صحافتی تنظیموں کا مسئلہ!

 اس کام کا آغاز اسلام آباد سے بھی ہو سکتا تھا، مگر لاہور پریس کلب نے قدم اٹھا لیا، اس کی بہت ضرورت تھی، دردِدل رکھنے والا ہر صحافی پریشان تھا۔ پریس کلب تو ہرچھوٹے بڑے شہر میں موجود ہیں، وفاقی سطح پر ایک دو تنظیموں کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔ گزشتہ چند برس میں تو گویا برسات ہی شروع ہوگئی ، جس فرد کو بڑی تنظیم میں عہدہ نہ ملا، اس نے ڈیڑھ اینٹ کی نئی مسجد کی بنیاد رکھ لی، خواہ امام کو مقتدی بھی دستیاب ہوں یا نہ ہوں۔ اب تو ہی سلسلہ ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی نے اس معاملے کا جائزہ لینے کی منصوبہ بندی کی ہے، سینئر صحافیوں جناب خاور نعیم ہاشمی اور نوید چوہدری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے، جو صورت حال کا جائزہ لے گی، تاکہ اس ضمن میں پریس کلب لاہور کوئی لائحہ عمل تیار کر سکے۔ لاہور پریس کلب کے صدر محمد شہباز میاں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ صحافیوں کی تیزی سے وجود میں آنے والی ان خود ساختہ اور نام نہاد تنظیموں اور گروپس کے راستے کو روکنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ ان کے مقاصد دراصل ذاتی تشہیر، مراعات کا حصول، کمیونٹی کے اتحاد کو تقسیم کرنا، برادری کے مشترکہ مقاصد کو نقصان پہنچانا اور صحافت جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرنا ہے۔

کوئی بھی طبقہ اتحاد کی صورت میں ہی قائم رہ سکتا اور ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔ اختلافات کی بنا پر بکھرنے سے کوئی قدر اور وزن نہیں رہتا۔ مگر اپنے ہاں یہ مسئلہ بہت زور پکڑ گیا ہے کہ تنظیم نامی چیز کی پابندی نہیں ہوتی، کیونکہ بنیادی طور پر ڈسپلن ہم پاکستانیوں کی زندگی کا حصہ بن ہی نہیں سکا، پابندی قبول کرنے کی روایت کم ہی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے معاملہ ترقی معکوس کا ہے۔ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ خود کو تنظیمی سانچے میں ڈھالنے کی بجائے ہم لوگ اپنا الگ بندوبست کرلیتے ہیں۔ صحافیوں کے لئے بنیادی طور پر تو ہر جگہ پر پریس کلب موجود ہیں۔ وہاں ہر عامل صحافی ممبر بن سکتا ہے، مگر بعض اوقات پسند نا پسند کا معاملہ آجاتا ہے، بعض اوقات جعلی ممبر سازی رکاوٹ بن جاتی ہے، جس سے غیر صحافی افراد کو آگے آنے، اپنے مفادات حاصل کرنے اور صحافیوں کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تقسیم کے اس عمل سے سرکاری وغیر سرکاری اداروں، حامی و مخالف سیاستدانوں اور دیگر لوگوں کے سامنے صحافیوں کی نہ صرف جگ ہنسائی ہوتی ہے، بلکہ جو طبقہ معاشرے کے لئے آنکھ کا کردار ادا کرتا ہے، وہ بدنام اور مذاق کا نشانہ بن کے رہ جاتا ہے۔ اداروں اور افراد کو یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ اصل صحافی کونسے ہیں؟

پریس کلبز میں جب پسند نا پسند کی بھرتی ہوتی ہے، تو پھر سیکورٹنی کا عمل ضروری ہو جاتا ہے، مگر یہ عمل بہت ٹوٹ پھوٹ کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے، جن لوگوں کو پریس کلب کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے، وہ الگ گروپ یا سرے سے الگ پریس کلب ہی بنا لیتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پریس کلبز کا آپس میں رابطہ ہو، کوئی ایک لائحہ عمل ہو، جس پر صوبہ بھر (بلکہ پورے ملک ) میں عمل کروایا جائے۔ پریس کلب کا پلیٹ فارم صحافیوں کی فلاح وبہبود کا بہترین ذریعہ ہے، جیسا کہ لاہور پریس کلب کے بارے میں بتایا گیا ہے، کہ وہ اپنے ممبران کی بہتری کے لئے کون کونسے اقدامات کر رہے ہیں۔ جس مسئلے کی نشاندہی لاہور پریس کلب نے کی ہے، اس پر اگر سنجیدگی سے کام شروع ہوگیا تو اس پر عمل کرنے کے بعد اس کا دائرہ پورے پنجاب میں پھیلانے کی ضرورت ہوگی۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنظیم بن جاتی ہے، مگر اس کا کوئی ’’مرکز‘‘ بھی نہیں ہوتا، یعنی وہ اسی علاقے سے شروع ہوتی ہے۔ چھوٹے علاقوں میں ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی زیادہ مشکل ہوتی ہے، ایسا کرنا حالات خراب کرنے کے مترادف ہے، مگر لاہور جیسے مرکز سے کسی چیز کی تصدیق یا تردید کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔ لاہور پریس کلب کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے، اس کی بھر پور حمایت کی جانی چاہیے۔ لاہور پریس کلب کو قیادت کرتے ہوئے اس کا سلسلہ کم از کم ڈویژنل ہیڈکوارٹرز تک ضرور پھیلانا چاہیے، تاکہ سب مل کر اپنے آپ کو مضبوط کریں، اِدھر اُدھر جانے والے بھی حقیقی اور اصلی پلیٹ فارمز اور تنظیموں کا ساتھ دیں، تاکہ یکجان ہو کر ہم سب اپنی برادری کی خدمت کرسکیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472735 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.