وفات مسیح پر قادیانیوں کے ایک اشکال کا جواب

قادیانی سوال

’’فلما توفیتنی‘‘ میں توفی کے معنی سوائے مارنے یا موت دینے کے اور صحیح نہیں ہوسکتے۔ وجہ یہ ہے کہ بخاری شریف میں ایک حدیث ہے۔ جس میں رسول پاکﷺ نے اپنی نسبت بھی ’’فلما توفیتنی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور آنحضرتﷺ کی توفی یقینا موت سے واقع ہوئی تھی۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی بھی موت کے ذریعہ سے ہونی چاہئے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۸۹۰،۸۹۱، خزائن ج۳ ص۵۸۵،۵۸۶)
جواب

مرزاقادیانی! بے علمی بالخصوص نیم ملائی آپ کی گمراہی کی بہت حد تک ضامن ہے۔ اس حدیث سے آپ کو کس قدر دھوکہ لگا ہے۔ مگر منشاء اس سے آپ کو علوم عربیہ سے ناواقفی ہے۔ اس رحمتہ اللعالمینﷺ نے کمال فصاحت سے کام لیتے ہوئے فرمایا ہے۔
’’فاقول کما قال العبد الصالح وکنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘
(بخاری ص۶۹۳، بحوالہ ازالہ اوہام ص۸۹۰، خزائن ج۳ ص۵۸۵)
’’پس میں کہوں گا اسی کی مثل جو کہا تھا بندہ صالح نے ان الفاظ میں ’’وکنت علیہم شہیدا‘‘ مرزاقادیانی! یہاں رسول کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں وہی کہوں گا جو کہا تھا عیسیٰ علیہ السلام نے بلکہ فرمایا۔ میں کہوں گا اس کی مثل۔ کیا دونوں میں فرق نہیں ہے۔ آپ کی تحریف کا راستہ بند کرنے کو آنحضرتﷺ نے کما فرمایا اور اگر آنحضرتﷺ فرما جاتے ’’فاقول ما قال العبد الصالح‘‘ یعنی میں کہوں گا وہی جو کہا تھا عیسیٰ علیہ السلام نے۔ اس وقت البتہ آپ کو تحریف کے لئے گنجائش تھی۔ وہ بھی بے علموں کے سامنے۔ ورنہ علماء اسلام اس وقت بھی آپ کی کج فہمی کا علاج کر سکتے تھے۔ تفصیل اس کی ذیل میں عرض کرتا ہوں۔‘‘
۱… اگر آنحضرتﷺ فرماتے ’’فاقول ما قال العبد الصالح‘‘ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی وہی لفظ جواب میں عرض کروں گا جو عرض کر چکے ہوں گے عیسیٰ علیہ السلام یعنی اس حالت میں رسول پاکﷺ بھی فرماتے۔ ’’فلما توفیتنی‘‘ اس سے یہ کہاں لازم آیا کہ توفی کے معنی جو یہاں ہیں وہی وہاں بھی مراد ہیں۔ اس کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ میں بھی توفی کا لفظ استعمال کروں گا اس کے معنی دلائل سے معلوم ہوں گے۔ رسول کریمﷺ کی صورت میں واقعات کی شہادت کی رو سے توفی کا وقوع بذریعہ موت ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت میں واقعات وشواہد قرآنی کی رو سے رفع جسمانی سے ہوا۔ اس کی تشریح مثالوں سے زیادہ واضح ہوگی۔
سراقبال بھی ڈاکٹر ہیں اور مرزایعقوب بیگ قادیانی بھی ڈاکٹر ہیں۔ پس اگر زید یوں کہے کہ میں مرزایعقوب بیگ کے متعلق بھی وہی لفظ استعمال کروں گا جو میں نے سراقبال کے متعلق کیا ہے۔ یعنی ڈاکٹر۔ اس صورت میں صرف ایک عام جاہل ہی مرزایعقوب بیگ کو P.H.D سمجھنے لگ جائے گا۔ ورنہ سمجھدار آدمی فوراً ڈاکٹر کے مختلف مفہوم کا خیال کرے گا۔ اسی طرح ماسٹر کا لفظ اگر زید اور بکر دونوں کے لئے استعمال کیا جائے تو کون بیوقوف ہے جو دنوں کو ایک ہی فن کا ماسٹر سمجھنے لگ جائے گا؟ (نوجوان شریف لڑکے کو بھی انگریزی میں ماسٹر کہتے ہیں۔ دیکھو کوئی انگریزی لغات) یا ممکن ہے زید اگر کسی غلام کا مالک ہے تو بکر درزی ہو۔ اسی طرح بے شمار الفاظ (افعال اور اسماء) موجود ہیں اور ہر زبان میں موجود ہیں جو مختلف موقعوں پر مختلف معنی دیتے ہیں۔ پس اگر ’’ما‘‘ کا لفظ بھی آنحضرتﷺ استعمال فرماتے۔ جب بھی ہم مرزاقادیانی کا ناطقہ بند کر سکتے تھے۔ وہ اس طرح کہ رسول پاکﷺ کے الفاظ وہی کہنے کا اعلان کر رہے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے۔ مگر مفہوم یقینا محل استعمال کے مختلف ہونے سے مختلف ہوگا۔ بہرحال اس صورت میں مرزاقادیانی جہالت میں کچھ چالاکی کر سکتے تھے۔
