شہر مکہ میں داخلہ
رسول خداﷺ لشکر اسلام کےساتھ فاتحانہ انداز میں شہر مکہ میں داخل ہوئے آپ
کے چہرے اقدس پر ایسا رعب، دبدبہ اور شکوہ و جلال تجلی ریز تھا جو تعریف کی
حد سے باہر ہے۔ اسلام کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی تھی آپ ﷺ اہل مکہ کے گھروں
میں نہیں گئے بلکہ آپ نے جاں نثار کرنے والے اور اپنے مہربان چچا حضرت ابو
طالبؑ کے مزار اقدس کے پاس مقام ”حجون“ میں خیمہ لگایا۔
رسول خدا ﷺکچھ دیر تک خیمہ میں آرام فرماتے رہے پھر غسل کے بعد جنگی لباس
پہنا اپنے مرکب پر سوار ہوئے مجاہدین بھی تیار ہو کر مسجدالحرام کی طرف
روانہ ہوئے۔ جب آپﷺ کی نگاہ کعبہ پر پڑی تو آپ ﷺ آگے بڑھے اور حجر اسود کو
بوسہ دیا۔ درآں حالانکہ آپﷺ مرکب پر سوار تھے۔ اسی حالت میں تکبیر کہتے
جاتے تھے اور لشکر اسلام آپ ﷺ کے جواب میں صدائے تکبیر بلند کرتا جاتا
تھا۔”حق آیا اور باطل ختم ہوگیا اور باطل تو ختم ہونے والا ہی تھا۔“ (اسرار:۸۱)
اتحاد کی آواز
حضرتﷺ نے کعبہ کی کنجی ”عثمان بن طلحہ“ سے لی اور دروازہ کھول دیا۔ تمام
مسلمانوں نے مل کر دعائے وحدت پڑھی۔
لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ صدق وعدہ ونصرعبدہ و دھزم الاحزاب وحدہ
آپ ﷺکعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابراہیم ؑاور دوسرے افراد کی جو
تصویریں مشرکین نے بنا رکھی تھیں ان کو دیوار کعبہ سے نکال دیا اور اسی
حالت میں آپﷺ نے فرمایا”خدا ان لوگوں کو قتل کرے جو ان چیزوں کی تصویریں
بناتے ہیں جن کو انہوں نے پیدا نہیں کیا ہے۔“
رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کےساتھ جو بتوں کو توڑنے کے لئے آپﷺ کے
کاندوں پر سوار تھے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور آپﷺ نے خانہ توحید کو تمام
کفر و شرک کی علامتوں سے پاک کر دیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں کے سامنے جن
کی آنکھیں فرمان پیغمبرﷺ کی منتظر تھیں درج ذیل تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا
”اس خدا کی تعریف جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی،
جس نے انہا احزاب گروہوں کو شکست دی، تم کیا کہتے ہو اور کیا تصور کرتے
ہو؟“ مکہ والوں نے کہا کہ ”خیرو نیکی اور نیکی کے سوا ہم کو اور کوئی گمان
نہیں کہ آپ بزرگوار اور صاحب اکرامؑ کے بھتیجے ہیں۔“ رسول خدا نے فرمایا کہ
”میں وہی بات کہتا ہوں جو ہمارے بھائی یوسف ؑنے کہی تھی۔”آج تمہارے اوپر
کوئی ملامت نہیں خدا تم کو بخش دے وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ
مہربان ہے۔“
اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا کہ ہر وہ ربا سود جو جاہلیت میں معمول بن گیا تھا
اور ہر وہ خون اور مال جو تمہاری گردن پر تھا اور تمام فضول افتخار، پامال
اور ختم کر دیئے گئے لیکن کعبةاللہ کی نگہبانی کلید برداری اور حاجیوں کو
سیراب کرنے کا افتخار باقی ہے جو لوگ تازیانہ سے غلطی و خطا سے قتل کر دیئے
جائیں ان کے لیے سو ایسی اونٹنیاں دیت کے طور پر دی جائیں جن میں چالیس
اونٹنیاں حاملہ ہوں۔ خدا نے جاہلیت کے تکبر و غرور اور آباؤ اجداد پر
افتخار کو ختم کر دیا۔ تم آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں
اور تم میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ
پرہیزگار ہے۔ بے شک خدا نے مکہ کو زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت حرم امن
قرار دیا اور اللہ کی عطا کی ہوئی حرمت کی بنا پر یہ ہمیشہ حرم الٰہی رہے
گا۔
ہم سے پہلے اور ہمارے بعد کسی کے لئے بھی اس کی حرمت کا پامال کرنا جائز نہ
تھا اور نہ جائز ہے اور میرے لیے بھی اس کی حرمت کو برباد کر دینا ایک دن
تھوڑی دیر کے علاوہ جائز نہ تھا۔اس موقع پر آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے تھوڑی مدت
کی طرف اشارہ فرمایا مکہ کے جانوروں کا شکار نہ کرنا چاہیے اور نہ ان کو
ہنکانا چاہیے۔ اس کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے اور اس میں پڑی ہوئی گم
شدہ چیز کو اٹھانا جائز نہیں۔ مگر اس کے لیے جو اس کے اعلان کرنے کا ارادہ
رکھتا ہو اور اس کے سبزے اکھاڑنا بھی جائز نہیں۔ حضرت عباس نے کہا اے رسول
اللہ ﷺ سوائے ”اذخر“کے پودوں کے کہ جن کو اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی چارہ
نہیں۔ قبروں کے لئے اور گھروں کو صاف کرنے کےلئے بھی۔ ”رسول خداﷺ تھوڑی دیر
تک چپ رہے پھر فرمایا” سوائے اذخر کے اس کا اکھاڑنا حلال ہے۔ وارث کے بارے
میں وصیت نہیں اور کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی دولت سے
اجازت کے بغیر بخشش و عطا کرے۔ مسلمان، مسلمان کے بھائی ہیں اور تمام
مسلمانوں کو چاہیے کہ دشمن کے مقابل سب متحد اور ہم آہنگ رہیں ان کا خون
محفوظ رہے ان میں دور و نزدیک سب برابر ہیں۔ جنگ میں ان میں سے ناتواں اور
توانا دونوں برابر مالِ غنیمت سے بہرہ مند ہوں۔ لشکر کے میمنہ اور میسرہ
میں شریک کوئی معیار نہیں، مسلمان کافر کے خون کے بدلے قتل نہیں کیا جائے
گا اور کوئی صاحب پیمان، معاہدہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ دو مختلف دین
رکھنے والے ایک دوسرے کی میراث نہیں پائیں گے۔ مسلمان اپنے علاقہ والوں کو
ہی صدقات و زکوٰة دیں گے دوسری جگہ والوں کو نہیں۔ عورت اپنی پھوپھی اور
خالہ کی سوتن نہ بنے۔ مدعی کو دلیل اور شاہد پیش کرنا چاہیے اور منکر کے
ذمہ قسم ہے۔ کوئی عورت بغیر محرم کے ایسے سفر پر نہ جائے جس کی مدت تین روز
سے زیادہ ہو۔ عیدالفطر اور عید قربان کے روزوں سے میں تم کو منع کرتا ہوں
اور ایسے لباس پہننے سے منع کرتا ہوں جس سے تمہاری شرمگاہ کھلی رہے یا ایسا
لباس پہننے سے تم کو منع کرتا ہوں کہ جب تمہارے لباس کا کنارہ ہٹ جائے تو
تمہاری شرمگاہ نظر آنے لگے۔ مجھے امید ہے کہ تم نے یہ سارے مطالب سمجھ لیے
ہوں گے۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۸۳۶)
ظہر کا وقت ہوا تو رسول خدا ﷺنے حضرت بلال کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر جا
کر اذان دیں جس وقت بلال ”اشہدان محمد رسول اللہ“ تک پہنچے تو مشرکین کے
سرکردہ افراد کہ جو گھروں میں چھپ گئے تھے ان میں سے ہر ایک نے ایک الگ بات
کہی اور اہانت کی۔ابوسفیان نے کہا ”لیکن میں کچھ نہیں کہتا اس لیے کہ اگر
میں کوئی بات کہوں گا تو یہی ریگزار محمدﷺ کو خبر پہنچا دے گی اور ہر ایک
کی بات آنحضرت ﷺ تک پہنچ جائے گی۔
رسول خدا ﷺ نے ان بت پرستوں سے بیعت لی جو مسلمان ہوگئے تھے اور عورتوں کے
لئے بھی پانی کا ایک برتن لایا گیا اور اس میں تھوڑا سا عطر ملالیا گیا۔
