میں جونہی نواز شریف سوشل سیکورٹی ہسپتال ٗملتان روڈ
لاہور کے دل وارڈ میں پہنچا تو ایک شخص پرجوش نعرے لگا رہا تھا ۔ نواز شریف
زندہ باد ۔ عمران خان تم جس تبدیلی کا رونا روتے ہو ۔ اپنی آنکھوں سے آکر
یہاں دیکھو۔چند لمحوں کے لیے میرے بڑھے ہوئے قدم رک گئے اور میں اس شخص سے
پوچھنے لگا کہ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتیں گونواز گو کانعرہ لگا رہی ہیں
اور تم نواز شریف زندہ باد کاراگ الاپ رہے ہو۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
وہ چندلمحے آنسو بہانے کے بعد بولا میں ریلوے کا ریٹائر ملازم ہوں ۔میرے
ایک جواں سال بیٹے کو گردوں کی موذی بیماری لاحق ہے ۔ریلوے سے جو بقایا جات
ملے وہ بیٹے کے علاج پر خرچ ہوگئے۔ اب بھی گردوں کی تبدیلی کے لیے پندرہ
لاکھ روپے کی ضرورت ہے ۔ اچانک ایک رات مجھے بھی ہارٹ اٹیک ہوگیا ۔گھر والے
اٹھاکر شالیمار ہسپتال لے گئے جہاں میں صرف ایک دن زیر علاج رہنے کا بل
25ہزار روپے بن گیا اور ساتھ ہی دل کا ایکو ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کردی۔ خوش
قسمتی سے میرا ایک بیٹا سوشل سیکورٹی کے آفس میں کام کرتا ہے ۔وہ مجھے نواز
شریف سوشل سیکورٹی ہسپتال لے آیا جہاں چند منٹوں میں ہی دل کا ایکو ٹیسٹ
بالکل مفت اور فوری طور پر ہوگیا جبکہ انسٹی ٹیوٹ کارڈیالوجی والے دو سال
کی تاریخ دے رہے تھے۔ مجھے یہاں علاج کرواتے 15 دن ہوچکے ہیں۔ ایک پیسہ بھی
خرچ نہیں ہوا بلکہ تمام ٹیسٹ اور مہنگی ترین ادویات بالکل فری مل رہی ہیں ۔جبکہ
الٹا مجھے ہسپتال کی جانب سے 100 روپے روزانہ مل رہے ہیں۔میں جتنے دن یہاں
زیرعلاج رہوں گا اتنے دنوں کے پیسے مجھے مل جائیں گے ۔یہ تبدیلی ہے کہ جس
کارونا عمران روزانہ ٹی وی پر روتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں آکر ایسے لگ رہا
ہے جیسے جنت میں آگیاہوں ۔ میں اسے چھوڑ کر آگے بڑھا تو آئی سی سی یو وارڈ
میں داخل ہوگیا ۔ وہ وارڈ مجھے نیشنل ہسپتال ڈیفنس لاہور سے بھی زیادہ جدید
سہولتوں سے آراستہ نظر آیا ۔ میں نے خفیہ طورپر چار پانچ وارڈوں کا معائنہ
کیا تو ہر جگہ بین الاقوامی معیار کی سہولتیں اور ماحول نظر آیا۔ سچ تو یہ
ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر میرے دل سے بھی آہ نکلی کہ کاش میں بھی کسی فیکٹری
کا مزدور ہوتا اور مجھے اور میرے والدین کو بھی نواز شریف سوشل سیکورٹی میں
بہترین علاج کی سہولت حاصل ہوتی ۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ گھٹنوں کے آپریشن
کے لیے مجھے شوکت خانم ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا ۔جہاں کے آرتھوپیڈک ڈاکٹر
سے معائنہ کروانا تھا ۔ آپریشن کی بات تو چھوڑیں ٗ معائنے کے لیے بھی چھ
ماہ تاریخ دے دی گئی جبکہ آپریشن کا خرچ بھی ساڑھے چار لاکھ نقد۔معافی کی
کوئی گنجائش نہیں۔ کیا یہ تبدیلی ہے یا نوازشریف سوشل سیکورٹی ہسپتال میں
آپریشن ٗ ٹیسٹوں اور ادویات سے لے کر معالجین کی فیسوں تک سب کچھ مفت ۔ یہ
تبدلی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ انجیوگرافی اور دل کے بائی پاس آپریشن کی
سہولت بھی یہاں موجود ہے ۔ میں سمجھتا ہوں نواز شریف نے یہ جدید ترین
سہولتوں سے آراستہ ہسپتال تعمیر کرکے جنت خرید لی ہے ۔ شاید اسی ہسپتال کے
مریضوں کی دعاؤں کے طفیل نواز شریف ٗعمرانی دھرنوں اور آصف زرداری کی
منافقانہ سیاست سے محفوظ چلے آرہے ہیں اﷲ نے چاہا تو ہمیشہ محفوظ ہی رہیں
گے ۔ یہاں ایک اور بات لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ والدین جب بڑھاپے میں
پہنچ جاتے ہیں بے شمار بیماریاں انہیں گھیر لیتی ہیں اور وہ علاج کے لیے
بھی ترستے پھرتے ہیں ۔ مزدور کے والدین کا علاج تو سوشل سیکورٹی ہسپتال میں
ہوگیا۔ باقی ادارو ں(بطور خاص اخبارات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور کالم
رائٹروں) کے ملازمین کے والدین کو مفت علاج کی سہولت کیوں فراہم نہیں کی
جارہی ۔حکومت پرائیویٹ اداروں کے مالکان کوکیوں پابندنہیں کرتی کہ وہ سوشل
سیکورٹی میں اپنے ادارے کااندراج کروائیں تاکہ انکے اور ان کے والدین کو
علاج کی مفت اورمعیاری سہولت میسر آسکے ۔ ہم امام کے مصلے پر کھڑا ہونے
والے شخص کو معاشرے کا سب سے بہترین شخص قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے سینے
میں قرآن ہوتا ہے ۔لیکن حکومت اور معاشرے کی زیادتی ملاحظہ فرمائیں کہ اس
معزز اور اعلی ترین شخص کو ہم مزدور کے برابر بھی تصور نہیں کرتے ۔ ہمارے
امام کا ایک بیٹا جسمانی طور پرنارمل نہیں ہے وہ سپیشل تعلیم حاصل کررہا ہے
وہ اپنی 13 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ میں کیا کھائیں گے اور کیسے ابنارمل
بیٹے کا علاج کروائیں گے ۔ یہ ایک مثال ہے ۔ میں ایک اور بزرگ کو جانتا ہوں
جو بنک سے ریٹائر ہوئے اورآجکل آنکھوں کے آپریشن کے لیے خیراتی ہسپتالوں
میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں ۔ عمر کے آخری حصے میں بیماریاں اس قدر یلغار
کرتی ہیں لیکن جیب خالی ہوجاتی ۔ خالی جیب کیسے اچھے ہسپتال میں علاج اور
آپریشن کروایا جاسکتا ہے ۔ کیا حکومت 60 سال سے زائد ہر پاکستانی بزرگ کو
سوشل سیکورٹی ہسپتال میں فری علاج کی سہولت فراہم نہیں کرسکتی ۔ میں سمجھتا
ہوں نواز شریف کواگر ایسے 20 ہسپتال بھی اور نانے پڑیں تو انہیں یہ کا م
ضرور کرنا چاہیئے ۔ صحت کارڈ کا جو ٹوپی ڈرامہ شروع کیا ہے اسے ختم کر کے
موذی بیماری کا شکار ہر انسان اور بطور خاص 60 سال سے زائد عمر کے بزرگوں
کو سوشل سیکورٹی کے کارڈ جاری کیے جائیں جہاں انہیں علاج کی بہترین سہولتیں
بھی میسر ہوں ۔سرکاری ہسپتالوں میں نہ تو علاج اچھاہوتاہے اورنہ ہی وہاں
لیبارٹریز کی بہترین سہولتیں میسر ہیں ۔ پھر وہاں جانے کا کیا فائدہ ۔میں
نے اپنی آنکھوں سے سرکاری ہسپتالوں میں تڑپتے ہوئے مریضوں کو ایم آر آئی ٗ
سٹی سکین اور وینٹی لیٹر جیسی سہولتوں کے لیے بھی پرائیویٹ ہسپتال میں دھکے
کھانے پڑتے ہیں۔میرے ایک عزیز کو اچانک بخار آگیا انہیں سروسز ہسپتال کی
ایمرجنسی میں لیجایاگیا معالجین نے بتایا کہ سانس لینے میں دقت محسوس ہورہی
ہے وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے ہم نے کہا سروسز ہسپتال اتنا بڑا ہے کیا اس میں
وینٹی لیٹر موجود نہیں ۔متعلقہ عملے نے صاف جواب دے دیا تب مریض کی جان
بچانے کے لیے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروادیا جہاں وینٹی لیٹر تو مل گیا
لیکن چار دن میں ہی ہمارا وہ عزیز اﷲ کو پیار ا ہوگیا ۔ جب میت ہسپتال سے
گھر منتقل کرنے لگے تو ہسپتال نے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا بل تھما
دیااور کہا یہ رقم اداکردو پھر میت گھر لے جاؤ ۔ اگر سوشل سیکورٹی ہسپتال
میں بہترین علاج مفت ہوگا تو نواز شریف زندہ باد تو یقینا ہوگا۔ ویسے بھی
کل بھوشن کے بہانے نواز شریف کوغدار کہنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ
پانچ ارب ڈالر ٹھکراکر ایٹمی دھماکے نواز شریف نے نہیں کیے توکیا یہ ایٹمی
دھماکے کس کے باپ نے کیے تھے۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام اگر ابھی تک محفوظ
ہے تو فوج کے ساتھ ساتھ نواز شریف کا کردار بھی اس کے تحفظ میں بہت نمایاں
ہے۔پاکستان میں فرشتہ کوئی بھی نہیں ہے سب حمام میں ننگے ہیں۔فرق صرف یہ ہے
کہ نواز شریف کچھ کرتا تو ہے ۔ |