راز؛
اطلاعات کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے قوم کے سامنے یہ راز فاش کردیا ہے،
کہ ’’․․․ عمران خان اقتدار کی ہوس اور لالچ میں مبتلا ہیں ․․․ وہ صرف
شیروانی پہننا چاہتے ہیں ، اس کے لئے وہ ہر راستہ اپنا رہے ہیں ․․․ اب
انہیں ہر بات کا جواب سود سمیت ملے گا ․․․‘‘۔ لوگوں کو شاید عمران خان کی
اس لالچ اور ہوس کا اندازہ نہیں تھا، نہ ہی اس بات کا ذکر کبھی عمران خان
یا ان کے ساتھیوں نے خود کیا، عوام کو تویہ بھی معلوم نہیں تھا کہ عمران
خان کیا پہننا چاہتے ہیں، اگرچہ گرمیوں اور سردیوں کے کپڑے الگ الگ ہوتے
ہیں، اور آجکل عمران خان کی پسینے سے شرابور تصاویر بھی سوشل میڈیا کی زینت
بن رہی ہیں، مگر سرکاری ذرائع سے اب معلوم ہوا کہ وہ شیروانی پہننا چاہتے
ہیں، نہ جانے اس گرمی میں وہ شیروانی کے لئے ہی کیوں ضد کررہے ہیں؟ عمران
خان تو موجودہ حکومت کو چار برس سے پریشان کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر یہ
راز بھی اب ہی کھلا ہے کہ ’’اب‘‘ عمران خان کی ہر بات کا جواب سود سمیت ملے
گا۔ گزشتہ سالوں میں حکومتی سمت سے جو باتیں آرہی تھیں، گویا ان میں سود
شامل نہیں تھا، اس کی ملاوٹ اب شروع ہوگی۔ یار لوگوں کے سود کے خاتمے کے
مطالبے ہیں، یہاں سود دینے کی پیش کش کی جارہی ہے۔
جہاں قوم نے عمران خان کی لالچ اور ہوس وغیرہ کا راز پا لیا، وہاں
وزیرصاحبہ نے اس راز کو پوشیدہ رکھنے میں عافیت ہی مناسب جانی کہ میاں
برادران شیروانی سے کس قدر نفرت کرتے ہیں، نہ ہی انہیں اقتدار کی کوئی لالچ
یا ہوس ہے۔ وہ ایسے کاموں کے قریب بھی نہیں آنا چاہتے، یہ تو بس حالات ہی
ایسے ہو جاتے ہیں، جن کی وجہ سے انہیں مجبوراً شیروانی پہننی پڑ جاتی ہے
اور اقتدار سنبھالنا پڑ جاتا ہے۔ مریم اورنگزیب چونکہ اطلاعات کی وزیر ہیں،
اس لئے انہوں نے قوم کو اطلاع دے دی ہے، اب آگے کا حساب کتاب لوگ خود لگاتے
رہیں۔
عدالت کو تالا؛
سیالکوٹ میں بار کے صدرقتل کے ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلہ میں ایڈیشنل
سیشن جج کی عدالت میں پیش ہوئے۔ بحث کے موقع پر بات بڑھ گئی، نوبت تلخ
کلامی تک پہنچ گئی، جج صاحب اندر چلے گئے، صدر صاحب نے دیگر وکیل بھی اکٹھے
کر لئے، جج کے نام کی تختی اکھاڑ کر روند دی گئی، فرنیچر کو بھی الٹ پلٹ
کردیا گیا، اور عملہ کے دیگر لوگوں کو باہر نکال کر عدالت کو تالا لگا دیا
گیا۔
اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں، ایسے حادثات معمول ہیں، بلکہ ان میں اس
وقت سے اضافہ ہوگیا ہے، جب سے عدلیہ ’’آزاد‘‘ ہوئی ہے۔ کہنے کو تو عدلیہ
آزاد ہوئی ہے، مگر وکلاء برادری نے آزادی کا سرٹیفیکیٹ اس سے بھی پہلے حاصل
کرلیا تھا، کیونکہ اس آزادی کی تحریک وکلاء برادری نے ہی چلائی تھی۔ اب اس
مکمل آزادی کے ثمرات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اپنے معاشرے میں کسی ایک طبقہ کو
کبھی بھی کلین چِٹ نہیں دی جاسکتی، کیونکہ اچھے برے لوگ ہر طبقے میں ہوتے
ہیں۔ اس لئے جہاں عام آدمی کسی بار کے صدر وغیرہ کو اس لئے وکیل کرتا ہے کہ
وہ جج سے کام نکلوانے میں کامیاب ہو جائے گا تو اُن وکیلوں کا بھی یہ خیال
اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کا کام ہو۔ دوسری طرف بعض معزز جج بھی کسی بات سے
چِڑ کر قانون کو فراموش کر دیتے ہیں اور مخاصمت سے دلائل تلاش کرنے لگتے
ہیں۔ جس کے نتیجے میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے ، بات تلخ کلامی سے
بڑھ کر ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اس سے ہر فریق معاملے کو اپنی عزت
بے عزتی کا مسئلہ بنا لیتا ہے، اور نوبت جگ ہنسائی تک پہنچ جاتی ہے۔ قانون
کی تشریح کرنے اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے والوں کو ہر معاملے اور ہر
حال میں قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اخلاق قانون کی بنیاد
ہے۔ اگر یہ لوگ ہی عوام اور صارفین کے لئے تماشا بنتے رہیں گے تو باقی قوم
کا کیا حال ہوگا؟
دو رُخ؛
پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے نواز شریف اور عمران خان کو ایک ہی سکے
کے دو رخ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں نے سیاست کو گندہ کردیا ہے۔
دونوں سیاستدان اس جملے پر غور کریں، اور عوام اسے آج کا لطیفہ سمجھ کر لطف
اندوز ہوسکتے ہیں۔
|