بظاہر تو تھانے اور مسجد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں،
مگر جب بات ہو عدالتِ عالیہ کی تو پھر سرِتسلیم خم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا،
کہ کسی صوبے کی سب سے بڑی عدالت جو کہے وہ ماننا پڑتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ
کے جسٹس محمد فاروق شاہ نے لاپتہ شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواست کی
سماعت کے دوران کچھ ایسے ہی ریمارکس دیئے، شہریوں کوبازیاب نہ کرانے پر
انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ․․․ایسی پولیس پر لعنت
ہو، پولیس کا کام لوگوں کو صرف ڈرانا دھمکانا رہ گیا ہے، اس ملک میں تھانے
ظلم خانے بن گئے ہیں، اگر تھانے بہتر ہوں تو ملک کی مسجدوں میں بھی رش لگ
جائے،پولیس افسروں نے جوئے اور شراب خانوں کے لئے بیٹر رکھے ہوئے ہیں،لیکن
شہریوں کی بازیابی کے لئے کچھ نہیں کر سکتے․․․ لاپتہ افراد سے متعلق بنائی
گئی ’جے آئی ٹی‘ کی کارکردگی صفر ہے، اس کا مقصد نشستند و گفتند و برخاستند
رہ گیا ہے․․․‘‘۔ انہوں نے متعلقہ پولیس افسر کو شرم بھی دلائی۔
پولیس نہایت ہی مضبوط اعصاب کا حامل محکمہ ہے۔ ایسا محکمہ جسے بعض اوقات
خود حکمران بھی کوسنے لگتے ہیں، اپنے موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے
نشریاتی خطاب میں بھی تھانوں میں ہونے والے مظالم کا اعتراف ایسے کرتے پائے
جاتے ہیں، جیسے کوئی اپوزیشن لیڈر ہوتا ہے۔ تھانوں کے غیظ وغضب اور ظلم کا
سب سے زیادہ نشانہ عوام بنتے ہیں، بہت سے لوگ تو ظلم سہہ لیتے ہیں، مگر کچھ
لوگ ہمت کرکے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیتے ہیں۔ عدالتوں تک لوگوں کو اس
لئے جانا پڑتا ہے کہ حکومت کا کوئی ایسا بندوبست نہیں کہ وہ لوگوں کو
تھانوں کے ظلم سے محفوظ رکھ سکے۔ ظلم زیادہ ہو تو وزیراعلیٰ وغیرہ پولیس کے
اہلکاروں کو معطل کرکے متاثرین کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں،
گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کا یہ عمل ہی عوام کو مجبور کرتا ہے کہ وہ حکومت کے
در پر دھکے کھانے کی بجائے عدالت کے دروازے پر زنجیرِ عدل ہلائیں اور اپنی
مراد پائیں۔ بہرحال حکومت کی نسبت عوام کی عدالتوں میں زیادہ تسلی ہو جاتی
ہے۔ عدالتیں عوام کے آنسو پونچھیں یا حکومت اشک شوئی کرے، عوام کی اکثریت
پھر بھی پولیس کی کارروائیوں سے نالاں اور معترض رہتی ہے۔ پولیس کو بہت سی
مراعات بھی مل چکی ہیں، مگر بہت کوشش کے باوجودحکومتیں اور عدلیہ پولیس کے
رویے تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
چلیں پولیس اپنے رویے درست نہیں کرتی، یا پولیس کے بارے میں حکومت، عدلیہ
اور عوام کا اپنا اپنا مائنڈ سیٹ ہے۔ مگر یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر
تھانے درست ہو جائیں تو مسجدوں میں رش کیسے ہوگا؟ گویا مساجد کا سارا رش
بھی تھانے ہی کھینچ لیتے ہیں، کہ لوگوں کو تھانے کے معاملات سے فرصت ہی
نہیں ملتی، کیونکہ یہاں ملزم تو تھانے کو مطلوب ہوتا ہی ہے، کہ مدعی بھی
تھانے کی کارروائیوں سے اتنا ہی متاثر ہوتا ہے ۔ مدعی کی گاڑی اس وقت تک
حرکت میں نہیں آتی جب تک اس کے ضروری ’تقاضے‘ پورے نہیں کئے جاتے۔ بصورتِ
دیگر مدعی سے بھی ملزم کی طرح ہی ڈیل کیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لوگ
تھانے کے مظالم ، ناانصافی اور خراب رویے سے تنگ آکر اﷲ کے حضور گڑگڑا کر
روئیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، توبہ کریں، غلطیوں سے برات کا اعلان
کریں، تاکہ تھانے جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تھانوں میں
رش ہے اور مساجد خالی۔ ویسے اگر عوام بھی قانون کی پاسداری اور قانون پر
عملداری کو یقینی بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تھانے جانے کی نوبت آئے۔
تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے لئے حکومتیں اپنے اپنے طریقے سے کام کرتی ہیں،
پنجاب میں چوہدری پرویز الہٰی کی حکومت نے اگر پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ
کیا تھا، ان کو جدید گاڑیوں اور اسلحہ وغیرہ سے لیس کیا تھا، ان کی ڈیوٹیوں
کے اوقات میں کمی کی تھی، تو میاں شہباز شریف کی حکومت نے بھی پولیس کی
یونیفارم تبدیل کرکے فرض کر لیا ہے کہ اس کے رویوں میں تبدیلی آجائے گی۔
پولیس کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پولیس صوبائی محکمہ ہے مگر ملک بھر
میں ایک ہی رویے کی بنا پر اس میں یکسانیت پائی جاتی ہے، سنا ہے خیبر
پختونخواہ میں پولیس تبدیل ہو چکی ہے، مگر مجموعی طور پر پولیس ابھی تک
حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ عوام
جائیں بھاڑ میں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تھانہ کلچر تبدیل ہوتا ہے اور کب
مساجد کی رونق میں اضافہ۔ |