۲… لیکن مرزاقادیانی! حدیث میں تو آنحضرتﷺ نے آپ کی چالاکی کا سدباب کرنے کے لئے ’’کما‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں کیا کہوں گا۔ حدیث میں ’’فلما توفیتنی‘‘ کے الفاظ تو بطور مقولہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام منقول ہیں۔ اگر آپ کہیں رسول پاکﷺ بھی یہی الفاظ قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں عرض کریں گے تو پھر ’’کما‘‘ کی فلاسفی اور فصاحت کلام کی اہمیت کیا رہی؟ ’’کما‘‘ تشبیہ کے لئے ہے۔ تشبیہ بیان کی جارہی ہے۔ دونوں حضرات کے اقوال میں۔ اگر دونوں کے اقوال ایک ہی ہوں گے تو مشابہت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر تو عینیت آجاتی ہے۔ جو کما کے منشاء کے بالکل مخالف ہے۔ اردو میں اس مضمون کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ (۱)وہ میرا بھائی ہے۔ (۲)وہ میرے بھائی کی طرح ہے۔
پہلے فقرہ میں کوئی مشابہت مذکور نہیں۔ اس واسطے وہ اور میرا بھائی ایک ہی شخص کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن دوسرے فقرہ میں دونوں کے درمیان مشابہت کا تعلق ہے۔ اس واسطے وہ اور میرا بھائی ایک نہیں ہوسکتے۔ بلکہ کسی امر مشترک کا بیان کرنا مقصود ہے۔ مثلاً علم میں، اخلاق میں، چال میں، طرز گفتگو میں یا کسی اور امر میں، پس وہ بے وقوف ہے۔ جو مشابہت کے وقت دونوں چیزوں کو ایک کہے۔ کیونکہ مشابہت دو مختلف چیزوں کے کسی امر خاص وصف میں اتحاد کی بناء پر ہوتی ہے۔ یعنی مشابہت کا ہونا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دو چیزیں ایک نہیں بلکہ مختلف ہیں۔ حدیث زیر بحث میں مشابہت بیان کی جارہی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اور رسول کریمﷺ کے اقوال کے درمیان، پس معلوم ہوا کہ دونوں کے اقوال ایک ہی الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی دونوں اقوال آپس میں ہم معنی ہوسکتے ہیں۔ ہاں کسی خاص وصف میں مشابہت ہونی لازمی ہے۔ دیکھئے۔ مرزاقادیانی نے خود تشبیہات کی حقیقت یوں درج کی ہے۔
’’تشبیہات میں پوری پوری تطبیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۲، خزائن ج۳ ص۱۳۸)
مرزاقادیانی! ہم آپ کی اس تحریر سے زیادہ کچھ نہیں کہتے۔ اسی اصول کے ماتحت اگر آپ ہم سے فیصلہ کرنا چاہیں تو ساری مشکل آپ کی حل ہو جاتی ہے۔ دونوں حضرات کے اقوال میں مشارکت ومماثلت ہم بیان کرتے ہیں۔ آپ انصاف سے غور کریں۔
دونوں حضرات اپنی اپنی امت کی گمراہی کی ذمہ داری سے بریت کا اعلان کر رہے ہیںَ یعنی لوگوں کی گمراہی میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں اور نہ ان کی گمراہی ان کے زمانہ میں واقع ہوئی ہے۔ لوگوں کے گمراہ ہونے کے زمانہ میں دونوں حضرات موجود نہ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بسبب رفع جسمانی اور حضرت رسول کریمﷺ بسبب ظاہری موت اپنے اپنے لوگوں سے جدا ہوئے تھے۔ مقصود اپنی عدم موجودگی کا بیان کرنا ہے اور یہ وجہ مشابہت ہے۔ جس کی بناء پر رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ ’’فاقول کما قال العبد الصالح… الخ!‘‘
ایک اور طرز سے
مرزاقادیانی! اگر دونوں اولوالعزم حضرات کے اقوال کے درمیان ’’کما‘‘ تشبہی کے باوجود آپ دونوں کے کلام اور اس کے مفہوم کو ایک ہی لینے پر اصرار کرتے ہیں تو کیا فرماتے ہیں۔ جناب مندرجہ ذیل صورتوں میں۔
۱… اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’کما بدأنا اوّل خلق نعیدہ (انبیائ:۱۰۴)‘‘ جس طرح پہلی بار مخلوق کو پیدا کیا پھر اسی طرح پیدا کریں گے؟
کیا قیامت کے دن تمام مخلوق ماں باپ کے توسل سے ہی پیدا ہوگی۔ کیونکہ پہلی بار تو اسی طرح پیدا ہورہی ہے۔ دیکھا دونوں دفعہ پیدا کرنے میں کس قدر فرق ہے؟ مگر دونوں کو ایک طرح کا قرار دیا ہے۔ اگر آپ کا اصول ’’فلما توفیتنی‘‘ والا یہاں بھی چلایا جائے تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ آپ دوبارہ ماں کے پیٹ سے قیامت کے دن نکلیں گے۔ جیسے آپ پہلے نکلے تھے۔
(تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
۲… مرزاقادیانی خود آپ کا اپنا الہام ہے۔ ’’الارض والسماء معک کما ہو معی‘‘ اے مرزا زمین اور آسمان تیرے ساتھ اسی طرح ہیں۔ جس طرح میرے (خدا کے) ساتھ۔‘‘
(انجام آتھم ص۵۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
کیا آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ جیسے خدا ان کا خالق ہے۔ آپ بھی ان کے خالق ہیں۔ جیسے ان میں خدا کی بادشاہی ہے۔ ویسے ہی آپ کی بھی ہے؟
۳… اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’فاذکروا اﷲ کذکرکم اباء کم (بقر:۲۰۰)‘‘ یعنی تم اﷲتعالیٰ کو اسی طرح یاد کرو۔ جس طرح تم اپنے باپ داداؤں کو یاد کرتے ہو۔ اب باپ دادؤں کو یاد کرنے کا طریقہ سب دنیا جانتی ہے۔ مرزاقادیانی آپ نے اپنے باپ دادؤں کو یاد کرتے ہوئے ان کی سرکاری خدمات کا ذکر ضروری سمجھا ہے۔ یعنی کہ میرے والد نے سرکار انگریزی کی فلاں فلاں موقعہ پر یہ یہ خدمات سرانجام دیں۔ ’’میرے باپ نے غدر کے موقعہ پر سرکار کو اتنے جوان اور اتنے گھوڑے دئیے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ! مرزاقادیانی کیا آپ خدا کو بھی اس طرح یاد کرتے تھے۔ یعنی خدا نے فلاں فلاں جگہ سرکار انگریزی کی فلاں فلاں طریقہ سے مدد کی۔ اگر اس جگہ ’’ک‘‘ تشبیہی ہے اور اس سے عینیت لازم نہیں آتی۔ تو یقینا ’’فاقول کما قال العبد الصالح‘‘ (میں کہوں گا اسی طرح جس طرح کہا ہوگا بندہ صالح نے) میں بھی دونوں حضرات کی کلام کا حرف بحرف ایک ہونا لازم نہیں آتا۔
۴… دوسری جگہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’انا ارسلنا الیکم رسولاً کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولہ (مزمل:۱۵)‘‘ یعنی ہم نے اے لوگو تمہاری طرف ایسا ہی رسول بھیجا ہے۔ جیسا رسول کہ (موسیٰ) فرعون کی طرف بھیجا تھا۔
اب یہاں سوچنے کا مقام ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ہی دوبارہ آگئے تھے؟ اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو آیت زیر بحث میں بھی دونوں حضرات کی کلام لففاً ایک نہیں ہوسکتی۔
۵… ایک اور جگہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کما بدأکم تعودون (اعراف:۲۹)‘‘ یعنی جس طرح تمہیں بنایا۔ اسی طرح واپس لوٹو گے۔ کیا یہاں بھی آپ کے اصول کے مطابق یہی مراد ہے کہ جیسے پہلے انسان کا ظہور ہوا تھا۔ بعینہ اسی طرح پھر ہوگا۔ اگر یہ نہیں تو دونوں حضرات کی کلام بھی ایک نہیں ہوسکتی۔
۶… ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ ہو۔ ’’کتب علیکم الصیام کما کتب علیٰ الذین من قبلکم (البقرہ:۱۸۳)‘‘ یعنی اے مسلمانو! تم پر بھی روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلوںپر۔ کیا مرزاقادیانی آپ کے نزدیک پہلی امتوں پر بھی ماہ رمضان کے روزے فرض کئے گئے تھے اور اپنی تمام جزئیات میں اسی طرح فرض تھے۔ جس طرح مسلمانوں پر؟ یقینا نہیں۔ پس دونوں حضرات کی کلام میں بھی لفظی اور معنوی وحدت کا قائل ہونا تحکم محض ہے۔
۷… اس قسم کی مثالوں سے کلام اﷲ بھرا پڑا ہے کہ دو اشیاء کے درمیان تشبیہ بیان کی گئی ہے اور خود تشبیہ کا بیان ہی اس بات کا ضامن ہوتا ہے کہ وہ دونوں چیزیں مختلف ہیں۔
۸… خود اسی آیت زیر بحث میں اﷲتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منہ سے یہ الفاظ نکلوا دیے ہیں۔ ’’تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک‘‘ یعنی اے اﷲ تو میرے دل کی باتوں کو جانتا ہے اور میں تیرے دل کی باتوں کو نہیں جانتا۔ اب کون عقل کا اندھا اور علم سے کورا یہ خیال کر سکتا ہے کہ دونوں جگہ نفس سے بالکل ایک جیسے ہیں؟
 

عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 215304 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.