کسی بھی ملک کی سماجی ومعاشی ترقی تعلیم کے بغیر ناممکن
ہے جسکی ذمہ داری حکومت اور عوام دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے، اعلی
ومعیاری اور مفت تعلیم کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور اِن
تمام سہولیات سے مستفید ہونا عوام کے ذمے ہے۔مگر تعلیم یافتہ معاشرہ کیلئے
اپنے اہداف کا حصول صحت مند معاشرے کے بغیر بھی ناممکن ہے۔یہی وجہ ہے گزشتہ
چند سالوں میں پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب میں تعلیم کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت
پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔صوبے بھر میں ہسپتالوں کی تعمیروتوسیع کا
سلسلہ تاحال جاری ہے یہی وجہ ہے دوسرے صوبے میں طبی سہولیات کے فقدان کے
پیش نظر وہاں کی عوام پنجاب کی رُخ کرنے لگی ہے ایک اندازے کیمطابق پنجاب
کے ہسپتالوں میں 30%سے زائد مریضوں کا تعلق دوسرے صوبے سے ہیں۔مگرصد افسوس
ناقدین خصوصاً تحریک انصاف کی قیادت کے نشتر کا رُخ پھر بھی پنجاب کی طبی
سہولیات کی جانب ہی رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ورلڈ بنک کی پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب
مجموعی طور پر ہیلتھ انڈیکیٹرزمیں باقی صوبوں کی نسبت آگے قرار دیا گیاہے
۔اور اِسی طرح صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے حکومت پنجاب نے صحت کے دیگر
شعبہ جات کے علاوہ ماں اور بچے کی اچھی صحت پر خصوصی توجہ دینے کے حوالے سے
بھی باقی تمام صوبوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ،اور کاوشوں کو نظرانداز کرنا
انصاف کے منافی ہو گا۔
زچہ بچہ کی شرح اموات کو کم کرنے اور اچھی دیکھ بھال کیلئے حکومت پنجاب کے
قابل تحسین انقلابی ااقدامات کے سرسری کا جائزہ کے مطابق1000بنیادی مراکز
صحت24/7گھنٹے خواتین کو لیبر روم کی سہولت فراہم کر رہے ہیں ، پہلے مذکورہ
بی ایچ یوز پر تقریباً دس ہزار ڈیلیوریز ماہانہ تھیں جس میں بڑھ کر اب چار
گناہ اضافہ ہوچکا ہے۔تربیت یافتہ برتھ اٹینڈنٹ میں 78%تک اضافہ بھی کر دیا
گیا ہے جبکہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کمیشن نے بچوں اور حاملہ خواتین
میں غذائیت کی کمی دور کرنے کیلئے خصوصی پروگرام کا بھی آغاز کیا ہے ۔اس کے
علاوہ حاملہ خواتین کو گھروں سے ہسپتالوں کیلئے رورل ایمبولینس سروس شروع
کی گئیں ہیں۔ رورل ایمبولینس سروس میں 193ایمبولینس کا بھی اضافہ کیا جا
چکا ہے ۔ مزید براں تمام ایمبولینسس کی ریسکیو1122کے ذریعے بھی نئی مینجمنٹ
کاآغاز بھی کیا گیا ہے ۔ نئے مالی سال میں ایک ارب روپے کی ابتدائی رقم سے
جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں جہاں علاج معالجہ کی عام سہولتوں کا
تصور بھی نہیں کیا جا سکتا مزید جدید ترین تمام بنیادی طبی سہولیات سے
لیس100موبائل ہیلتھ یونٹس کی فراہمی بھی شامل ہے-
حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کی بات کی جائے توکارکردگی کی بنیاد پر ملک بھر
میں سب سے بہتر کارکردگری صوبہ پنجاب کی ہی رہی ہے ۔بہتر حکمت عملی کی
بدولت پنجاب میں حاملہ خواتین اورنوزائیدہ بچوں میں تشنج کی بیماری کا
بالکل خاتمہ کر دیا ہے ۔جس کی عالمی ادارہ صحت اور یونیسف نے تصدیق بھی کی
ہے۔پاکستان میں پہلی بار صوبہ پنجاب نے ہی روٹا وائرس ویکسین کا اجراء کیا
گیا ہے ۔ صوبے بھر میں ہنگامی بنیادوں پر ہیپاٹائٹس بی کی ویکسینیشن کی گئی
ہے ۔بچوں میں خناق کی بیماری کی روک تھام کیلئے حفاظتی ویکسین کیلئے اہم
