ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے بنایا انسان کو
کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے اور جنوں کو بنایا اس سے پہلے لو کی آگ سے‘‘
(الحجر:۲۷)۔ تفسیر میں لکھا ہے کہ مٹی کو پانی میں تر کیا گیا اور اسکا
خمیر اٹھایا گیا کہ کھن کھن بولنے لگی وہی انسان کا بدن ہوا اور اسکی
خاصیّتیں سختی اور بوجھ اس میں رہ گئیں۔
انسان کی پیدائش جس خمیر یا مادہ سے ہوئی ہے اسمیں چار عناصر شامل ہیں یعنی
آگ ہوا پانی اور مٹی، انکی خاصیّت سختی، بوجھ، مزاحمت کرنا، نیچے کو گرنا
یعنی زوال پذیر ہونا اور ایک دوسرے سے دشمنی اور نفرت وغیرہ ہے۔اس کی
مثالیں ہم روزمرّہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ انسان اپنی نفع والی چیزوں کو
حاصل کرنے اور نقصان دہ چیزوں سے بچنے کیلئے دوسروں سے ٹکر لیتا ہے اور
مزاحمت کرتاہے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ہر جائز و ناجائز
طریقے استعمال کرتا ہے۔
اسی طرح انسان میں زوال پذیر ہونے کی خاصیّت ہے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ اگر وہ
روحانی اور اخلاقی طور پر کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہے تو ہر لمحہ اسکے
گناہگاری، اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی اور شیطان کی اطاعت جیسی پستیوں
میں گرنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں جسکا مشاہدہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتاہے۔
مثلاً بعض لوگ مال و دولت کے لالچ میں آکر اپنے دین و ایمان کو خیر باد کہہ
دیتے ہیں یعنی مرتد ہو جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم
نے جس چیز کیلئے اپنے دین و ایمان کا سود ا کیا ہے اسکی قیمت آخرت میں کتنی
زیادہ ہے؟
اور بعض لوگ گمراہی کی انتہا میں پہنچ جاتے ہیں قرآن پاک میں ایک صاحب
تصّرف درویش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جسکا نام بلعم بن باعورا تھا اس نے
اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبی حضرت موسٰی علیہ السّلام کے خلاف اپنے تصرّفات
چلانے کی ناپاک کوشش کی وہ انکے خلاف بددعا کرنے کی کوشش کرتا مگر الفاظ
اسکی اپنی قوم کے خلاف نکلتے قوم اس سے کہتی کہ تم یہ کیاکر رہے ہو کہ حضرت
موسیٰ علیہ السّلام کو بددعا دینے کی بجائے ہمیں بددعا دے رہے ہو تو وہ یہ
کہتا کہ یہ میرے بس میں نہیں، آخر کار اس گناہ کی پاداش میں اسکی زبان باہر
نکل پڑی اور وہ کتّے کی طرح ہانپنے لگا۔
اسی طرح مغل شہشاہ اکبر کے زمانہ میں شیخ مبارک اور اسکے بیٹے جو کہ اسکے
دربار علماء میں سے تھے وہ اسکی خواہش کے مطابق دینی تعلیمات میں ردّوبدل
اور تحریف کرتے اور اسے دین میں ایک اتھارٹی کا درجہ دیتے۔
مقصدیہ ہے کہ نفس و شیطان کے بہکاوے میںآکر انسان ذلّت و پستی کی کسی بھی
حد تک جا سکتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ دوست ہے ایمان والوں کا جو
انھیں(کفر کے اندھیروں سے) نور ہدایت کی طرف لاتا ہے اور جنھوں نے کفر کیا
انکے دوست شیطان ہیں جو انھیں نور ہدایت سے(کفر اور گمراہی کے) اندھیروں
میں دھکیلتے ہیں‘‘(القرآن)۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں رحمٰن کے بندوں کے مقابلہ میں شیطان کے بندوں کی
تعداد زیادہ ہے جو رحمٰن کے حکموں سے بغاوت کرتے ہیں اور شیطان کی پیروی
میں زندگی گذار دیتے ہیں۔
پیش نظر مضمون کا مقصد یہ ہے کہ انسان فطری طور پر زوال پذیر ہے اور ہر
لمحہ پستی کی طرف جا رہا ہے لہٰذا اگر وہ استقامت سے کام نہیں لے گا اوران
دو ازلی دشمنوں سے جہا د نہیں کرے گا تو وہ دنیا اور آخرت میں ناکام ہو
جائے گا۔
قرآن پاک میں انسان کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور جہاد کی کئی قسمیں ہیں
یعنی جہاد با لنفس، جہاد بالقلم،جہادباللسان اور جہاد بالمال وغیرہ، چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور بندگی کرو
اپنے رب کی اور اچھے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ اور جہاد کرو اللہ کی راہ
میں جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں چن لیا اور نہیں رکھی تم پر
دین میں کچھ مشکل اسی نے نام رکھا تمہار مسلمان پہلے سے اور اس قرآن میں
تاکہ اللہ کا رسول ﷺ گواہ ہو تم پر اور تم گواہ ہو دیگر امتوں
پر‘‘(الحج:۷۷)۔
جہاد کی تمام قسموں میں جہاد بالنّفس سب سے اہم ہے جسے ’’جہاد اکبر‘‘ کہا
گیا ہے چنانچہ نبی پاک ﷺ جب ایک غزوہ سے واپسی تشریف لا رہے تھے تو آپﷺ نے
صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ جہا د اصغر سے جہاد اکبر کی طرف چلو۔مقصد یہ تھا
کہ جنگ جو ابھی کفار سے لڑی گئی ہے یہ چھوٹی جنگ ہے اور بڑی جنگ نفس امّارہ
سے جہاد کر نا ہے کیونکہ کفار سے جنگ کبھی کبھی لڑی جاتی ہے اور ہر شخص اس
میں شریک بھی نہیں ہوتا اور نفس امّارہ سے جنگ ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہ
ہر شخص کو لڑنا پڑتی ہے۔
بہرحال اپنے نفس امّارہ سے جنگ کرنا جہاد اکبر ہے اور انسان جب تک یہ جہاد
کرتا رہے گا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران رہے گا اور اگر اسے چھوڑدے
گا تو ہمیشہ کیلئے ناکام ہو جائے گا لہٰذا یہ جہاد بہت ضروری ہے۔
|