جنوبی پنجاب کا استحصال!

 ’قربِ الیکشن‘ کی نشانیاں بڑی شدومد سے ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ سیاستدان اپنے اپنے انداز سے الیکشن مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔اسی تناظر میں پاکستان کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنا ایک نیا بیان جاری کیا ہے، جو ہے تو روایتی اور قدیمی، مگر کیا کیجئے کہ سیاستدانوں کے پاس مستقل ایشوز کا مخصوص ذخیرہ ہوتا ہے، جنہیں وقتاً فوقتاً بروئے کار لایا جاتا ہے،فرماتے ہیں ’’․․․ جنوبی پنجاب کا استحصال بند کیا جائے․․ سرائیکی خطے کو اس کا حق ملنا چاہیے ․․․ یہاں اٹھنے والی محرومیوں کی آواز بے جا نہیں ․․․ ترقی اور خوشحالی میں جنوبی پنجاب کو پیچھے دھکیلا جارہا ہے ․․․ ہر سال بجٹ میں اربوں مختص کئے جاتے ہیں، مگر فنڈز جاری نہیں کئے جاتے ․․․ ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچائے جاتے ․․․ اب عوام کو وعدوں پر نہیں ٹرخایا جاسکتا ․․․ آئندہ الیکشن میں عوام ن لیگ کو مسترد کردیں گے․․․‘‘۔ پارلیمانی جمہوریت میں وزارتِ عظمیٰ سب سے بڑا اور اہم عہدہ ہوتا ہے، یوسف رضا گیلانی نے چار برس تک یہ ذمہ داری اپنے مخصوص طریقے سے نبھائی، حکومتی ایوانوں میں وہ پہلے ہی انتظامی تجربات سے گزر چکے تھے۔ وزارتوں سے ہوتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔

جنوبی پنجاب کی محرومیاں یہاں کے سیاستدانوں اور عوام (حتیٰ کہ مخالفین) کا بھی مرغوب و محبوب عنوان ہے، تینوں فریق اپنی سیاست کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں، کیونکہ الیکشن مہم کے لئے اہم ایشوز کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب سیاستدان حکومت میں ہوتے ہیں تو اپوزیشن پر کام نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں، کہ انہوں نے اپنے دور میں کچھ نہیں کیا، جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو حکومت پر الزام دھرا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کررہی، رہے عوام تو وہ اپنی قیادتوں کی حمایت کرتے اور مخالفوں پر الزام لگاکر وقت گزارا کرتے ہیں۔ حکومتیں اور سیاستدان جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں، عوام دراصل اندر کی کہانیوں سے واقف نہیں ہوتے، بس اپنی لاعلمی کی بنا پر ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہو جاتے ہیں، معاملات کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، سیاستدان یقینا اپنی نجی محفلوں میں عوام پر ہنستے ضرور ہوں گے۔ سرائیکی خطے کے حق، محرومیوں کی آواز، فنڈز، وعدوں پر ٹرخانا وغیرہ جیسے معاملات مختلف اصناف سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں کچھ مشورے ہیں، کچھ مطالبے، کچھ احتجاج ، کچھ دھمکیاں اور کچھ پیشین گوئیاں۔ مگر یہ تمام باتیں دل سے نہیں، بس حلق سے اوپر سے نکلی ہوئی ہیں، جنہیں صحیح معانوں میں ’’سیاسی بیان‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔

گیلانی سرکار کے بیان کا جائزہ لینے کے لئے کسی بہت بڑی تحقیق کی ضرورت نہیں، باریک بینی سے تاریخ کے اوراق پلٹنے کی بھی ضرورت نہیں، ماضی میں تھوڑا سا جھانکنے سے ہر چیز آئینہ ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ بہت سے اہم حکومتی عہدے جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کے پاس رہے ہیں ۔ جن میں طاقتور گورنر ملک غلام مصطفےٰ کھر (جوکہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے)، صاحبزادہ فاروق اور یوسف رضا گیلانی کی صورت میں قومی اسمبلی کی سپیکر شپ دو مرتبہ ملتان کے پاس رہی، شاہ محمود قریشی کے والد ماجد سید سجاد حسین شاہ، سردار ذوالفقار کھوسہ، لطیف کھوسہ، سیدیوسف رضا کے کزن سید احمد محمود پنجاب کے گورنر رہے۔ جبکہ ملک رفیق رجوانہ کی صورت میں اب بھی گورنرپنجاب ملتان سے ہی ہیں۔ صدیق خان کانجو اور شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہے۔ مخدوم شہاب کی شکل میں وفاقی وزارتِ خزانہ بھی اس خطے کے پاس رہی۔ اور تو اور فاروق خان لغاری کی صورت میں اسمبلیاں توڑنے اور حکومتوں کے تخت پلٹنے کے اختیارات سے مزین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر بھی اسی خطے سے رہے ہیں، اور خود سید یوسف رضا گیلانی پاکستان کے منتخب وزیراعظم رہے ہیں۔ انہیں تمام سوال دوسروں سے پوچھنے، خود کو بری الذمہ قرار دے کر ذمہ داری حکومت پر ڈالنے اور عوام میں بیداری مہم چلانے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے، اگرقومی دھارے میں جانے والے یہاں کے مقامی سیاستدان اپنے علاقے کے لئے کوئی قابلِ قدر خدمت سرانجام نہیں دے سکے، کسی محرومی میں کمی نہیں لاسکے اور ترقی کا کوئی سرچشمہ یہاں قائم نہیں کر سکے تو دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں سے کیا توقع اور کیوں؟ ویسے استحصال ہر کوئی کرتا ہے، جب موصوف خود وزیراعظم تھے تو انہوں نے جنوبی پنجاب کا 85فیصد بجٹ صرف ملتان شہر پر لگا دیا تھا۔ اگلے ہی الیکشن میں ملتان کے عوام نے آپ کے خاندان کو مسترد کر دیا تھا۔ اب دیکھیں عوام اپنی محرومیوں کے خاتمے کے لئے کس پر بھروسہ کرتے یا کس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جاتے ہیں؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428396 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.