بسم اللہ الرحمن الرحيم
الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
درود شریف کی فضیلت میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
(١)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى
اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ
فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ، ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ
لِيُثْنِ عَلَى اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ
الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ،
أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ،
وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ
إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا
هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا
قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا
حَدِيثٌ غَرِيب(جامع الترمذي، حديث؛ ٤٧٩)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت
ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے،
پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ ( درود ) و سلام بھیجے، پھر کہے: «لا إله إلا الله
الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك
موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع
لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا
أرحم الراحمين» ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم (بردبار) ہے،
کریم (بزرگی والا) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں
اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین (سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے
تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال
کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال
کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے
بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی
ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے“ امام ترمذی
کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے
(٢)حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا
رِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ
سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ،
وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ
قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ، وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ
عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ ، قَالَ
عَبْدُ الرَّحْمَنِ: وَأَظُنُّهُ قَالَ: أَوْ أَحَدُهُمَا .
قًالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ
أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ،
وَرِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ هُوَ أَخُو إِسْمَاعِيل بْنِ
إِبْرَاهِيمَ وَهُوَ ثِقَةٌ وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ، وَيُرْوَى عَنْ
بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ عَلَى
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً فِي الْمَجْلِسِ
أَجْزَأَ عَنْهُ مَا كَانَ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ.
جامع الترمذي، حديث؛ ٣٥٤٥
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس
کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ شخص مجھ پر درود نہ بھیجے، اور اس شخص کی
بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت
ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے
اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا ہو اور وہ دونوں اسے ان کے ساتھ حسن سلوک
نہ کرنے کی وجہ سے جنت کا مستحق نہ بنا سکے ہوں“، عبدالرحمٰن (راوی) کہتے
ہیں: میرا خیال یہ ہے کہ آپ نے دونوں ماں باپ کہا۔ یا یہ کہا کہ ان میں سے
کسی ایک کو بھی بڑھاپے میں پایا (اور ان کی خدمت کر کے اپنی مغفرت نہ کر
الی ہو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- ربعی
بن ابراہیم اسماعیل بن ابراہیم کے بھائی ہیں اور یہ ثقہ ہیں اور یہ ابن
علیہ ۱؎ ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث
آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب مجلس میں آدمی ایک
بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درود بھیج دے تو اس مجلس میں چاہے
جتنی بار آپ کا نام آئے ایک بار درود بھیج دینا ہر بار کے لیے کافی ہو گا
(لیکن اگر ہر بار بھیجے تو بہتر ہے) ۔
(٣)عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْبَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ
عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ
حَسَنٌ صَحِيحٌ
جامع الترمذی، حديث؛٣٥٤٦
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر
کیا جائے اور پھر بھی وہ مجھ پر صلاۃ ( درود ) نہ بھیجے“۔ امام ترمذی کہتے
ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
(٤) حدثنا هارون بن عبد الله حدثنا حسين بن علي عن عبد الرحمن بن يزيد بن
جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أوس قال: قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم: ((إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه
النفخة وفيه الصعقة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي)).
قال قالوا يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت يقولون بليت. فقال:
((إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء)).
(ابو داؤد، حديث؛ ١٠٤٩)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے
جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی
دن صور پھونکا جائے گا اسی دن چیخ ہو گی اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت
سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اوس بن
اوس کہتے ہیں: صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!
ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن
کو(کھانا)حرام کر دیا ہے ۔
«6» حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ
اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي
هِلاَلٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ عَنْ أَبِي
الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: ((أَكْثِرُوا الصَّلاَةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ
مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلاَئِكَةُ وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ
عَلَيَّ إِلاَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلاَتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا)).
قَالَ: قُلْتُ وَبَعْدَ الْمَوْتِ قَالَ: ((وَبَعْدَ الْمَوْتِ إِنَّ
اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ)).
فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
(ابن ماجه، حديث؛١٧٠٦ )
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: تم لوگ جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو، اس لیے کہ جمعہ
کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور جو کوئی مجھ پر درود بھیجتاہےاس کا درود
مجھ پر اس کے فارغ ہوتے ہی پیش کردیا جاتاہے صحابی نے عرض کیا: کیا بظاہر
اس دنیا سے ےشریف لے جانے کے بعد بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہاں، اس دنیا سے بظاہر تشریف لے جانےکے بعد بھی، بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین
پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو
روزی ملتی ہے .
٧» حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ
يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي أَبُو
هَانِئٍ الْخَوْلاَنِيُّ أَنَّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ
أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ سَمِعَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً يَدْعُو فِي
صَلاَتِهِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((عَجِلَ
هَذَا)). ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ: ((إِذَا صَلَّى
أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللَّهِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ثُمَّ
لِيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ
لِيَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ)).
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جامع الترمذي، حديث؛ ٣٨١٥
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ (مسجد میں) تشریف فرما تھے،
اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا، اس نے نماز پڑھی، اور یہ دعا کی: اے اللہ!
میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”اے نمازی! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے
شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ ( درود ) بھیج، پھر اللہ
سے دعا کر“، کہتے ہیں: اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی، اس نے اللہ
کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! دعا کر، تیری دعا قبول کی جائے
گی“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو حیوہ بن شریح
نے ابوہانی خولانی سے روایت کی ہے
(٨)عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ
بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى
تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (جامع
الترمذي، حديث؛ ٤٨٦
حضرت عمر رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی
رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ ( درود ) نہیں بھیج لیتے۔
(٩)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي وَالنَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ مَعَهُ،
فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ
الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ (جامع
الترمذي، حديث؛ ٥٩٣)
حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم موجود تھے، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما (بھی) آپ کے ساتھ تھے،
جب میں (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھا تو پہلے میں نے اللہ کی تعریف کی پھر نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، پھر اپنے لیے دعا کی، تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو، تمہیں دیا جائے گا، مانگ تمہیں دیا
جائے گا“
یہ چند احادیث تھیں جو میں نے درود شریف کی فضیلت میں پیش کیں ان کے علاوہ
اور بھی بہت ساری احادیث ہیں جنہیں درود شریف کی فضیلت میں پیش کیا جاسکتا
ہے۔
الصلاۃ والسلام علیک یا شفیعنا یوم الجزاء
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
محمد اویس مرادآبادی |