کہا جاتا ہے کسی گاوں کے چودھری صاحب اپنے بیٹے کی ضمانت
کے لیے ایک وکیل صاحب کے پاس گے وکیل صاحب نے بیٹے کا جرم پوچھا تو چودھری
صاحب کہنے لگے جرم تو کوئی خاص نہیں بس آپ میرے بیٹے کی ضمانت کرا دیجیئے ۔
وکیل کیس کو سمجھے بغیر لینا نہیں چاہا رہے تھے تو مجبورا چودھری نے ایک
لمبا سا اوکا بھر کے کہا وکیل صاحب میرا پت نکا جیا تے اے خود ہی سوچو جرم
کتنا بڑا کر سکدا ہے۔ آخر کچھ تو ہوا ہی ہو گا تبھی تو آپ کا بیٹا بند ہوا
ہے، وکیل صاحب نے چودھری کو ٹٹولتے ہوئے کہا۔ او جی بھاگاں والیو میز تے
پستول پیا ہویا سی جیدے وچ ہک ہی گولی سی نمانا لے کے باہر گیا ہگے لودھراں
دا مریل جیا چودہ پندرہ سال دا بال کھڑا سی میرے پت نے نشانہ چیک کرن لئی
پستول دا کھوڑا دبا دتا گولی اونوں لگ گئی تے او شودا ہگے ہی ماریا مکیا سی
ہکو گولی او وی نکے جے پستول دی، اونہے مرنا سی مر ہی گئیا دسو قصور تے
گولی دا ہویا جہیڑا میرے پت تے پا دتا۔ تسی اے کیس لے کر میرے پت دی ضمانت
کرا دیو سانوں یقین اے تسی انصاف دی گل کر کے پت نوں چھڑا لو گے۔
انصاف ایک ایسا لفظ ہے جس کا راگ وہ بھی الاپتے ہیں جو اس کو پسند نہیں
کرتے ، پسند نہ کرنے کی محض اتنی سی وجہ ہوتی ہے کہ اس کی کڑی ان سے مل رہی
ہوتی ہے ۔ ویسا دیکھا جائے تو انصاف کسی بھی معاشرے کا بنیادی جز ہے بلکہ
اگر یوں کہا جائے کہ معاشرے کی استقامت ترقی اور مساوات کا دارومدار ہی
انصاف پر ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔ وطن عزیز پاکستان ایک ایسا ملک یے جس میں
یہ واحد وہ لفظ ہے جسے صرف غریب لاغر لاچار اور بے سہارا انسان پسند کرتا
ہے اور بڑے اس سے کنی کتراتے ہیں ۔ بڑے لوگ اس لفظ سے اتنے نالاں ہیں کے
اگر ان کے سامنے اس لفظ کو ہونٹوں تک لایا جائے تو وہ اس کا مطلب غلیظ گالی
کے طور پر لیتے ہیں اور یہ لفظ جن لبوں سے وا ہو جاتا ہے ان کی یوں مرمت
کرتے ہیں کہ پھر وہ کہنا والا بیچارا خود ہی اس لفظ سے اتنا متنفر ہو جاتا
ہے کہ پھر کسی کے سامنے اس کا تذکرہ نہیں کرتا۔
کچھ عرصے سے انصاف کا ڈھونڈرا پاکستان میں زیادہ ہی پیٹا جا رہا یے لیکن
مصیبت یہ ہے کہ جب کسی سے کہا جاتا ہے آو انصاف کے پلڑے میں آپ کو بھی تولا
جائے تو وہ آگے سے اس قسم کا واویلا کرتا جیسا اس کو انصاف کا نہیں نا
انصافی کا کہا گیا ہو۔ اور تو اور ملک میں انصاف کے نام پر معرض وجود میں
آنے والی پارٹی بیس سالوں میں کوئی ایسی مثال نہیں چھوڑ سکی جس کو سورج کے
سامنے تو کجا جگنو کے سامنے کرنے سے بھی رہے بلکہ دیکھا جائے تو انصاف
احتساب اور حساب کے لیے سب سے زیادہ زور کا ڈنکا انہی کے دفع پر بجتا ہے
لیکن یہ خود ہی اس ریت کو توڑنے کے لیے بھی ہراول دستے کے طور پر سرگرم
ہوتے ہیں ۔
گذشتہ کچھ دنوں سے ایسا ہی ایک غوغا جمشید دستی کے نام سے مچا ہوا ہے جس کو
نہر توڑنے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا ہوا ہے ۔ آدھی سے زیادہ عوام دستی
کو بے گناہ بے قصور قرار دے رہی ہے اور پرنٹ میڈیا پر اس کی رنگ رنگ کی
فوٹوگرافی دکھائی جا رہی ہے ۔ کبھی تو دستی بچارے گدھے سے جوتی ہوئی گڈ پر
کہیں جوتے پالش کرتے اور کہیں چائے کا ڈھابا کرتے دکھائے جا رہے ہیں اور
موجودہ دور کے ایم این اے بھی ہیں ۔ موصوف پر الزام نہر توڑنے کا ہے جسے وہ
اور آدھی سے زیادہ عوام قبول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ تاویل دی جاتی ہے کہ
کسان پروری میں موصوف نے نہر توڑ دی ہے ۔ چونکہ یہ کام جذبہ خدمت کے تحت
کیا گیا ہے اس لیے اسے جرم نہیں کہا جا سکتا ۔
اب میں غیر جانبداری سے عوام سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ دیوتا
کسی ریلوے پھاٹک کے پاس ہوتے جو کسی ریل کی آمد کی وجہ سے بند ہوتا اور
دونوں جانب ٹریفک رکی ہوتی شدت کی گرمی سے مسافر بار بار کھڑکیوں سے منہ
نکال کر پھاٹک کو ریل کو پھاٹک والے کو دیکھ دیکھ کر پسینے سے شربور سر سے
لے کر ٹھوڑی تک کو پونچھتے اور یہ موصوف پھاٹک والے کو ہٹا کر پھاٹک کھول
دیتے ٹریفک چلنا شروع کر دیتی اسی اثنا میں ریل آ جاتی تو ۔۔۔۔ پھر کیا
ہوتا؟ کیا موصوف کے اس عمل کو انسانی ہمدردی کے زمرے میں لیا جاتا۔ میرے
خیال کے مطابق سب کا جواب "نہیں" ہو گا ۔
تو سنیے بالکل یہی صورتحال یہاں بھی ہو سکتی تھی ، غصے میں یا بندہ پروری
میں اچانک کھولی جانے والی نہر ریل سا ایکشن کر سکتی تھی برلب نہر کھیلتے
بچے نہر کے بیچ سے گزرنے والے مسافر دائیں بائیں چرتے ڈنگر سب اس کا لقمہ
بن سکتے تھے ۔ موصوف نہری علاقے سے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ نہر کھولنے کے
کیا اصول ہوتے ہیں محکمہ آب پاشی کتنے دن پہلے کسانوں اور آس پاس کے لوگوں
کو متعلقہ نہر کے بارے میں آگاہ کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن موصوف نے تمام حفاظتی
تدبیر کے ساتھ ساتھ نہر کا بند بھی توڑ دیا اور یکطرفہ سوچ کی عامل عوام اس
جرم کو جرم سمجھنے سے ہی انکار ہے بلکہ کہہ رہی ہے کہ ایہ کہیڑا جرم اے ہکو
بند ای تے پوٹھیا اے ہن اگلے تیرنا نہ جاہندے ہوون تے دستی دا کی قصور اے۔
ہمیں ایسے موقع پر سیاست پارٹی ازم اور برادری ازم سے ہٹ کر سوچنا چاہیے
اور اگر کسی سے بازپرسی ہو رہی ہو تو بجائے واویلہ کرنے کے دیکھا جائے کہ
کیا قانون درست ڈگر پر جا رہا ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی
مقامات پر عدل اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے
’’بے شک اﷲ تعالی عدل اور احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل:90)
’’ (اے نبیﷺ فرما دیجیے کہ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ عدل
کروں۔‘‘ (شوریٰ: 15)
حدیثِ نبویﷺ میں بھی عدل و انصاف کی بڑی تاکید آئی ہے۔ مثلاََ ’’مجھے حکم
دیا گیا ہے کہ خوشی اور ناراضی دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کروں‘‘
عدل و انصاف کے متعلق ایک مشہور حدیث ہے جس میں ارشاد ِ رسالت مآبﷺ ہے
’’تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم زوروں کو قانون کے
مطابق سزا دیتے تھے اور طاقت وروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس
کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر محمدﷺ کی اپنی بیٹی فاطمہ(رضی اللہ تعالی
عنہا) بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (بخاری)
اب اگر دستی صاحب کی جگہ کوئی دوسرا یہ کام کرتا تو ہم سب کا یہ زور ہوتا
کہ جرم کرنے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے اور اب "انصاف کا تقاضا" یہی ہے
کہ اس جرم کو سوچی سمجھی سازش قرار دیا جائے اور عدالتوں کو کارروائی کا
پورا اختیار دیا جائے۔
|