ایک دوست جو پہلے میڈیکل سٹور کا کام کرتا تھا سے کچہری
میں ملاقات ہوئی ۔ میں نے حال احوال کے بعد کاروبار کے بارے میں سوال کیا
کہ کیسا جارہاہے اس نے بتایا کہ اس نے یہ کام چھوڑدیاہے کیونکہ اب اس کام
میں بہت زیادہ دو نمبری آگئی ہے۔ اکثر ڈاکٹرز مسیحا کی بجائے کمیشن ایجنٹ
بن گئے ہیں۔ ڈسٹری بیوشن بھی کرتے ہیں اور غیر ضروری طورپر ادوایات لکھنے
کے علاوہ ایسی ادویات تجویز کرتے ہیں جو صرف ان کے پاس کے میڈیکل سٹورز پر
ملتی ہیں۔ ڈاکٹرز کو ادویات کی کمپنیاں بڑی بڑی آفرز کرتی ہیں جن میں غیر
ملکی ٹورز، گاڑی، کیش انعام وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹرز کو ایک ٹارگٹ دیاجاتاہے کہ
آپ نے ہماری ادویات اتنی مقدار میں اتنی مدت میں فروخت کرنی ہیں ۔ ٹارگٹ
پورا کرنے پر آپ کو ملائیشیاء، تھائی لینڈ، دوبئی، منیلا کا فیملی ٹور
دیاجائیگا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک چائلڈ سپیشلسٹ جو ہلکی ادویات لکھنے
میں کافی شہرت رکھتے ہیں، نے تو اب ادویات پر اپنے بیٹے کا فوٹو تک
چھپوالیا ہے ان کی ادویات خاص کر انٹی بائیوٹک بچے کھاتے رہتے ہیں لیکن
افاقہ نہیں ہوتا۔ ایک ہسپتال میں موجود آرتھو پیڈک ڈاکٹر نے اپنے بھائی کو
ڈسٹری بیوشن دلادی ہے اسی کی ادویات تجویز کرتاہے۔ ایسا ہی کچھ ڈیرہ کا ایک
نفسیاتی مریضوں کا ڈاکٹر کررہاہے جو 99فیصد ادویات وہ لکھتاہے جس کی یاتو
اسکے پاس ڈسٹری بیوشن ہیں یا اسکے ساتھ سٹورز پر ہی دستیاب ہیں۔ دو نمبر
ادویات فروخت کرنے کا سلسلہ بھی ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے۔ چند ماہ
قبل جسٹس دوست محمد خان نے ایسے ہی چند کمپنیوں کے مالکان کو پکڑا تھا لیکن
ملک میں واضح قانون نہ ہونے کے باعث حماقت پر ایسے مکروہ دھندے میں ملوث
لوگ رہا ہوجاتے ہیں اور دوبارہ دھندے میں جت جاتے ہیں۔ پاکستان میں کراچی،
فیصل آباد، لاہور، پشاور، بنوں و دیگر شہروں میں خاص طورپر دو نمبر ادویات
تیار کی جاتی ہیں۔ ان پر ایران، بھارت، افغانستان وغیرہ کی مہر لگاکر فروخت
کیاجاتاہے۔ 12روپے کی دوائی پر 350روپے تک قیمت لکھ دی جاتی ہے ۔ اگر ان دو
نمبر اور ملکی ادویات بنانے والی کمپنیوں کی رجسٹریشن کینسل کردی جائے تو
کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا اگر کسی کی گرفت
بھی کی جاتی ہے تو عدالتی کارروائی میں تاخیر مسائل کو جوں کا توں رکھنے
میں مددگار ہے۔ ایفی ڈرین کا کیس سابقہ حکومت کے دور سے چلا آرہاہے۔ مذکورہ
تمام تر کاروبار میں مین کردار میڈیکل سٹور کے مالک کااہم کردار ہوتاہے۔
ڈاکٹرز کا اگر بس چلے تو وہ اپنے مریضو ں کو ادویات بھی خود ہی ڈائریکٹ
فروخت کرنا شروع کردیں۔ اس مکروہ دھندے میں پاکستان میڈیکل ریگولیرٹی
اتھارٹی کا کردار انتہائی ناقص اور مجرمانہ ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں
ہوشربا اضافہ اور ہر بل ادویات کی فروخت ان ہی کی مجرمانہ غفلت او رملی
بھگت کے باعث ہورہی ہیں۔ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ہے۔ ملٹی نیشنل
کمپنیاں آئے روز قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں جو بڑی ملٹی
