عارفوں کا شہر " عارف والا "

 سرزمین عارف والا کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو وہاں جانے اور اسے جی بھر کے دیکھنے کو دل چاہتا ہے ۔عارف والا گئے ہوئے مجھے 20 سال کا عرصہ ہوچکاتھا اس کے باوجود کہ وہاں اب بھی میرے ماموں ( ہدایت خان ) کئی خالہ زاد اور ماموں زاد بہن بھائی رہائش پذیر ہیں لیکن ان کے باربار اصرار کے باوجود ناسازی طبع کی وجہ سے عارف والا نہ جاسکا ۔ گزشتہ مہینے چھوٹے بھائی ( محمداشرف لودھی ) نے بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ ہمارے خالہ زاد ( سہیل اختر خان ) کے بیٹے سے طے کرنے کاارادہ رکھتے ہیں ۔میں نے خوشی کااظہار کرتے ہوئے اس رشتے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی اس لیے اجازت دے دی کیونکہ جو وقتی فاصلے نانا نانی ٗ ماں اور خالاؤں کے فوت ہونے کی وجہ سے درمیان میں حائل ہوگئے تھے اس رشتے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے پھر قریب آجائیں گے ۔اس کے باوجود کہ خاندان کے سبھی رشتے محترم ہوتے ہیں اور آخری سانس تک ان رشتوں کی شدت سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن جن لوگوں سے بچوں کی شادی کی صورت میں رشتہ استوار ہو جاتا ہے ان سے باہمی محبت ٗ میل جول اور گرمجوشی کا مظاہرہ ہمیشہ قائم رہتا ہے ۔اور وہ عزیز و اقارب ہمیشہ پس پردہ میں چلے جاتے ہیں جن کے مابین رشتوں کی کوئی کڑی موجود نہیں رہتی ۔

10 جولائی 2011 اتوار کی صبح ساڑھے چھ بجے کرایے پر حاصل کی گئی ایک وین پر ہم لاہور کینٹ سے عارف والا کے لیے روانہ ہوئے اور 210 کلومیٹر کا سفر طے کرکے ساڑھے دس بجے عارف والا شہر کی دہلیز پر ہم دستک دے رہے تھے ۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ 20 سال بعد عارف والا معاشی معاشرتی ٗ کاروباری اور تعلیمی اعتبار سے کافی ترقی یافتہ دکھائی دے رہا تھاکبھی وہ وقت تھا کہ لاری اڈے کے قریب شہر جانے والوں کے لیے ٹانگے قطار در قطار موجود ہوتے تھے لیکن اب ان کی جگہ موٹرسائیکل رکشوں نے لے لی ہے۔پہلے باقاعدہ ٹرانسپورٹ اڈہ موجود نہیں تھا ساہیوال ٗ پاکپتن اور وہاڑی کی جانب سے آنے والی بسیں سڑک پر ہی سواریاں اتار کراپنی اگلی منزل کو روانہ ہوجاتی تھی لیکن اب باقاعدہ لاری اڈہ نظر آیا جہاں لاہور بہاولنگر ٗ وہاڑی اور ساہیوال جانے والی کوچز روانگی کے لیے اپنی اپنی باری کاانتظار کررہی تھیں ۔ پہلے جہاں انتہائی خستہ حال ٗبوسیدہ اور کم معیار کی دکانیں ہواکرتی تھیں وہاں اب کثیر المنزلہ عمارتیں ٗ پلازے اور صاف ستھری دوکانیں نظر آئیں ۔اس کے ساتھ ہی وہ قبرستان بھی نظر آیا جہاں میری پیاری نانی ( فاطمہ بی بی ) ماموں ( طفیل خان ) خالو ( انور خان ) دو خالائیں ( اقبال بیگم اور خورشید بیگم ) دفن ہیں ۔ یہ وہ قابل احترام ہستیاں ہیں جن کے ہاتھوں میں میرا بچپن گزرا ہے جن کی پیار بھری آغوش کی گرمی مجھے اب بھی اپنی یاد دلاتی ہے جن کے دامن کی خوشبو آج بھی میری ذات کا حصہ ہے ۔ اگر میں ماضی کے دریچوں میں اتر کر دیکھتا ہوں تو ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات صدیوں پر محیط دکھائی دیتے ہیں بطور خاص نانی اور ماموں طفیل خان کو میری زندگی میں وہ مقام حاصل تھا کہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا ۔ لیکن موت کے بے رحم پنجوں سے انہیں کوئی بھی نہ بچا سکا اوربظاہر مٹی کا ڈھیر ہی اب ان کی پہچان بن چکے ہیں ۔

