نبی پاکﷺ کی دُعا۔ فاروق اعظمؓ

تاریخ اسلام ایسی شخصیات کے اذکار سے مزین ہے جنہوں نے اپنی نبی پاکﷺ کے کہنے پر رب کے خاص بندئے ہونے کا حق ادا کر دیا۔نبی پاکﷺ نے اپنے صحابہ اکرامؓ کی ایک ایسی جماعت تیار فرمائی جنہوں نے پوری دنیا کو انسانیت سکھائی۔ انسانیت سکھانے کے لیے نبی پاکﷺ نے اپنے غلاموں کی جس طرح تربیت فرمائی اُس کا پھر نتیجہ یہ تھا کہ قیصر وکسریٰ کے ایوان لرز اُٹھے۔اگر ہم صحابہ کرام رضی ااﷲ عنہم کی شخصیات کا جائزہ لیں تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہما کی شجاعت پہلی قسم کی ہے اور سیدنا عمر اور علی رضی اﷲ عنہما کی دوسری قسم کی۔ لشکر اسامہ رضی اﷲ عنہ کی روانگی اور منکرین ختم نبوت اور منکرین زکوٰۃ کے مقابلے میں جہاد کے معاملے میں سیدنا ابوبکر رضی ااﷲ عنہ نے ایسے اعتماد کامظاہرہ کیا جس کی تعریف حضرت عمر رضی اﷲعنہ جیسے بہادر انسان نے کی۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے خود پر حملہ آور ہونے والوں کے مقابلے میں انتہا درجے کے ضبط نفس کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عمر اور علی رضی اﷲعنہما کی شجاعت تو اتنی واضح ہے کہ وہ کسی بیان کی محتاج نہیں۔ سیدنا عمر رضیاﷲ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو قوت میں یہ فرق پڑا کہ وہ جو نیک کام پہلے چھپ چھپا کر کیا کرتے تھے، اب کھلے عام کرنے لگے۔ سیدنا علی رضی ا ﷲ عنہ کی شجاعت غزوہ خندق میں کھل کر سامنے آئی جب انہوں نے عمرو بن عبد ود جیسے جنگجو کو قتل کیا جو اپنی جنگی مہارت کی بنا پر عرب میں ہزار سواروں کے برابر مانا جاتا ہے۔اسی طرح خیبر کے قلعے کی فتح میں آپ کا کردار شجاعت کی تابناک مثال ہے۔اسی طرح دوسرے صحابہ کرام رضی ا ﷲ عنہم میں شجاعت کے مختلف اوصاف پائے جاتے تھے۔ ان میں سیدنا زبیر بن عوام، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا ابو عبیدہ، سیدنا خالد بن ولید، سیدنا عمرو بن عاص، سیدنا سعد بن معاذ، سیدنا اسید بن حضیر، سیدنا سعد بن عبادہ، سیدنا زید بن حارثہ، سیدنا جعفر طیار، سیدنا عبدااﷲ بن رواحہ، سیدنا قعقاع بن عمرو، سیدنا عکرمہ بن ابو جہل اور سیدنا عبد اﷲبن سعد بن ابی سرح رضی اﷲعنہم کی شخصیات نمایاں ہیں۔رسول اکرم صلیٰ اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے بطنِ مبارک سے حضرت فاطمہ رضی ااﷲعنہا نے جنم لیا اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے ہوئی، پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے بطن میں حضرت امِ کلثوم رضی اﷲعنہا پیدا ہوئیں۔ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اﷲعنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اﷲ سے ہوا، جبکہ سیدنا عمر رضی اﷲعنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رسول اکرم صلیٰ ااﷲعلیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔ ان کے بطن مبارک سے آپ صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی۔اس لیے سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اﷲ عنہما حضرت عمر فاروق رضی ااﷲعنہ کی نواسی یا نواسی کی بیٹی نہیں ہیں۔ شرعاً اس نکاح میں کوئی روکاوٹ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں حضرت امِ کلثوم بنت علی رضی ا? عنہما، سیدنا عمر فاروق کی محرم نہیں بنتیں۔1۔ مہاتما گاندھی جی نے 1935 ء میں ایک تقریر کی جو اخبار ’’Young India‘‘ میں شائع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آؤ حضرت عمرؒ کی مثالی زندگی کی طرف متوجہ ہوں۔ وہ ایک وسیع و عریض سلطنت کے فرمانروا تھے لیکن ایک مفلس کی طرح زندگی گزارتے تھے‘‘اسی طرح 27 جولائی 1937 کو بمقام پونہ (انڈیا) میں دوران تقریر انہوں نے کہا کہ ’’سادگی ارباب کانگرس کی اجارہ داری نہیں۔ اس حوالے سے میں رام چندر جی اور کرشن جی کا حوالہ نہیں دے سکتا۔ میں مجبور ہوں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کا نام لوں۔ وہ عظیم انسان تھے۔ وسیع علاقہ پر حکومت کے باوجود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے‘‘۔ 2۔ ہندوستان کے ایک انقلابی مصنف ایم۔ این رائے جو کہ اشتراکیت کے بہت بڑے داعی تھے اپنی کتاب ’’Historical Role of Islam‘‘ کے صفحہ نمبر 6 پر لکھتے ہیں۔ ’’سلطنت روم کی داغ بیل اگستس نے ڈالی تھی۔ سات سو سال کی فتوحات کے بعد ایک عظیم سلطنت بنی۔ لیکن حضرت عمرؓ کے دور میں چند سالوں میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے چند حصوں کے برابر بھی نہ تھی۔ ایرانی سلطنت ایک ہزار سال تک رومیوں کے سامنے ڈٹی رہی لیکن (حضرت عمرؓ کے زمانے میں) خلفائے اسلام کے سامنے انہیں اپنا سر جھکانا پڑا‘‘ آگے چل کے وہ لکھتا ہے کہ ’’اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے بیت المقدس میں فاتحانہ داخلے کا منظر یہ تھا کہ مدینہ طیبہ سے شام تک کا سفر اپنے غلام کے ہمراہ ایک اونٹ پر کرتے ہیں۔ جس پر شاہانہ سامان کی کل کائنات اونٹ کے کھردرے بالوں کا ایک خیمہ۔ ستو،جو اور کھجوروں کا ایک تھیلہ۔ پانی کیلئے مشق اور ایک پیالہ تھا‘‘3۔ ایک انگریز سکالر John Denham Parsons اپنی کتاب ’’Our son god or Christanity before Christ‘‘ (ہمارا فرزند ِخدا یا عیسائیت قبل از مسیح، مطبوعہ لندن 1895) کے صفحہ نمبر پچیس اور چھبیس پر لکھتا ہے کہ حضرت عمر ؓ عظیم شخصیت کے مالک اور فیاض تھے۔انہوں نے 637ء میں بیت المقدس فتح کیا۔ اس موقع پر ان کا طرز عمل عادلانہ اور کریمانہ تھا۔ عیسائیوں نے یوروشلم کو صلیبی جنگوں کے نتیجے میں 1099ء میں فتح کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں کو بھی وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا۔ چھٹی صدی کے مسلمان گیارویں صدی کے عیسائیوں سے زیادہ شائستہ اور مہذب تھے۔ ان صدیوں کے درمیانی عرصہ کے دوران جن لوگوں نے سائنس اور تہذیب و تمدن کو درخشان و تاباں رکھا وہ عیسائی نہیں بلکہ مسلمان تھے‘‘ (یہ اور چند دیگر حوالہ جات بحوالہ ضیائے حرم فاروق اعظم نمبر صفحہ نمبر 383-385)4۔ انسائکلو پیڈیا برٹانیکا 1888 کے صفحہ نمبر 563 پر اور 1907کے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 586 پر ’’Muhammadanism‘‘کے عنوان سے درج ہے کہ ’’حضرت عمر دس سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے۔ امور سلطنت پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ انہوں نے اپنے نبیﷺ کی تابعداری کا حق ادا کیا۔ وہ خود مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر امور سلطنت چلاتے لیکن ان کے دور میں وسیع و عریض فتوحات ہوئیں۔ ان کی شخصیت سحر انگیز اور طاقت ور تھی۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کو رواج دیا‘‘5۔ واشنگٹن ارون (Washington Irving) ایک امریکی مصنف ہے۔ اپنی کتاب ’’Lives of Successors of Muhammad PBUH‘‘ میں لکھتا ہے کہ حضرت عمر کی سیرت بتاتی ہے کہ وہ ایک عظیم انسان تھے جنہیں قدرت نے خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ عدل و انصاف کرنے والے تھے۔ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے بانی ہیں۔ انہوں نے ایک بہت بڑی سلطنت پر قانون کی حکمرانی قائم کی‘‘۔6۔ سر ولیم میور اپنی کتاب ’’The Caliphate, its rise, decline and fall‘‘ کے صفحہ 190 پرلکھتے ہیں۔’’حضرت عمرؓ کی زندگی کے چند گوشے یہ ہیں۔ سادگی اور فرائض کی انجام دہی پر آمادگی ان کے دو راہنما اصول تھے۔ آپ کے نظم و نسق کے دو بہترین جوہر غیر جانبداری اور اخلاص تھے۔ آپ کا نظام عدل و انصاف بہت مضبوط تھا۔ سپہ سالاروں اور گورنروں کی تعیناتی میں آپ انصاف پسند تھے۔ کسی طرح کی رو رعایت سے آپ کا مزاج پاک تھا۔ آپ کا دل رقیق اور شفیق تھا جبکہ آپ کی دہشت سے مجرم کانپتے تھے۔ یہ حقیقت ان گنت شواہد پر مبنی ہے۔ بیوہ عورتوں اور یتیموں کی دستگیری کرتے۔ ان کے دکھ درد کو دور کر کے سکھ کا اہتمام کرنا آپ کا نصب العین تھا۔ان حقائق کے ثبوت کیلئے ایک مثال کافی ہے۔ قحط کا زمانہ تھا۔ دوران گشت آپ کی نظر ایک غریب عورت اور اس کے بھوک سے روتے بچوں پر پڑی۔ کیفیت یہ تھی کہ آگ جل رہی تھی۔ بچے ارد گرد بیٹھے تھے اور کھانے کیلئے کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ تیزی سے خود چل کے قریب کی بستی میں گئے۔ کچھ کھانے پینے کا اہتمام کیا۔ واپس آکر خود گوشت پکایا اور اپنے ہاتھوں سے بھوکے بچوں کو کھلایا۔ جب بچے کھا پی کر ہنسنے اور کھیلنے میں مصروف ہو گئے تو پھر حضرت عمر وہاں سے تشریف لے گئے‘‘اتنا تصور اگر ہم کر لیں کہ وہ ہستی جو وجہ تخلیق کائنات ہیں یعنی سرور کائنات نبی پاکﷺ وہ اپنے رب سے عمر فاروقؓ کو مانگ رہی ہیں تو مطلب صاف واضح ہے کہ عمر فاروقؓ کو ااﷲ پاک نے اسلام کی مضبوطی کے لیے چن لیا تھا اور یوں عمر فاروق ؓ نے مرادِ رسولﷺ ہونے کا حق ادا فرمادیا۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430206 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More