عورتوں نے اپنے ہاتھ کو بیعت کی غرض سے پانی کے اندر ڈالا حضرت نے ان سے یہ
عہد پیمان لیا کہ وہ شرک اختیار نہ کریں اور چوری نہ کریں۔پھر رسول خدا نے
سب کو حکم دیا کہ جو بت ان کے پاس ہیں ان کو توڑ ڈالیں۔ یہاں تک کہ آپ نے
بڑے بڑے مشرکین کو بتوں کے توڑنے کے لئے اطراف میں بھیجا۔ یہ لوگ بتوں پر
اعتقاد رکھتے تھے اور اپنے نفع کے لئے بتوں کی حمایت کرتے تھے۔ اب خود ہی
بت شکنی میں مصروف ہوگئے۔
آزاد شدہ شہر مکہ کے لئے والی اور معلم دین کا تقرر
مشرک قبیلے ”ہوازن اور ثقیف“ کی سازشوں کی خفیہ خبریں پیغمبرﷺ تک پہنچ چکی
تھیں۔ اب ان کے علاقوں میں پہنچ کر ان کی سازشوں کو کچل دینا پیغمبر ﷺکےلئے
ضروری تھا۔ آپ ﷺنے ”عتاب ابن اسید“ جو کہ چوبیس سال کے ایک لائق اور مدبر
جوان تھے کو شہر مکہ کا والی بنایا۔(سیرت ابن ہشام)
رسول خداﷺ نے معاذ ابن جبل کو جو معارف اسلام سے واقف فقیہ تھے۔ تبلیغ
اسلام اور مکہ والوں کو احکام دین سے آشنا کرنے کے لئے اس شہر کے معلم کے
عنوان سے معین فرمایا۔ فتح مکہ کے سلسلہ میں سورہ نصر نازل ہوئی۔ (مغازی
واقدی ج۲ ص ۸۸۹)
اسلام کے نام پر خونریزی اور جرائم
فتح مکہ کے بعد رسول خداﷺ نے ”خالد ابن ولید“ کو بت شکنی اور تبلیغ اسلام
کےلئے350 مہاجرین و انصار کے ساتھ قبیلہ بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔ خالد نے
وہاں پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اپنی طرف سے عدم تعرض کے بارے میں مطمئن کر
کے بنی جذیمہ سے ہتھیار رکھوا لیے اور جاہلیت کے زمانہ میں خالد کے چچا کو
بنی جذیمہ نے قتل کر دیا تھا۔ لہٰذا اس نے فرمان رسول خداﷺ کے خلاف ان کو
اسیر کیا اور پھر قتل کا حکم دے دیا۔ جانبازان مہاجرین و انصار نے حکم پر
عمل کئے بغیر اپنے اسیروں کو آزاد کردیا، بنی سلیم خالد کے گروپ نے اپنے
اسیروں کو قتل کر ڈالا اور اس طرح سے کچھ بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار
دیا گیا۔
جب یہ خبر سول خداﷺ تک پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا”خدایا! خالد نے جو کیا ہے اس
کےلئے میں تیری بارگاہ میں بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔“
پھر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو معین فرمایا کہ وہ مقتولین کا خوں بہا
اور ستم رسیدہ افراد کا ہرجانہ ادا کریں۔
جو مال رسول خدا ﷺنے دیا تھا حضرت علی علیہ السلام اسے اپنے ساتھ لے کر بنی
جذیمہ کے پاس پہنچے اور آپؑ نے مقتولین کا خون بہا اور نقصانات کا ہرجانہ
ادا کیا۔ یہاں تک کہ لکڑی کے اس برتن کا بھی حساب ہوا جس میں کتا پانی پیتا
تھا جب آپ ؑاس بات سے مطمئن ہوگئے کہ اب خون بہا اور ہرجانہ باقی نہیں رہا
جو مال باقی بچا تھا اس کو بھی آپؑ نے ان کے درمیان تقسیم کر دیا تاکہ وہ
مصیبت زدہ افراد رسول خداﷺ سے راضی ہو جائیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۷۰،۷۱)
حضرت علی علیہ السلام جب واپس پلٹے تو آپ ؑنے اپنے کام کی رپورٹ آنحضرتﷺ کی
خدمت میں پیش کی آپﷺ نے فرمایا”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں، تم نے بڑا عمدہ
کام کیا۔ تم نے جو کیا وہ میری نظر میں سرخ بالوں والے اونٹ رکھنے سے بہتر
ہے۔“ (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۶۱)
جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |