ایک عورت نے سڑک پر ایک بے گھر بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے
دیکھا جس کے بال بڑھے ہوئے ور کپڑے پھٹے ہوئے تھے‘اس رات ٹھنڈ بھی بہت تھی
اور اس بوڑھے شخص نے پھٹا ہوا کوٹ پہنا ہوا تھا‘ عورت کو اس شخص پر ترس آیا
اور اس کی مدد کرنے کےلئے رک گئی‘عورت کی خیریت پوچھنے پر بزرگ نے سوچا کہ
شاید وہ اس کا مذاق اڑانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسے دور جانے کا کہا‘ کیا
آپ کو بھوک لگی ہے؟
عورت نے پوچھا‘ بزرگ نے ہاں میں جواب دیا‘ جیسے ہی دونوں قریب ہی موجود
ریسٹورنٹ میں داخل ہونے لگے وہاں کے مینیجر نے انہیں داخلے سے روک دیا اور
کہا‘ یہاں بے گھر افراد کا داخلہ منع ہے‘ بوڑھا شخص جو اس رویے کا عادی تھا
مایوس ہو کر واپس جانے لگا‘ اتنے میں اس عورت نے منیجر سے سوال کیا‘ کیا آپ
اس بینک اسٹاف سے واقف ہیں جو اس سڑک کے کنارے پر موجود ہے‘ ہاں وہ تو ہر
ہفتے ہمارے ریسٹورنٹ کھانا کھانے اور میٹنگ کے لئے آتے ہیں‘ منیجر نے جواب
دیا‘ عورت بولی‘ آپ لوگ تو پھر ان سے کافی اچھا منافع کماتے ہوں گے۔ منیجر
نے تلخی سے جواب دیا‘ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں یہ سب! میں اس بینک کی سی ای او
ہوں‘ عورت نے جواب دیا‘منیجر نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالے بغیر ان کو اندر
آنے کا کہہ دیا‘
سی ای او کے رویئے کو دیکھ کر بوڑھے شخص نے حیرانی سے پوچھا ”آپ نے میرے
لئے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ سی ای او بولی‘میں بھی ایک بے گھر لڑکی تھی‘ ہمارے
پاس کھانے پینے کےلئے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا اور جب کبھی میری امی کچھ
پیسے جمع کرتی تھیں کہ ہم ریسٹورنٹ میں کھانا کھا سکیں تو ہم سے اسی طرح کا
سلوک کیا جاتا تھا‘ جس دن میں بینک کی سی ای او بنی اس دن میں نے یہ عہد کر
لیا تھا کہ میں کسی بھوکے شخص کو کھانا کھلانے کا موقع ضائع نہیں کروں گی‘
ہم سب برابر کی محبت کے حقدار ہیں۔ |