چلتی ہوئی وین پر میں نظریں اردگرد گھما کر پرانی یادوں کو تازہ کرنے کی جستجو کررہا تھا میں نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو جہاں پہلے ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہوا کرتے تھے وہاں آبادی کا بے ہنگم سیلاب سب کچھ ہڑپ کرچکا تھا ۔ کہا تو یہی جاتاہے کہ ریت پر گھر تعمیر نہیں کئے جاسکتے کیونکہ ریت مضبوط بنیاد فراہم نہیں کرتی لیکن یہاں یہ مقولہ غلط ثابت ہورہا تھا مقامی لوگوں نے ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو نہ جانے کہاں غائب کردیا اور گھر بنا کر وہاں رہنے لگے ۔ بہرکیف جونہی ہماری وین ریلوے پھاٹک عبور کرکے شہر عارف والا کی حدود میں داخل ہورہی تھی تو مجھے اپنے بائیں جانب " عارف والا "کا وہ تاریخی ریلوے اسٹیشن دکھائی دیا جو کبھی ہمیں دنیا کا سب سے خوبصورت ریلوے اسٹیشن دکھائی دیتا تھا۔کیونکہ آج سے تیس پینتیس سال پہلے ریلوے ٹرین کو ہی سب سے زیادہ قابل اعتماد ذریعہ سفر سمجھا جاتا تھا۔ ریلوے میں ملازم ہونے کی وجہ سے والد صاحب کو سال میں تین چار فری پاس( سفری اجازت نامہ ) ملا کرتے تھے جبکہ نصف کرایہ کے پاس بھی نصف درجن سے کم کیاہوں گے اس لیے جب بھی ہمیں سکول سے چھٹیاں پڑتیں ٗ یا غمی خوشی کا کوئی موقع آتا تو عارف والا جانے کے لیے ماں کے ساتھ ہم سب بھائیوں کو بھی ٹرین پر بٹھا کر اﷲ کے سپرد کردیا جاتا ۔ ٹرین کا یہ سفر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر پر ُ لطف تھا کہ ہر اسٹیشن پر چھابڑی فروشوں کی آوازیں ٗ ٹرین پر سوار ہونے والوں کی ہنگامہ خیزی ٗ نوجوان اور بڑی عمر کی عورتیں اور مرد جب سوار ہونے کے لیے دھکم پیل کرتے توعجیب منظر دیکھنے کو ملتے ۔ اگر ہمیں بیٹھنے کے لیے پہلے سے جگہ میسر آجاتی تو ہمارا شمار مہاراجوں میں ہوا کرتا تھا۔

جب بھی عارف والا جانے کا پروگرام حتمی طور پر طے پاتا۔بے شک ماں کے اپنے لباس پر ان گنت پیوند لگے ہوتے لیکن وہ ہمارے لیے نئے کپڑوں کااہتمام اس لیے کرتی کہ جب ہم نانی کے گھر جائیں گے تو نئے کپڑوں کو دیکھ کر سب تعریف کریں گے گویا نانی کاگھر ساری دنیا سے خوبصورت دکھائی دیتا تھا ۔ماں کا موقف ہمیشہ یہی رہا کہ صاف ستھرے بچے سب کو اچھے لگتے ہیں ۔نانی اور مامووں سے پیار کی تو کوئی انتہا ہی نہیں تھی ۔ لوگ جب چاند کو "چندا ماموں " کہہ کر پکارتے تو ہم یہی تصور کرتے کہ آسمان کے افق پر رات کو طلوع ہونے والے صرف ہمارے ہی ماموں( طفیل خان اور ہدایت خان ) ہیں۔ماموں بھی ایسے کہ بھانجوں پر جان نچھاور کیا کرتے تھے ۔ اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ہمیں خوش دیکھنے کے لیے بے تحاشا خرچ کرتے اور جتنے دن بھی ہم عارف والا میں نانی کے گھر رہتے ان کا ہمیشہ یہی تقاضا ہوتا ہے کہ ہم کچھ دن اور رک جائیں ۔پرانے وقتوں میں رشتوں میں اس قدر چاہت کا اظہار تھا کہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔

عارف والا ریلوے اسٹیشن عمارت کے ڈائزین کے اعتبار سے تو باقی اسٹیشنوں جیسا ہی تھا لیکن اس کی ایک ایک چیز ہماری آنکھوں میں ہمیشہ سمائی رہتی۔ جب بھی آنکھیں بند کرتے تو عارف والا کی پیلی عمارت آنکھوں کی سکرین پر نمودار ہونے لگتی ۔ یہی وہ ریلوے اسٹیشن تھا جہاں میرے بڑے ماموں ( ہدایت خان ) ڈاکیے کی خاکی وردی پہن کر ہمارا استقبال کیا کرتے تھے ۔ ٹیلی فون تو اس زمانے میں نہیں تھا ہماری روانگی سے چند دن پہلے ابا جی ماموں کو ٹیلی گرام ( تار ) بھیج دیتے جس سے انہیں خبر ہوجاتی کہ ہم اس گاڑی پر عارف والا پہنچ رہے ہیں۔جونہی تیل کے بڑے بڑے ٹینکر دکھائی دیتے تو دل بے چین ہوجاتے اور یقین ہوجاتا کہ عارف والا آگیا ہے ۔لیکن اب ریلوے اسٹیشن عارف والا ایک ویرانے اور کھنڈ ر کی شکل دھار چکا تھا نہ مسافروں کی ریل پیل نہ گاڑیوں کی آمد و رفت سب کچھ ختم ہوچکا تھا ۔ ریلوے کے اس سیکشن پر 24 گھنٹوں میں بمشکل دو تین گاڑیاں ہی چلتی ہوں گی اور وہ بھی مسافروں سے خالی ۔ نہ گاڑی کے آنے کا کوئی وقت اور منزل پر پہنچنے کی کوئی توقع ۔ جو مسافر ایک بار ٹرین پر بیٹھنے کی غلطی کرلیتا ہے اس قدر ذلیل و خوار ہوتا ہے کہ دوبارہ اس غلطی کو نہ دھرانے کی قسم کھا لیتا ہے ۔ ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے اپنی مکمل اجارہ داری قائم کرلی ہے ہر دس پندرہ منٹ بعد ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے کے لیے ائیرکنڈیشنڈ بسیں اور کوچیں تیار ملتی ہیں تو کس بیوقوف کا جی چاہے گاکہ وہ پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ریل گاڑی کا گھنٹوں انتظار کرے۔

بہرکیف ہماری وین اب عارف والا شہر کی نواحی بستی مظفر آباد میں داخل ہوچکی تھی ۔ اسے نئی آبادی کے نام سے بھی منسوب کیاجاتا ہے کیونکہ یہ کالونی غریب محلے کی توسیع ہی تصور کی جاتی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم نانی کے گھر مکان نمبر 2 گلی نمبر 2 غریب محلہ عارف والا میں جایاکرتے تھے تو چند سو گز کے فاصلے پر کھیت شروع ہو جاتا کرتے تھے ۔لیکن اب شہر کے جنوب میں واقع یہ نواحی علاقہ بہترین عمارتوں اور گھروں میں شمار ہونے لگا ہے ۔اسی کالونی کا ہی ایک گھر ٗ جس کے باہر ( الجنت سہیل اختر خان ) لکھا تھاوہ ہماری منزل تھی بیس سال پہلے یہ گھر تو موجود تھا لیکن جنت کا روپ اس نے دو تین سال پہلے ہی دھارا تھا جب میرے خالہ زاد بھائی سہیل اختر نے اسے تعمیرات کے جدید تقاضوں سے کچھ اس طرح ہم آہنگ کیا کہ یہ گھر ایک شاہکار دکھائی دینے لگا ۔ ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گھر میں رہنے والوں کے خوشدلانہ رویوں کی وجہ سے واقعی یہ گھر جنت کے ایک گوشے کا روپ دھار چکا تھا ۔

یہیں پر میری ملاقات ماموں (ہدایت خان) سے ہوئی جب میں نے انہیں جھک کر سلام کیا تو انہوں نے روایتی انداز میں سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار کیا۔ تو میں چالیس سال پہلے والے دور میں پہنچ گیا ۔اور ان کے روبرو کھڑا خود کو چھوٹا سا بچہ محسوس کررہا تھا جسے وہ اکثر " تھپ تھپ " کے لقب سے پکارا کرتے تھے ۔ وہ یادگار لمحات میری آنکھوں میں ایک فلم کی مانند اترنے لگے ۔کبھی وہ وقت تھا ماموں ڈاکیے کی خاکی وردی پہن کر جب گھر سے نکلتے تو پورا شہر انہیں ادب سے سلام کرتا تھا ۔کئی بار سائیکل پر بیٹھ کر میں بھی ان کے ساتھ بازار گیا تو میں یہ دیکھ کر حیرا ن رہ گیا کہ ہر شخص ان کے لیے آنکھیں بچھا رہا تھا مجھے وہ وقت نہیں بھولتا جب وہ مجھے لے کر شوز کی دکان میں داخل ہوئے ۔ وہاں مجھے جوتوں کی ایک جوڑی پسند آگئی دوکاندار نے اصرار کے باوجود یہ کہتے ہوئے ان جوتوں کے پیسے لینے سے انکار کردیا کہ آپ کا بھانجا ہمارا بھی بھانجا ہے ۔ ماموں کی اس عزت افزائی پر میں بہت خوش ہوا ۔ایک صبح جب وہ ڈیوٹی پر جانے لگے تو میں بھی گاؤں دیکھنے کے شوق میں نئے جوتے پہن کر ان کے ساتھ ہوگیا ۔ پہلے تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کیا لیکن جب میرا اصرار حد سے زیادہ بڑھ گیا تو وہ مجھے لے جانے پر آمادہ ہوگئے۔ سائیکل پر آگے بٹھا کر پہلے ڈاکخانے پہنچے پھر خطوں کا تھیلا لے کر گاؤں کی جانب سائیکل پر سوار چل دیئے ۔

