دونوں ہی عوام کے مجرم ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی وزیراعظم کے اُس بیان کہ”حکومت نے اپنی آدھی مدت پوری کرلی ہے،اب
حکومت عوامی مسائل کے حل اور مہنگائی کے خاتمے پر توجہ دے گی“کی صدائے
بازگشت بھی ختم نہیں ہونے پائی تھی کہ حکومت نے ایک ہی دن میں بجلی کی
قیمتوں میں 2فیصد اضافے کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی خوفناک
حد تک اضافہ کر دیا،یوں عوام پر دو دھاری تلوار چلائی گئی ہے،ایک طرف بجلی
کے نرخ بڑھائے گئے تو دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے
اعلان کے ساتھ ہی ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان بھی برپا کردیا گیا،جس کے
بعد چینی،دودھ،دالوں،سبزیوں،پھلوں، گوشت،مرغی اور خشک میوہ جات سمیت کم و
بیش تمام اشیائے خوردنی اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی بے
تہاشا اضافہ ہو گیا،حکومت کے اِن اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے
سارے خسارے بجلی،پٹرول،مٹی کے تیل اور ڈیزل سے پورے کرنا چاہتی ہے اور عوام
کو ایک ایسی سطح پر پہنچا دینا چاہتی ہے جہاں اُن کا شمار زندوں میں ہوسکے
نہ مردوں میں۔
حقیقت یہ ہے کہ عوامی حکومت کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں اشیاء خوردو نوش
غریب طبقے کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں،مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ
توڑ دیئے ہیں،اِس دوران ذخیرہ اندوزوں،گراں فروشوں اور منافع خوروں نے اپنی
تجوریاں بھرنے کیلئے بحران در بحران پیدا کیے اور عوام کو جی بھر کے
لوٹا،روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر وجود میں آنے والی حکومت نے عملاً عوام
کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا،حال یہ ہے کہ اِس وقت ہر شخص شدید
ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے کہ وہ کیسے اپنے خاندان کی کفالت کا بندوبست
کرے،مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام سے جینے کی امنگیں چھین لی ہیں،لوگوں
کی قوت خرید ختم ہوتی جارہی ہے اور عوام حالات کا مقابلہ کرتے کرتے تھک چکے
ہیں،سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عوام کیلئے ”روٹی کپڑا اور مکان“کا
نعرہ لگانے والے حکمرانوں نے اُنکے ہاتھ میں موجود نوالہ چھیننے،تن کے کپڑے
نوچنے اور مکان کی سہولت کو ان کیلئے ڈراﺅنا خواب بنانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی،مزدور اور تنخواہ دار طبقہ تو پہلے ہی اقتصادی اور معاشی بدحالی کا
شکار تھا،حکومت کے اِس اقدام کے بعد اب سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی
کوشش میں مصروف مڈل کلاس طبقہ بھی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے
گا،ایسی حالت میں ظاہر ہے لوگ اپنے مسائل سے عاجز آ کر یا تو انفرادی اور
اجتماعی خودکشیوں اور خود سوزیوں کا راستہ اختیار کرینگے یا پھر تنگ آمد
بجنگ آمد کے مصداق اُس انقلاب کی راہ پر چل نکلیں گے جس کے آنے کی خبر دے
کر حکمران طبقات ایک دوسرے کو ڈراتے نظر آتے ہیں ۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی کارکردگی کے اعتبار سے پاکستان کی
تاریخ کی انوکھی حکومت ہے جسے عوام کے ساتھ ذرا بھر ہمدردی نہیں اور اُس نے
اپنے عوام کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا ہے جیسا دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا
ہے،آپ کو یاد ہوگا کہ صدر زرداری نے برسراقتدار آتے وقت کہا تھا کہ وہ نظام
بدل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا بدلہ لیں گے،ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی
قول کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور پاکستان میں ایسا نظام لانا چاہتے ہیں
جس میں غریب فاقوں کے ہاتھوں مرنے اور مڈل کلاس طبقہ ایڑیاں رگڑنے پر مجبور
ہو جائے،یہ ہماری بدقسمتی رہی کہ جو بھی برسر اقتدار آیا اُسے صرف یہی فکر
لاحق رہی کہ کس طرح اپنے اقتدار کو طول دیا جائے، حکمرانوں نے اقتدار کی
لالچ میں عالمی اداروں کے مفادات کا تحفظ تو کیا،لیکن عوام کی سہولت کیلئے
کوئی منصوبہ ترتیب نہیں دیا،ہر حکومت نے عوام کیلئے آسانیوں کی بجائے
مشکلات میں اضافہ کیا،صرف وقت گزاری کیلئے عوام کو سبز باغ دکھائے،موجودہ
حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی عوام کش پالیسیاں اپنائیں،حکومتی اخراجات
اور اپنے اللوں تللوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف پہنچانے کے بجائے غیر
ضروری کاموں پر اربوں روپے ضائع کیے،ایک طرف عوام دو وقت کی روٹی کو ترس
رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت غیر ملکی دوروں اور وزراء کی فوج ظفر موج کم
کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاآوری کیلئے عوام پر کبھی بجلی
بم،کبھی چینی بم، کبھی گیس بم اور کبھی پیڑول بم گرا کر قربانیاں مانگ رہی
ہے،جبکہ وزیر اعظم اور حکومتی وزراء جھوٹے دعوے کررہے کہ حکومت عوام دوست
پالیسیاں بنا رہی ہے،کیا یہی عوام دوست پالیسیاں ہیں کہ روزمرہ کی اشیائے
ضرو رت بھی ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں۔
ملک کے غریب عوام تو پہلے ہی حکومت کی مالی بدانتظامی،بے تحاشا سرکاری
اخراجات اور کرپشن کے باعث معاشی بدحالی اور روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے
بوجھ تلے بری طرح دبے ہوئے تھے،ایسے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
حالیہ اضافے کی وجہ سے اب کھانے پینے کی عام اشیاء بھی اُن کی پہنچ سے دور
کر دی گئی ہیں،ستم بالائے ستم یہ کہ پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہمارے پڑوس میں بجلی اور پٹرولیم
مصنوعات کی قیمتیں کم کی جا رہی ہیں،دیکھا جائے تو عوام کے ساتھ حکومت کا
یہ سلوک انتہائی بے رحمانہ ہے،وہ گڈ گورننس کے ذریعے مالی بدحالی پر قابو
پانے کی بجائے پہلے سے بری طرح پسے ہوئے غریبوں کو نچوڑ کر اپنے بڑھے ہوئے
اخراجات پورے کرنے پر تلی ہوئی ہے،یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ حکومت ملک
کے قدرتی وسائل بروئے کار لانے اور صنعتوں کو فروغ دینے کے بجائے توانائی
کی قیمتیں بڑھا دیتی ہے،جس سے معیشت کا کمزور پہیہ چلنے کی بجائے رک جاتا
ہے،یہ ایسی صورتحال ہے جسے کسی حال میں بھی قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا
کیونکہ اِس سے ملک کی اقتصادی بدحالی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے عوام
کا جینا محال ہوگیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کو اِس حال تک پہنچانے میں صرف حکومت ہی نہیں
اپوزیشن بھی برابر کی شریک ہے،یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جمہوریت کے نام پر
عوام سے ووٹ لیے،مسائل حل کرنے اور معاشی حالت بہتر بنانے کے سبز باغ
دکھائے،لیکن جب پارلیمنٹ میں پہنچ گئے تو کند چھری سے عوام کی کھال اتارنے
میں مصروف ہوگئے، ہماری نظر میں وہ سب لوگ اِس جرم میں برابر کے شریک
ہیں،جنہوں نے” بنام جمہوریت“ عوام کو لوٹا اور ” مفاہمت اوراستحکام جمہوریت
“کی آڑ میں انہیں تباہ کرنے کے منصوبے بنائے،یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے خیر
خواہ بنتے ہیں،پریس کانفرنسوں اور ٹی وی مباحثوں میں عوام،عوام کی رٹ لگاتے
ہیں،لیکن عوام کے حقوق کے لئے کھڑے نہیں ہوتے،حکومت پر دباﺅ نہیں ڈالتے کہ