نیشنل کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں ریکٹ اینڈ کولمین، بیچم، گلیکسو، کانٹی
نینٹل فارما، نائزر، روچ، ویلکم، ایبٹ، سرے کی قیمتوں کا اگر موازنہ پڑوسی
ممالک بھارت، بنگلہ دیش، ایران وغیرہ سے کریں تو ہماری قیمتی بہت زیادہ ہیں۔
اسی کے باعث بھارت، ایران سے سستی ادویات پاکستان میں سمگل ہوکر بھاری
مقدار میں آرہی ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں بھی ان ملکوں کا ٹھپہ لگاکر ملکی
ادویات کو فروخٹ کیاجارہاہے۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں موجود ادویات
مریضوں کو کبھی کبھار مفت دی جاتی ہیں ان کا معیار بہت پست ہوتاہے لیکن خوش
قسمت مریض ہی کہ یہ ادویات مفت ملتی ہیں ورنہ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو
لمبی لمبی ادویات کی فہرست پکڑادیتے ہیں کہ جاؤ بازار سے لے آؤ۔ بعد ازاں
وہی ادویات آپریشن کے بعد دوبارہ فروخت کردی جاتی ہیں۔ ہماری لیڈی ڈاکٹرز
میں سے اکثر نے اب ڈلیوری کے نارمل کیسز کو آپریشن کے ذریعے کرنے کا وطیرہ
بنالیاہے۔ ماؤ ں کے پیٹوں کو بلا ضرورت صرف چند ٹکو ں کی خاطر پھاڑ کر
انہیں ہمیشہ کیلئے مزید بچے پیدا کرنے سے محروم کردیاجاتاہے۔ ہمارے شہروں
میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات ملنے کا تصور موجود ہے لیکن دیہاتوں میں
ایک نمبر ادویات کا وجود ناپید ہے۔ اسی لئے اکثر مریض کسی بھی ناگہانی صورت
میں شہر پہنچنے سے پہلے اﷲ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں
کسی بھی تجارت میں دو نمبر کام عروج پر ہے۔ حکومتی ادارے مافیا کے آگے بے
بس ہیں لیکن چونکہ ادویات کے ساتھ لوگوں کی زندگی کا تعلق ہوتاہے اسی لئے
یہاں صورتحال زیادہ نازک ہوجاتی ہے کیونکہ حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق کسی
ایک بے قصور انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز ادویات کے
کاروبار سے منسلک وہ لوگ جو غلط کام کررہے ہیں کو آخر کار مرناہے اﷲ کے آگے
جوابدہ ہوناہے۔ خاص کر صحت کے شعبے سے منسلک مریضوں کی خدمت کرکے دنیا و
آخرت کی کامیابیا ں سمیٹ سکتے ہیں۔ خاص کر آجکل کے مہنگائی کے دور میں جب
دو وقت کی روٹی کا حصول تک مشکل ہوگیاہے لوگوں کی جیبوں کو صاف کرنا غلط
آپریشن کرنا، غیر ضروری ادویات تجویز کرنا، ہلکی ادویات لکھنا ظلم و زیادتی
کا ایسا سلسلہ ہے جس کی روک تھام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جہاں آوے
کا آوے ہی بگڑا ہوا ہو وہاں عوام روئے کس کے آگے۔ انصاف کس سے مانگے، مسیحا
کے نام پر ڈاکٹری کا پیشہ کرنے والے ان ڈاکٹروں کو بھی سوچنا چاہئے جو
ڈاکٹر کم اور کمیشن ایجنٹ زیادہ بنے ہوئے ہیں۔تمام تر ڈاکٹروں کو اس مکروہ
دھندے میں ملوث قرار نہیں دیاجاسکتا۔ ان میں سے انسانیت کی خدمت کرنے والے
لوگ بھی موجود ہیں لیکن ایسی کالی بھیڑوں کا محاسبہ کرنا اس ملک کے بڑوں کی
ذمہ داری بنتی ہے۔ اب جبکہ حکومت نے ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ
کردیاہے ، غریبوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنا قابل قبول نہیں۔ |