پیش رفت ہوئی ہے۔جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خاتمے کیلئے پنجاب میں ڈرگ
ٹیسٹنگ لیبارٹریز پانچ بڑھے شہروں میں اپنی خدمات باخوبی سرانجام دے رہی
ہیں ۔عوام میں شعور اُجاگر کرنے کیلئے ماں اور بچے کے اچھی صحت کیلئے
خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز بھی اپنے ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا لے
رہے ہیں ۔
دوسری جانب زچہ بچہ کی نگہداشت کے حوالے سے تبدیلی کے دعوے داروں کے صوبہ
خیبرپختونخواہ کا ذکر کریں تو انتہائی دُکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے جس
صوبے نے تبدیلی کے نام پر عمران خان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اُن کا
کوئی بھی پُرسانِ حال نہیں۔آئے دن صحت و تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا
کرنے کے صرف بلندوبانگ نعرے لگائے جاتے ہیں،مگر عملاً کچھ نظر نہیں آرہا
۔غیر تجربہ کار سیاسی جماعت تحریک انصاف اِس بات سے سراسر ناواقف ہے کہ
جھوٹے اعدادوشمار سے عوام کو تسلی تو دی جا سکتی ہے مگر حقائق کو آج کے
آزاد میڈیا سے کسی صورت چھپایا نہیں جا سکتا ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق خیبر
پختونخواہ میں سرکاری ہسپتالوں میں تین ماہ میں 3500 بچے اور 150 مائیں جان
کی بازی ہارگئے جبکہ صرف بنوں میں سب سے زیادہ 723بچوں کی اموات رپورٹ
ہوئیں ہیں یہ اموات دوران زچگی اور پیدائش کے چند ماہ بعد ہوئیں ہیں ۔ طبی
ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ طور پر طبی سہولیات کے فقدان اور غیرذمہ دارانہ
نگہداشت کا باعث واقع ہوئیں ہیں ۔
یہ صورت حال نہا یت ہی تشویش ناک ہے ۔چار سال سے زائد کا عرصہ گزار دینے کے
بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت خیبرپختونخواہ صوبے بھر میں ایک بھی چلڈرن
ہسپتال،کارڈیک اور برن سنٹر بنانے میں ناکام رہی ہے اوراموات کی شرح نے تو
واضح کر دیا کہ زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے کوئی میگا پروجیکٹ بھی ان کی
ترجیحات میں شامل نہیں۔ہسپتالوں کے دورہ کیا جائے تو وہاں کی گندگی،بے ہنگم
نظام،مریضوں کا دربدر نظر آنا معمول کی بات بن گیا ہے۔چند ایک ہسپتال کی
تعمیر و توسیع کی اِن کے منظورنظر ٹی وی پر کوریج دے کرمیدانِ صحت میں
انقلاب کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے ۔مگر حقائق اِس سے یکسر برعکس ہیں
۔مریضوں کو آج بھی علاج معالجے کیلئے پنجاب کے ہسپتالوں میں ریفر کیاجاتا
ہے۔خیبرپختوانخواہ کی عوام اپنی حکومت سے سوال کرتی نظر آتی ہے کہ چند
سالوں میں شوکت خانم بن سکتا ہے تو سرکاری ہسپتال کیوں نہیں۔تحریک انصاف کی
حکومت کو گہری غوروفکر کی ضرورت ہے کہ کب تک شوکت خانم کے نام پر عوام کی
آنکھوں میں دھول اُڑائی جاتی رہے گی،اب نعرے اور دعوؤں کی سیاست سے نکل کر
عوام کے فلاحی کاموں کے حوالے سے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ورنہ آنے والی
نسلیں اِنہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اگر اِس میدان میں تجربہ کار افراد
کی کمی ہے تو حکومت پنجاب سے رابطہ کر لیا جائے تو پہلے ہی ہرممکن تعاون کی
یقین دہانی کراتی رہے ہے۔مجھے قوی اُمید ہے حکومت پنجاب خدمت کے جذبے سے
سرشار ہو کراپنے پختون بہنوں اور بچوں کے تحفظ اور اچھی صحت کیلئے اپنی
پوری توانائی کے ساتھ تعاون کرے گی۔کیونکہ ہم سب پاکستان ہیں ہم نے مل کر
ہی اپنے آپ کو خوبصورت بنانا ہے ۔
|