وہ عوام دشمن اقدامات سے گریز کرے،دراصل اِن لوگوں کے درمیان مفادات کی
گہری ساجھے داری ہے،اِن کو پتہ ہے کہ اگر یہ سسٹم نہ رہا توسب سے زیادہ اِن
کا ہی نقصان ہوگا،اسی لیے یہ لوگ سسٹم کو بچانے کی بات کرتے ہیں،یہ مشاہدہ
تو عام ہے کہ جب انہیں ذاتی یا پارٹی کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے
تو حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دیتے ہیں،پارلیمنٹ سے واک آﺅٹ کرتے ہیں اور
عوام کو سڑکوں پر لانے کا عندیہ بھی دیتے ہیں،لیکن جب اِن کے مطالبات مان
لیے جاتے ہیں تو پھر سے اپنے حال میں مست ہو جاتے ہیں اور عوام کو بھول
جاتے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے عوامی حقوق کے لئے آج تک سنجیدگی سے کوئی
آواز ہی نہیں اٹھائی،اسلیے کہ ِان کا تعلق غریب اور مفلوک الحال عوامی طبقے
سے نہیں بلکہ اُس مراعات یافتہ طبقے سے ہے جسے اِس مہنگائی کے دور میں بھی
وہ تمام آرام و آسائشیں میسر ہیں جو ایک عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور
ہیں،اسی وجہ سے یہ لوگ چپ چاپ عوام کی اجتماعی خودکشیوں، مفلسی، بھوک اور
بے روزگاری کے ہاتھوں بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔
اِن حالات میں ہمارا عوام سے سوال یہ ہے کہ وہ کیوں اپنے حق کیلئے آواز
بلند نہیں کرتے، جبکہ اللہ نے انسان تو انسان حشرات الارض میں بھی یہ خاصیت
رکھی ہے کہ وہ خطرہ محسوس کرتے ہی اپنی حفاظت کیلئے متحرک ہوجاتے ہیں،جوابی
حملہ کرتے ہیں اور کاٹ لیتے ہیں،چیونٹی جیسی معمولی مخلوق بھی اپنے ہدف تک
پہنچنے کے لئے اُس وقت تک جدوجہد کرتی ہے جب تک اُس ہدف کو حاصل نہیں
کرلیتی،دنیا کے ہر ملک کا باسی خود پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف
صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، زیادتیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آتا ہے،حکومتوں
کا ناطقہ بند کردیتا ہے،لیکن خدا جانے یہ پاکستانی عوام کس مٹی کی بنی ہوئی
ہے،اِن پر جتنی مرضی چاہے زیادتیاں کرتے جاﺅ،یہ چپ چاپ ظلم پہ ظلم سہتے
جاتے ہیں،مگر صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے،حرف شکایت زبان پر نہیں
لاتے،پوری دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے عوام کے چہروں سے حالات
کی سختیوں کا عکس تو جھلکتا ہے لیکن اپنے حقوق کے حصول کی خاطر سڑکوں پر
نہیں آتے،منافقت کی اِس سے بڑی علامت اور کیا ہوگی کہ ظلم و جور پر خاموشی
اختیار کر کے ظالم کی حوصلہ افزائی کی جائے،قتیل شفائی نے سچ کہا تھا
قتیل اُس شخص سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
خدارا جاگئے....ربّ کے دیئے ہوئے عقل و شعور کے باوجود ہم نے جو منافقانہ
طرز عمل اختیار کیا ہوا ہے، کہیں اُسی کی وجہ سے آج ہم اِن ہوس پرست اقتدار
پرستوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا تو نہیں ہو رہے ہیں، سوچیئے ....ہوش میں
آئیے....اور یاد رکھئے کہ اللہ نے ہمیں اپنے حق کے لئے لڑنے کی ترغیب دینے
کے ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ جب تک ہم اپنے حق کے لئے خود نہیں لڑیں
گے،اُس وقت تک وہ بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا، وہ وقت کب آئے گا.... جب
ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسوانا بند کریں گے....وہ وقت کب آئے گا ....جب
ہم اِن مفاد پرست آزمائے ہوئے لوگوں کو پوری قوت سے مسترد کر کے حصولِ حق
کا راستہ اختیار کریں گے،کیا اب بھی خواب غفلت سے بیدار ہونے اور اپنی آنے
والی نسلوں کو تباہی سے بچانے کا وقت نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ |