ایک سوال بار بار ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے کہ
کیا نماز واقعی بے حیائی سے روکتی ہے؟ کیونکہ ایک عام مشاہدے کے مطابق نماز
کے پابند لوگوں میں بھی گناہوں سے بچنے کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا وہ
جھوٹ بھی بولتے ہیں سود بھی کھاتے ہیں کاروبار میں بے ایمانی اور دھوکہ دہی
کرتے ہیں بجلی چوری کرتے ہیں ٹیکس چوری کرتے ہیں مزدور کی مزدوری پوری نہیں
دیتے حقداروں کا حق مارتے ہیں حتیٰ کہ بیواؤں اور یتیموں کا مال ہڑپ کرنے
میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ۔ اور بھی بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی
حرکتیں بلکہ کرتوت دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ان کے دل میں خدا کا خوف نامی
کوئی چیز موجود ہے یا آخرت کی پوچھ پکڑ کی کوئی پرواہ ہے جبکہ وہ نماز
باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ۔ نماز میں خضوع و خشوع کے ساتھ ساتھ اور بھی کچھ
شرائط کا پورا کیا جانا ضروری ہے ان میں ڈنڈی مارنا نماز میں چوری کہلاتا
ہے ۔ تو جس نماز میں چوری کی جا رہی ہو وہ بےحیائی یا کسی اور اخلاقی برائی
سے کیسے روک سکتی ہے قصور نماز کا نہیں چور کا ہے ۔ اور ایسی نمازیں قیامت
والے روز گیند کی طرح پھینک کر منہ پہ ماری جائیں گی ۔
لیکن وہ لوگ جو کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں اور صغیرہ گناہوں سے نہ بچ پانے
پر نادم ہوتے ہوں نماز کی فرضیت کو مقدم رکھتے ہوں مگر اس میں خضوع و خشوع
پیدا نہ ہونے پر بد دل ہوتے ہوں تو ان کے لئے بھی ایک واقعہ موجود ہے ۔ ایک
شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کی کہ نماز میں دل نہیں لگتا بس
اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے ایسی نماز سے تو نہ پڑھنا بہتر لگتا ہے ۔ آپ ﷺ
نے اس شخص سے فرمایا ۔
" فرض کرو تمہارے گھر میں آگ لگ جاتی ہے اور سامنے ہی ایک گندہ نالہ بہہ
رہا ہے تو تم اس کے گندے پانی سے اپنے گھر میں لگی آگ بجھانے کی کوشش کرو
گے یا نہیں؟
اس نے جواب دیا " میں بالکل ایسا ہی کروں گا وہ پانی گندہ ہی سہی مگر آگ کو
بجھانے کا کام ضرور دے گا "
آپ ﷺ نے فرمایا " بالکل اسی طرح تمہاری نماز گندی ہی سہی مگر دوزخ کی آگ
بُجھانے کے کام آئے گی "
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اس میں دل نہ لگنے یا خیالات کے اِدھر
اُدھر بھٹکنے سے اس کی فرضیت ساقط نہیں ہو جاتی ۔ لیکن اگر کوئی خود بے حیا
ہے اور اسے اپنی بے حیائی پر کوئی ندامت نہیں ہے تو نماز اس کا کچھ نہیں
بگاڑ سکتی ۔
|