بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ٧

(7) اِمام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ) :-

سلطان العلماء امام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام السلمی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’قواعد الاحکام فی اصلاح الانام‘‘ میں بدعت کی پانچ اقسام اور ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

8. البدعة فعل مالم يعهد في عصر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي بدعة واجبة و بدعة محرمة و بدعة مندوبة و بدعة مکروهة و بدعة مباحة قال والطريق في معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة، فان دخلت في قواعد الايجاب فهي واجبة، و إن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة، و إن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبة، و ان دخلت في قواعد المکروه فهي مکروهة، و ان دخلت في قواعد المباح فهي مباحة، و للبدع الواجبة أمثلة منها الاشتغال بعلم النحو الذي يفهم به کلام اﷲ تعالٰي و کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و ذٰلک واجب لان حفظ الشريعة واجب، ولايتأتيٰ حفظها الا بمعرفة ذٰلک، وما لايتمُّ الواجبُ الابه فهو واجبٌ، الثاني : حِفْظُ غريبِ الکتاب والسنة من اللغة، الثالث : تدوين اصول الدين و اصول الفقه، الرابع : الکلام في الجرح والتعديل، لتمييز الصحيح من السقيم، وقد دَلَّت قواعدُ الشريعة علي أنَّ حِفْظَ الشريعة فرض کفاية فيما زاد علي القَدْرِ المُتَعَيّن ولا يتأتٰي حفظ الشريعة الا بما ذکرناه و للبدع المحرمة امثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجِئَة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة وللبدع المندوبة أمثلة منها إحداثَ الرُّبُطِ والمدارسِ و بنائُ القناطر و کل احسانٍ لم يعْهدْ في العصر الاول ومنها صلاة التراويح والکلام في دقائق التصوف و الکلام في الجَدَل ومنها جمع المحافل للاستدلال في المسائل اِنْ قُصِدَ بذلک وجه اﷲ تعالٰي : وللبدع المکروهة أمثلة کزخرفة المساجد و تَزْويقُ المصاحف و أما تلحين القرآن بحيث تتغيّرُ ألفاظُه عن الوضع العربي فالأصحُّ أنه من البدع المُحَرَّمَة وللبدع المباحة امثلةء منها المصافحة عقيب الصبح والعصر ومنها التوسع في اللذيذ من المآکل والمشارب والملابس والمساکن و لبس الطيالسة و توسيع الاکمام وقد يخْتَلَفُ في بعض ذٰلک فيجعله بعض العلماء من البدع المکروهة و يجعله اٰخرون من السنن المفعولة في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما بعده و ذلک کالاستعاذة في الصلاة والبسملة فيها.

’’بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، بدعت کی حسبِ ذیل اقسام ہیں۔ واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح۔ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعد شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تومکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن و حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن و حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال ہے قرآن اور حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا، تیسری مثال ہے دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیاز ہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں باجماعت) نمازِ تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سُر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ بدعتِ محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر (کی نماز) کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیض پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘

1. عزالدين، قواعد الأحکام في إصلاح الأنام، 2 : 337
2. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 21
3. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
4. ابن حجر مکي، الفتاوي الحديثيه : 130

(8) امام ابو زکریا محی الدین بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 676ھ) :-

امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں :

9. البدعة في الشرع هي احداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة الي حسنة و قبيحة وقال الشيخ الامام المجمع علي امامته و جلالته و تمکنه في انواع العلوم و براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام في آخر ’’کتاب القواعد‘‘ البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة فان دخلت في قواعد الايجاب فهي واجبة و إن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة و إن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبه و ان دخلت في قواعد المکروه فهي مکروهة و ان دخلت في قواعد المباح فهي مباحة و للبدع الواجبة أمثلة منها الإشتغال بعلم النحو الذي يفهم به کلام اﷲ تعالٰي و کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ذٰلک واجب لان حفظ الشريعة واجب ولايتاتي حفظها اِلَّا بمعرفة بذٰلک وما لايتم الواجب الا به فهو واجب، الثاني حفظ غريب الکتاب والسنة من اللغة، الثالث تدوين اصول الدين و اصول الفقه، الرابع الکلام في الجرح والتعديل لتمييز الصحيح من السقيم وقد دلت قواعد الشريعة علي أن حفظ الشريعة فرض کفاية فيما زاد علي المتعين ولا يتأتي ذٰلک الا بما ذکرناه و للبدع المحرمة أمثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجئة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة وللبدع المندوبة أمثلة منها احداث الرُبطِ والمدارس و بنائُ القناطر و کل احسان لم يعْهدْ في العصر الاول ومنها صلاة التراويح والکلام في دقائق التصوف و الکلام في الجَدَل ومنها جمع المحافل للاستدلال في المسائل اِنْ قُصِدَ بذلک وجه اﷲ تعالٰي : وللبدع المکروهة امثلة کزخرفة المساجد و تَزْويقُ المصاحف و أما تلحين القرآن بحيث تتغيّرُ ألفاظُه عن الوضع العربي فالأصحّ أنه من البدع المحرّمة وللبدع المباحة أمثلة منها المصافحة عقيب الصبح والعصر ومنها التوسع في اللذيذ من المآکل والمشارب والملابس والمساکن و لبس الطيالسة و توسيع الاکمام وقد يختلف في بعض ذٰلک فيجعله بعض العلماء من البدع المکروهة و يجعله اٰخرون من السنن المفعولة في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما بعده و ذلک کالاستعاذة في الصلاة والبسملة فيها.

’’شریعت میں بدعت سے مراد وہ امور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد‘‘ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبۃ، محرمۃ، مندوبۃ، مکروھۃ اور مباحۃ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن اور حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن اور حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال قرآن و حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا ہے، تیسری مثال دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا ہے جبکہ چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیا زہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں) باجماعت تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ اصح یہ ہے کہ یہ بدعت محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیض پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘

1. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
2. نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 286
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 51
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370

اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں بدعت کی اقسام اور پھر ان میں سے ہر قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

10. قوله صلي الله عليه وآله وسلم و ’’کل بدعة ضلالة‘‘(1) هذا عام مخصوص والمراد غالب البدع قال أهل اللغة هي کل شيء عمل مثال سابق قال العلماء البدعة خمسة أقسام واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة فمن الواجبة نظم أدلة المتکلمين للرد علي الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک ومن المندوبة تصنيف کتب العلم و بناء المدارس والربط و غير ذلک و من المباح التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک والحرام والمکروه ظاهران وقد أوضحت المسألة بأدلتها المبسوطة في تهذيب الأسماء واللغات فإذا عرف ما ذکرته علم أن الحديث من العام المخصوص و کذا ما أشبهه من الأحاديث الواردة و يؤيد ما قلناه قول عمر ابن الخطاب رضي الله عنه في التراويح نعمت البدعة ولا يمنع من کون الحديث عاما مخصوصا قوله کل بدعة مؤکدا بکل بل يدخله التخصيص مع ذلک کقوله تعالي تدمر کل شيء (الاحقاف، 42 : 52) (2)

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’’ہر بدعت ضلالت ہے‘‘ عام مخصوص ہے عام طور پر اس سے مراد بدعتِ سيّئہ لیا جاتا ہے اہل لغت نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ بدعت ہے۔ علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہۃ اور مباحہ بیان کی ہیں بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر امور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعت مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعت مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں واضح کردیا ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر اس کی پہچان ہوجائے گی تو پھر یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ حدیث اور دیگر ایسی احادیث جو ان سے مشابہت رکھتی ہیں عام مخصوص میں سے تھیں اور جو ہم نے کہا اس کی تائید حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ’’نعمت البدعۃ‘‘ کرتا ہے اور یہ بات حدیث کو عام مخصوص کے قاعدے سے خارج نہیں کرتی۔ قول ’’کل بدعۃ‘‘ لفظ ’’کل ‘‘ کے ساتھ مؤکد ہے لیکن اس کے باوجود اس میں تخصیص شامل ہے جیسا کہ اللہ تعاليٰ کے ارشاد تدمر کل شئ (الاحقاف، 42 : 52) کہ (وہ ہر چیز کو اُکھاڑ پھینکے گی) میں تخصیص شامل ہے۔

1.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
6. دارمي، السنن، 1 : 57، رقم : 95

2.

نووي، شرح صحيح مسلم، 6 : 154

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.