلٹ برسائے جاتے اور اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تعلیمی ادارے بندپڑے ہیں ۔بھارتی فورسز کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر حریت کانفرنس کیخلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔سید علی گیلانی سمیت پوری حریت قیادت نظربند ہے۔سارا مقبوضہ کشمیر فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے۔کشمیر میں احتجاج کی ایک نئی لہر ہے جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے۔ بھارتی ایجنسیاں ہر صورت اس صورتحال پر قابو پانا چاہتی ہیں تاہم انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ انہیں کرنا کیا ہے۔پچھلے کچھ عرصہ سے بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کشمیری تنظیموں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے لیکن تمامتر وسائل استعمال کرنے کے باوجود مودی سرکار اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ہندوستانی فوجی حکام اور عسکری ماہرین نے موجودہ صورتحال پر نئی دہلی میں سر جوڑرکھے ہیں اور اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اس امر پر غوروفکر کیا جارہا ہے کہ وادی کشمیر سے جموں تک پھیلتی ہوئی تحریک آزادی پر کس طرح قابو پایا جائے۔ اب تو مختلف بھارتی جرنیل اور دانشور اعلانیہ طور پر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ بی جے پی سرکار نے بعض معتدل قسم کے لیڈروں کو کشمیری قیادت سے ملاقات اور ان کا موقف جاننے کیلئے سری نگر بھی بھیجا جنہوں نے مختلف حریت قائدین سے ملاقاتیں بھی کیں تاہم حریت قیادت کے مضبوط موقف اور غاصب بھارتی حکومت کے سامنے کسی صورت جھکاؤ اختیار نہ کرنے والی پالیسی سے وہ بھی مایوس واپس لوٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ جو کل تک یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر کسی صورت مذاکرات نہیں کریں گے ‘یہ کہتے دکھائی دیے ہیں کہ وہ جموں کشمیر کے معاملہ پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہیں تاہم اس دوران بھی وہ پروپیگنڈا سے باز نہیں آئے اورکہاہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے کئی مرتبہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے پہل کی ہے مگر اسلام آباد کی جانب سے مثبت جواب نہیں دیا گیا۔

ہندوستانی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی طرف سے ڈھونگ الیکشن میں ناکامی اورکمانڈر سبزار احمد، جنید متو اور بشیر لشکری کی شہادت کے بعد پورے کشمیر میں احتجاج کی ایک نئی لہر پیدا ہونے پرانڈیا سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے تاہم بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی اور دیگر قائدین پہلے سے ہی اس بات پر ناراض ہیں کہ پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی سب سے مضبوط اور توانا آواز جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعیداور دیگر رہنماؤں کومحض بھارتی خوشنودی کیلئے سال 2017ء کشمیر کے نام کر کے ملک گیر مہم شروع کرنے پر نظربند کر دیا گیا ہے اور پانچ ماہ گزرنے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا جارہا۔ حکومت عدالتوں میں ان کیخلاف کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کر سکی اوریہ موقف اختیار کیا جارہا ہے کہ کشمیریوں کے حق میں ان کی طرف سے کی جانے والی تقریروں سے بین الاقوامی دباؤ آتا ہے اور یہ کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر انہیں نظربند کرنے پر مجبور ہیں حالانکہ یہ بات سرے سے غلط ہے۔ وفاقی نظرثانی بورڈ کی طرف سے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ نے کئی قراردادیں پاس کر رکھی ہیں سرکاری وکلاء بتائیں‘ انڈیا نے آج تک کس قرارداد پر عمل درآمد کیا ہے؟۔بہرحال حافظ محمد سعید کی نظربندی اور اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے جس لاقانونیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے یہ ایک الگ بحث طلب موضوع ہے جس پر پھر کبھی اظہار خیال کروں گا ۔ ابھی فی الحال مجھے صرف یہی کہنا ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیریوں نے لازوال قربانیاں دیکر تحریک آزادی کو جس موڑ پر پہنچا دیا ہے اور اب سبزار احمد بھٹ ، جنید متو اور بشیر لشکری کی شہادت کے بعد جس طرح زوردار احتجاج کیاجارہا ہے خدارا ان قربانیوں کا خیال کیجئے ، بھارت سرکار سے دوستی والا رویہ ترک کر کے کشمیری قیادت کا اعتماد بحال کیا جائے اور قائد اعظم کی قومی کشمیرپالیسی پر عمل کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی ہر ممکن مددوحمایت کی جائے۔ اس نازک ترین مرحلہ پر اگر آپ صرف ذاتی مفادات کی خاطر کمزور پالیسی اختیار کریں گے تو کشمیری و پاکستانی قوم کے جذبات مجروح ہوں گے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو مزید نقصان پہنچے گا اور تاریخ میں آپ کے اس کردار کااچھے الفاظ میں ذکر نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نوا زشریف خود کو کشمیری کہتے ہیں تو انہیں حقیقی معنوں میں انہیں کشمیری قوم کا پاسبان بننا چاہیے۔ مظلوم کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ وہ اپنے شہداء کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں تو ہمیں بھی ان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ باربار کے کرفیو کی وجہ سے کشمیر میں غذائی قلت کی کیفیت ہے ۔ کشمیریوں کو بچوں کیلئے دودھ اور سبزیاں تک ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاح بھارتی فوجی ظلم و بربریت دیکھ کراپنی بکنگ کینسل کر کے واپس جارہے ہیں۔ سری نگر میں ہوٹل خالی ہو چکے ہیں۔ تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے اور سنگبازوں سے نمٹنے کے نام پر اسرائیلی تعاون سے کارنر شارٹ گن استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے مگر حکومت پاکستان کشمیریوں کے حق میں مضبوط آواز بلند کرنے کی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جماعۃالدعوۃ نے برہان وانی کی شہادت کے حوالہ سے سات جولائی سے انیس جولائی یوم الحاق پاکستان تک عشرہ شہدائے کشمیر منانے کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلہ میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور ، کوئٹہ، راولا کوٹ اور مظفر آباد سمیت پورے ملک میں شہداء کشمیر کانفرنسوں، جلسو ں اور یلیوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ حافظ محمد سعید کی نظربندی کے بعد بھی جماعۃالدعوۃ اپنی بساط کے مطابق کشمیریوں کی بھرپور مددوحمایت کر رہی ہے تاہم کشمیری عوام اپنی محسن شخصیت کو نظربندیوں سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ بھارتی دباؤ پر انہیں نظربند کرنا کشمیریوں کو کسی صورت برداشت نہیں ہے۔ حکومت پاکستان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعہ بھارت سے دوستانہ رویے پروان چڑھانے اور مذاکرات کی کوششیں کر رہی ہے۔ ہم صاف طور پر کہتے ہیں کہ اگر آپ مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو بھارت سرکار کی نہیں اپنی وکٹ پر کھیلیں۔آپ کو واضح طو رپر کہنا چاہیے کہ انڈیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرکو متنازعہ خطہ تسلیم کرے۔ اپنی آٹھ لاکھ فوج جس نے کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا کر رکھی ہے اسے وہاں سے نکالے اور پھر کشمیر کی بات کرے۔ انڈیا نے اس وقت کنٹرول لائن پر بھی غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردوں کو داخل کر کے تخریب کاری و دہشت گردی کروا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر غیر قانونی اور متنازعہ ڈیم تعمیر کر کے وطن عزیز کی طرف آنے والے پانی کی ایک ایک بوند روکنے کی باتیں کی جارہی ہیں تو ایسی صورتحال میں غاصب بھارت سے خیر کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟۔حکومت پاکستان کو اپنی پالیسیوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور خاموش سفارت کاری اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی چھوڑ کر واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کشمیریوں کی پشتیبانی کا حق ادا کرنا چاہیے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید و دیگر نظربند رہنماؤں کو بھی فی الفور رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والے آواز کو خاموش نہیں کرنا بلکہ مظلوم کشمیریوں کی مددوحمایت کرنے والوں کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے چاہئیں تاکہ لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی کشمیری قوم کو غاصب بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلائی جاسکے۔

 

Musab Habib
About the Author: Musab Habib Read More Articles by Musab Habib: 194 Articles with 125666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.