مٹھائیاں بانٹ لیں ، فیصلہ آنے میں وقت لگ سکتا ہے

ہم سیاسیات اور صحافت کے طالعلموں کو کیا پتہ کہ یہ قانونی اور آئینی تقاضے کیا ہوتے ہیں اور کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تو بڑے بڑے قانون دان اور مفکرین ہی جانتے ہیں کہ فیصلے کیسے کیے جا سکتے ہیں اور عوام کو دو دو مہینے مصروف رکھا جا سکتا ہے۔ مجھے تو کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کو تعلیم، سائنس اور دوسرے علوم کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنا کہ سیاست کی ضرورت ہے۔ دیکھ لیجیئے اور اندازہ کر لیجیے موجودہ حکومت کے بھی پورے پانچ سال ہونے کو ہیں اور حکمران پارٹی اور حزب اختلاف ہمیسہ قوم کو یہی سنہرا پیغام دیتی رہی ہے کہ قوم کو جلد خوشخبری ملنے والی ہے اور مجھے اس خوشخبری کو قیامت سے پہلے بالکل ہی ممکن نہیں لگتی۔ حکموت ختم ہوگی تو پھر نیے کرپشن کے پنڈورے کھل جائیں گے کہ فلاں فلاں وزیر، مشیر، فوجی جرنیل(جن کا کم ہی نام لیا جاتا ہے)، بیوروکریٹ نے اربوں روپوں کی کرپشن کی پھر اچانک خبریں گرم، عوام مشغول اور بندے گرفتار بھی فرار بھی اور چند دنوں بعد رہا بھی۔ یہ وہ سب باتیں ہیں جو دیکھی جا چکی ہیں۔

خیر بات تو ہو رہی تھی مقبول ترین بین الاقوامی پانامہ کیس کی جس میں قزیراعظم نواز شریف کے اپنے حکم سے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے لیے پیش کیا جانا واقعی خوش آئند تھا لیکن دو مہینے تک جن جوائنٹ ٹیم یعنی جے آئ ٹیم کی محنت کا پھل کب اور کیسے مل سکے گا یہ بھی کہنا قبل از وقت لگ رہا ہے۔
 
جے آئی ٹی رپورٹ کے اہم پوائنٹ دیکھ لیں جس میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بلایا گیا اور ان کے بیانات سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ان کے طرززندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔ س کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھاری رقوم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اہم ترین اپنی حتمی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ مدعا علیہان کی برطانوی کمپنیاں شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ترسیل میں ملوث تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لیے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔

سیدھی بات تو یہ ہے کہ اس جے آئی ٹی رپورٹ کو میں تو نہیں سمجھ پا رہا کیوں کہ میں ایک عام سا سیکھنے والا آدمی ہوں اور یہی حال میری قوم کا ہے چاہے وہ مٹھائیاں بانٹیں یا افسوس کریں لیکن قانون دان اس کی بہتر تشریح کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے چھ اہم ترین سول اور عسکری اداروں کے اہم ترین افسران پر مشتمل ٹیم نے وزیراعظم کے بچوں کو بقول مسلم لیگ ن افراد جتنا ذلیل کیا ہے تو بہت ہی تکلیف دہ مرحلہ تھا کیونکہ ن لیگی رہنماؤں نے کئی مرتبہ غصے کا اظہار بھی کیا تو ایک رہنما نے جے آئ ٹی کو برے نتائج کی دھمکیاں بھی دیں کیا معلوم کہ انہوں نے بھی ان دھمکیوں کو سنجیدہ لیا ہو اور رپورٹ کو ایسا پیش کیا ہو کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو۔

یہاں پر عالم اسلام کی تاریخ کا سرسری مطالعہ کریں تو بہت ہی مشکل ترین فیصلوں کو چند دنوں نہیں بلکہ چند لمحوں میں نمٹا دیا جاتا رہا ہے اور اگر موجودہ دور کے اقوام عالم کا مطالعہ کریں تو ترقی یافتہ قومی کی سب سے بڑی خاصیت یہی رہی کے انہوں نے ببدعنوانیوں سے لے کر قتل و گارت تک کے فیصلوں کو چند دنوں میں مثبت اور بہترین فیصلے سنائے۔

رپورٹ بناتے بناتے دو دو مہینے تو مکمل ہو چکے ہیں لیکن قوم اب مٹھائیاں کب بانٹیں کے ان کی دن رات کی محنت اور پسینے سے جانے والے پیسےکب واپس آئیں گے یا اس لیے بانٹے کی ان کے قائدین کا کوئ بال باکا بھی نہیں کر سکا یا اس اپنی اپنی پارٹی کی فتح حاصل کرنے پر کب مٹھائی بانٹے کیونکہ ہمیں تو اب تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ عدالت کا فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے تو جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے بھی یہ کہا ہے کہ "یہ کہنا فی الوقت مشکل ہے۔"

ایک اہل ایمان اور مسلمانی کے دعوے دار کے لیے قرآن حکیم کی ا ٓیات ایک حکم ہیں جس میں بارہا اے ایمان والو کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے ۔ اگر ان سے بھی رو گردانی کر جاتے ہو چاہے وہ جس بنیاد پر بھی ہو تو پھر یقین جانیے آپ کی مسلمانی میں صرف شک نہیں بلکہ آپ اپنے ایمان کے کلی منکر ہیں۔

قرآن حکیم کی سورہ نساء آیت نمبر 135 صاحب اختیار اور انصاف قائم کرنے والوں کے لیے ایک حکم عظیم ہے جس کا ترجمہ ہے: اےایمان والو! انصاف پر قائم رہو (اور وقت آنے پر) اللہ کی طرف گواہی دو اگرچہ خود پر ہو یا اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں پر، اگر کوئی مالدار یا فقیر ہے تو اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، سو تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو، اور اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بلاشبہ اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔

Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 44767 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.