گاؤں کے کچے پکے راستوں پر اوچھل کود نے مجھے پریشان کردیا لیکن گاؤں پہنچ کر جب مجھے سائیکل سے اترنے کے لیے کہا تو خون ایک ٹانگ میں منجمد ہونے کی وجہ سے میں کھڑا نہ ہوسکااور زمین پر گر گیا ۔ مجھے زمین پر گرتاہوا دیکھ کر ماموں پریشان ہوگئے لیکن اس وقت ان کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا جب انہیں میرے ایک پاؤں میں جوتابھی نظر نہ آیا ۔ نئے جوتے مجھے کس حد تک پسند تھے اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رات کو جب بھی میری آنکھ کھلتی تو میں چپکے سے اٹھ کر نئے جوتوں کو پیاربھری نظر سے دیکھتا اور ممانی ثریا بیگم سے پوچھا کہ صبح کب ہوگی جب میں یہ جوتے پہنوں گا۔ وہ مجھے یہ کہہ کر خاموش کروا دیتی کہ ابھی صبح نہیں ہوئی خاموشی سے سو جاؤ ۔ لیکن صبح ہونے کا مجھے اس لیے انتظار تھا کہ میں اپنے من پسند جوتے پہن کر کب ماموں کے ساتھ سیر کوجاؤں گا ۔ بہرحال ایک جوتا گرنے کی وجہ سے میں تو زار و قطار رونے لگا ماموں سمیت وہاں موجود بزرگ عورتیں اور مرد مجھے دلاسہ دینے لگے لیکن میری نظر میں تو یہ ناقابل تلافی نقصان تھا ۔ ماموں مجھے یہ کہہ خاموش کروانے کی جستجو کرتے رہے کہ بازار سے جوتوں کی ایک اور جوڑی لے دوں گا ۔ لیکن میرے آہ و زاری اور آنسو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔

مجھے روتا ہوا دیکھ کر ماموں کو ڈاک تقسیم کرنا بھول گئی اور مجھے سائیکل پر بٹھا کر واپس گھر لے آئے ۔ جونہی ہم گھر میں داخل ہوئے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نانی کو سخت غصہ آیا انہوں نے پوچھے بغیر ماموں کو ڈانٹنا شروع کردیا ۔ پھر جب میرے پاؤں میں ایک جوتا نظر نہ آیا تو نانی اور بھی سیخ پا ہوکر کہنے لگی یہ تو بچہ تھا تم آپ تو بچے نہیں تھے ۔ ابھی واپس جاؤ اور بازار سے جوتوں کی نئے جوڑی خرید کردو ۔ میں انتہائی معصوم بن کے نانی کے پاس کھڑا تھا ۔ نانی کی ڈانٹ سن کر ماموں کو ایک بار پھر مجھے سائیکل پر بٹھا کر بازار آنا پڑا ۔ لیکن ا ُن جوتوں جیسا کوئی نہ مل سکا اور میرے سارے خواب تنکوں کی طرح بکھرے گئے ۔ اب جبکہ میں 56 سال اور ماموں ماشا اﷲ 70 سال کے ہوچکے ہیں۔ ان کے روبرو کھڑے ہوکر مجھے وہ پرانے تمام واقعات یاد آنے لگے ۔ لیکن یہ خوشی ضرور ہوئی کہ ماموں اس عمر میں بھی مجھ سے زیادہ مستعد اور چاق و چوبند نظر آرہے تھے ۔اﷲ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے ۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ نانی کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک تالاب نما جوہڑ ہوا کرتا تھا بارشوں کا پانی اس میں جمع ہوجاتا تھا ۔ فرنیچر بنانے والے اس تالاب میں کٹے ہوئے درختوں کی بڑی بڑی لکڑی ڈال دیاکرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ماں نے بڑے بھائی (اکرم ) اور میری ڈیوٹی لگائی کہ چھوٹے بھائی اشرف کو باہر جاکر کھیلا ؤ ۔ ماں سے اجازت ملنے کے بعد بھا ئی اکرم نے کہا لو پکڑو چھوٹے بھائی اشرف کو ۔ ہم دونوں تالاب میں نہانے چلتے ہیں۔ غصے کا سخت ہونے کی بنا پر میں بھائی اکرم سے ہمیشہ ڈرتا تھا اس لیے ان کی ہر بات میرے لیے قانون کا درجہ رکھتی تھی ۔

ہم دونوں درختوں کے جھرمٹ میں اس تالاب کے کنارے جا پہنچے ۔ بھائی اکرم کو شرارت سوجھی انہوں نے مجھے حکم دیا کہ بھائی( اشرف ) کو کنارے پر بٹھا کر میں بھی تالاب میں کود جاؤں ۔ وہ خود درخت نما بڑی لکڑی کے اوپر بیٹھ گئے اور مجھے پانی میں تیرتے ہوئے اس لکڑی کو دھکا لگانے کا حکم دیا ۔گرمیوں کے موسم میں تالاب کے ٹھنڈے پانی میں کھیلتے ہوئے مجھے بھی اچھا لگ رہا تھا لیکن کھیلتے ہوئے ہم بھول گئے کہ چھوٹے بھائی اشرف کو ہم تالاب کے کنارے پر بٹھا آئے ہیں ۔ ہماری نقل و حرکت سے تالاب کے پانی میں لہریں پیدا ہوئیں اور یہ لہریں کناروں تک پہنچنے لگیں ۔ ایسی ہی پانی کی ایک لہربھائی اشرف تک بھی جا پہنچی ۔ بھائی اشرف پھسل کر تالاب میں گر گیا اور غوطے کھا نے لگا ۔ ارد گرد سے گزرنے والے رہگیروں نے تالاب میں کود کر غوطے کھاتے ہوئے بچے کو نکال لیا ۔ ہم دونوں بھائی اپنے کھیل میں مصروف تھے ۔کہ اچانک ہماری نظر تالاب کے کنارے پر جمع لوگوں کے ہجوم پر پڑی ۔ تودیکھ کر حیران رہ گئے کہ ڈوبنے والا بچہ تو ہمار ا ہی بھائی اشرف تھا جسے کنارے پر بٹھا کر ہم تالاب میں اترے تھے ۔غوطے کھانے کی وجہ سے پانی اس کے پیٹ میں بھر چکا تھا اور اس کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔ہمیں خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے پیٹ سے پانی کیسے نکالا جائے ۔ چند سمجھ دار لوگوں نے یہ کام تو کردیا لیکن بھائی اشرف کے حواس بحال نہ ہوسکے ۔ ہم دونوں بھائی ٗ اشرف کو نڈھال حالت میں اٹھا کر گھر کی طرف بھاگے ۔ماں نے اشرف کی حالت غیر دیکھ کر پوچھا اسے کیا ہوا ہے ۔ بھائی اکرم نے کہا کہ ہم اسے ہینڈ پمپ کے نیچے نہلا رہے تھے کہ اسے غوطے آگئے ۔ ماں کو بھائی اکرم پر یقین نہیں تھا اس لیے انہوں نے مجھے کہا سچ سچ بتاؤ کیا ہوا تھا۔ میں نے سچ بتا دیا تو فوری طورپر اشرف کو ایک نیم حکیم ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا لیکن جھوٹ بولنے کی سزا بھائی اکرم کو پٹائی کی صورت میں بھگتنا پڑی ۔آج وہی بھائی اشرف جس کو قدرت نے موت کے منہ سے بچایا تھا۔ ایک بیٹے( ثاقب ) اور دو بیٹیوں کا باپ بن چکا ہے ۔عارف والا کا یہ دورہ اس کی ہی بیٹی ( سحرش ) کی منگنی کے حوالے سے تھا ۔

اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عارف والا شہر اپنے دامن میں درخشاں تاریخ رکھتا ہے ۔ یہ شہر پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے 210 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ قصبہ چک نمبر 61/EB کے نام سے منسوب تھا بعد میں اسے عارفوالا کا نام دیا گیا۔عارف والا کے حوالے سے تاریخ میں کئی اوربھی شواہد ملتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں یہ شہر ایک زمیندار کے نام سے منسوب ہے جس کی وسیع زمین یہاں موجود تھی۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ یہ شہر ایک عظیم روحانی شخصیت حضرت بابا عارف شاہ سے منسوب ہے ۔ جنہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بت پرستی کو ختم کیا ۔اس بات سے قطع نظر کہ اس شہر کا نام کس سے منسوب کیا گیا ہے یہ بتاتا چلوں کہ یہ خطہ ارضی اولیا اﷲ کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے ۔ عارف والا شہر کے گردو نواح میں شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہوگا جہاں کوئی زندہ روحانی شخصیت موجود نہ ہو یا کسی بزرگ کا مزار وہاں نظر نہ آئے ۔یہ امر مقامی لوگوں کی اسلام سے گہری وابستگی کا آئینہ دار ہے ۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ مسلمانوں کے عظیم سپہ سالار " محمد بن قاسم " کی یہاں آمد سے پہلے برصغیر پاک و ہند کا یہ خطہ بدھ مت اور ہندو ازم کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا تھا لیکن جہاں محمد بن قاسم نے اپنی تلوار کے زور پر یہاں کے ہندو بادشاہ راجہ داھر کو شکست دی وہاں ان کے ساتھ آنے والے صالحین بندوں نے اس خطے کے رہنے والوں کے دلوں کو اسلام کی روشنی اور نور سے منور کیا۔ یوں تو عارف والا ٗ گگو منڈی ٗ بورے والا ٗ پاکپتن ٗ قبولہ شریف ٗ حجرہ شاہ مقیم اور قصور جیسے شہروں میں سینکڑوں ولیوں کی نہ صرف دور دراز علاقوں سے یہاں آمد ہوئی بلکہ انہوں نے اپنی عملی زندگی کو نمونہ بنا کر ہندو مذہب کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ بھی کیا ۔

عارف والا اور گرد و نواح کے رہنے والوں نے حضرت شیر محمد دیوان چاولی مشائخ ؒ کا نا م تو سنا ہوگا ۔ آپ ؒ کو تابعین میں شمار کیاجاتا ہے ۔کیونکہ نبی کریم ﷺ کے جسمانی وصال کے بعد جب اسلامی لشکر نے ایران اور پاکستان میں شامل ان علاقوں پر یلغار کی تو آپ ؒ نے اس معرکہ آرائی میں مقامی ہندووں کے ہمراہ شرکت کی تھی ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آپ ؓاس علاقے کے ہندو مہاراجہ کے اکلوتے بیٹے تھے جبکہ ( چونی اور کنگن ) آپ کی دو بہنیں تھیں جن کے نام پر چونیاں اور کنگن پور شہر آباد ہوئے ۔جب آپ ؒمسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ؒ کو حضر ت حسن علیہ السلام کی خدمت کا شرف حاصل ہوا اور انہی کے ہاتھوں آپ ؒنے اسلام قبول کیا۔ پھر جب دوبارہ محمد بن قاسم کی سربراہی میں لشکر اسلام نے دیبل کی بندرگاہ پر حملہ کیا تو آپ ؒ مسلمانوں کے ہمرکاب تھے ۔جب راجہ داہر کو شکست کاسامنا کرنا پڑا تو آپ ؒ اپنے علاقے موضوع " کھتووال " میں آکر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے لگے ۔ ابھی تک آپ کے خاندان کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے جنہوں نے موقع پاکر ایک دن نماز کی ادائیگی کے دوران آپ ؒ کو شہید کردیا۔جب یہ خبر آپ کی بہن "کنگن "تک پہنچی تو اس نے آپ ؒ کی قبر پر کھڑے ہوکر اپنی موت کی دعا مانگی اور اسی وقت وہاں فوت ہوگئی۔آج بھی حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی مشائخ ؒ کے مزار مبارک میں دو قبریں سبز غلاف میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ یاد رہے کہ یہی وہ قصبہ ہے جہاں حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ نے ایک کنویں میں لٹک کر چلہ معکوس کاٹا تھا۔ وہ کنواں اب بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ بلکہ مستند تاریخی حوالوں سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ اسی قصبے " کھتوال " میں پیدا ہوئے ہیں- جہاں آج بھی حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کے والدین کے مزارات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی قصبے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود ہے- روایت کے مطابق جہاں نبی کریم ﷺ اپنے چار صحابہ کرام کے ہمراہ اونٹنی پر تشریف لائے تھے ۔اس اونٹنی کے بیٹھنے کے نشانات اب بھی موجود ہیں جہاں زائرین دو رکعت نفل ادا کرتے ہیں۔حضرت شیر محمد دیوان چاولی مشائخ ؒ کے مزار مبارک سے ملحقہ میدان میں آپ ؒ کی کرامت کی بدولت ذہنی مریض بھی یہاں شفا پاتے ہیں ۔جن کو دور و نزدیک سے صرف روحانی علاج کے لیے یہاں لایاجاتاہے ۔ پندرہ بیس دنوں بعد مریضوں کے پاؤں میں بندھے ہوئے لوہے کے سنگل خود بخود کھل جاتے ہیں اور مریض شفا یاب ہوجاتا ہے۔

روحانیت کی اس سرزمین کاایک اور شاہکار حضرت سید شاہ موسی گیلانی ؒ اور حضرت محمد شفیع ؒ ہیں۔ جن کے مزارات قبولہ شہر میں موجود ہیں ۔ قبولہ شہر عارف والا سے صرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق کی جانب واقع ہے یہ ایک تاریخی نوعیت کا قصباتی شہر ہے ۔ اس تاریخی قصباتی شہر کی پہچان صرف حضرت سید شاہ موسی گیلانی ؒ کی شان ولایت کی بدولت ہے ۔آپ ؒ کاسلسلہ گیارہویں پشت میں حضرت غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے ۔ یہاں بطور خاص اولاد کی نعمت سے محروم لوگ فیض یاب ہوتے ہیں ۔ آپ ؒ کے حوالے سے بے شمار کرامتیں اور واقعات مشہور ہیں ۔ایک کرامت تو یہ ہے کہ آپ ؒ کا مزار مبارک ہو بہو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مزار اقدس جیسا ہے ۔ مقامی لوگوں کی زبانی آپ ؒ نے اپنی زندگی میں خواہش ظاہر کی تھی کہ رحلت کے بعد آپ کے مزار کا ڈائزین جد امجد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے روضہ مبارک جیسا ہو۔ دور قدیم میں یہ ممکن نہیں تھا کہ مزار بنانے والے کاریگر بغداد شریف جاکر اس کا نقشہ اتاریں پھر ہو بہو اسے قبولہ شریف آ کر تعمیر بھی کریں ۔ جب سجادہ نشین نے مزار بنانے کا کام شروع کیا تو مزار سے ملحقہ ایک دیوار پر بغداد شریف والا نقشہ خود بخود ابھر آیا جنہیں دیکھ کر کاریگروں نے حضرت سید شاہ موسی گیلانی ؒ کے مزارکو تعمیر کیا ۔ کام کرنے والے تمام کاریگر بطور خاص آپ ؒ کے مزار مبارک کے احاطے میں ہی دفن ہیں ۔ یہ اعزاز انہیں اس خوبصورت تعمیراتی کام کے طفیل حاصل ہوا ۔ پھر یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ ؒ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ سے ملاقات کے لیے پاکپتن تشریف لے جانا چاہتے تھے لیکن کوئی سوار ی میسر نہیں تھی ۔بہت انتظار کے بعد جب کوئی سبب پیدا نہ ہوا تو آپ ؒ نے اپنے آستانے کی دیوار پر بیٹھ کر اسے حکم دیا تو وہ دیوار ہوا میں اڑنے لگی اور چند ہی منٹوں میں آپ پچیس تیس میل دور پاکپتن جا پہنچے ۔

اسی طرح پاکپتن جس کا پرانا نام " اجودھن " تھا وہاں بھی حضرت عبدالعزیز مکی ؒ کا دربار عالیہ ہے ۔ جہاں مزار کے کتبے پر آپ ؒکے نام کے ساتھ صحابی رسول کالفظ بھی لکھا ہوا میں نے خود دیکھا ہے ۔ اس مزار میں دو چھوٹی بڑی قبریں موجود ہیں ۔ استفسار پر بتایا گیا کہ بڑی قبر میں حضرت عبدالعزیز مکی ؒ کا جسم مبارک دفن ہے جبکہ چھوٹی قبر میں آپ ؒ کا سر مبارک موجود ہے ۔یہاں اولیا ئے کرام کے اور بھی مزارات دکھائی دیئے لیکن پاکپتن کے حوالے سے سب سے مشہور اور معروف نام حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کا ہی لیا جاتا ہے۔ آپ ؒ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مریدوں میں شامل تھے ۔ آپ ؒکے بارے میں حضرت خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمبیری ؒ نے آپ ؒکے مرشد پاک حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ بابا بختیار ۔ تم نے تو ایک ایسے عظیم شہباز کو قید کرلیا ہے جس کی پرواز سدرہ المنتہی تک ہے ۔ ( بحوالہ سیر العارفین)

ایک اور روایت کے مطابق ایک رات خواب میں مرشد حضرت بختیار کاکی ؒ نے آپ ؒ سے مخاطب ہوکر فرمایا فرید ۔" اجودھن " جاؤ اور مشرکین کی اس بستی میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے ہوئے مخلوق خدا کو راہ حق کی طرف بلاؤ ۔ جہاں ہندو جاودگروں نے مخلوق خدا کو اپنے شر سے گمراہ کررکھاتھا۔ مرشد پاک کے حکم پر خواب کی حالت سے بیدار ہوتے ہی آپ ؒ نے قصبہ "اجودھن " کا رخ کیا جو دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر واقع تھا ۔ وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے اپنا مصلی بچھا کر یاد الہی میں مشغول ہوگئے ۔

ایک دن آپ ؒ درخت کے نیچے یاد اﷲ میں مصروف تھے کہ ایک ہندو عورت اپنے سر پر دودھ کا برتن رکھے وہاں سے گزری۔ آپ ؒ نے اس عورت سے پینے کے لیے کچھ دودھ مانگا لیکن اس عورت نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیں نے آپ کو دودھ دیا تو گاؤں کے جادوگر وں کی بددعا سے مجھے کون بچائے گا۔ ان کی بددعا سے میرے تمام مویشی ہلاک ہوجائیں گے ۔یہ سن کر حضرت بابا فریدگنج شکر ؒ نے فرمایا اس بات کی یقین دھانی میں تمہیں کرواتا ہوں کہ اگر تم مجھے کچھ دودھ دے دو تو تمہارے جانوروں کو کچھ نہیں ہوگا بلکہ تمہارے جانور پہلے سے بھی زیادہ دود ھ دیں گے ۔یہ سن کر اس عورت نے آپ ؒ کو دودھ دے دیا ۔ جب اس بات کا علم ہندو جادو گروں کو ہوا تو وہ اس جگہ آ پہنچے جہاں حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ عبادت میں مصروف تھے ۔ جب حق و باطل کا مقابلہ شروع ہوا تو باطل مٹ گیااور حق چھا گیا ۔ آپ ؒ کی دعا سے ان تمام جادوگروں اور جوگیوں کے پاؤں زمین نے جکڑ لیے اور وہ واپسی کے لیے آپ ؒ کے سامنے گڑگڑانے لگے ۔ آپ ؒ نے فرمایا صرف ایک شرط پر زمین تمہیں رہا کرے گی اگر تم یہاں سے بہت دور چلے جاؤ اور دوبارہ یہاں نظر نہ آؤ ۔جادوگروں اور جوگیوں نے گڑگڑا کر التجا کی کہ ان کے پاؤں زمین کی گرفت سے رہاکردیئے جائیں وہ اسی وقت اس قصبے کو خیر باد کہہ دیں گے ۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ نے ہاتھ اٹھا کر ان کی رہائی کے لیے دعا کی اور زمین نے ان کے جکڑے ہوئے پاؤں آزاد کردیئے۔اولیا اﷲ کی کرامت کو دیکھ کر وہ ہندو جوگی اور جادوگر قصبہ " اجودھن " کو خیر باد کہہ کر کسی اور جانب چلے گئے ۔ اسی وقت آپ ؒ نے اس قصبہ اجودھن کا نام تبدیل کرکے پاک پتن رکھ دیا۔ پاک کا مطلب پاکیزہ اور پتن کا مطلب دریا کا کنارہ ۔ یعنی پاکپتن دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر واقع ہے ۔

یہ سب کچھ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عارف والا سمیت یہ تمام خطہ ارضی اولیا اﷲ کی قدم بوسی اور فیضان حاصل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔گاؤں گاؤں شہر شہر اولیا اﷲ کی موجودگی اور نظر آنے والے مزارات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس علاقے سے ہندو مذہب اور بدھ مت کو جڑ سے اکھاڑنے کا فریضہ سوائے اولیا اﷲ کے اور کوئی انجام نہیں دے سکتا تھا ۔ اگر آج ہم خود کو مسلمان کہلواتے ہیں تو یہ بھی اﷲ کے انہیں بندوں کا فیضان ہے ۔جو کام مسلمان سپہ سالاروں نے میدان جنگ میں اپنی تلوار سے لیا وہی کام اﷲ کے نیک بندوں نے ذاتی کردار ٗ عمل صالح اور اپنی پاکیزہ زبان سے لیتے ہوئے برصغیر و پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو نور ہدایت سے منور کردیا۔

عارف والا پہلے ضلع ساہی وال ( منٹگمری ) کی سب تحصیل تھی جس کا فاصلہ یہاں سے 45 کلومیٹر ہے ۔1995 میں جب پاکپتن ضلع بن گیا تو عارف والا کو تحصیل کی حیثیت سے ضلع پاکپتن کا اضافہ بنادیاگیا۔ یہ شہر سطح سمندر سے 420 فٹ اونچائی پر واقع ہے ۔ تاریخی شواہد کے مطابق نئی رہائشی کالونیوں کی تشکیل کے لیے انگریز حکومت نے1920 میں ایک جامع سروے کیا جن میں چک نمبر 62/EB بھی شامل تھا۔ جسے بعد میں ولی کامل حضرت عارف شاہ ؒکی مناسبت سے نہ صرف عارف والا کانام دے دیا گیا ۔بلکہ یہاں ریلوے اسٹیشن ٗ کچہری ٗ تھانہ ٗ وٹرنری ہسپتال ٗسول ہسپتال ٗ سرکاری گیسٹ ہاؤس جیسی عمارتیں بھی تعمیر کی گئیں ۔

بعد ازاں شہر کے بالکل وسط میں پختہ اینٹوں سے ایک گول چوک تعمیر کیا جس کے درمیان میں پرانے وقتوں کا ایک کنواں بھی تھایہ کنواں مقامی لوگوں کے لیے پینے کا پانی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ تھا ۔ 1958 میں اس کنویں کو بند کردیاگیا لیکن گول چوک ٗ مین چوراہے کی صورت میں آج بھی موجود ہے ۔ انگریزوں نے اس چوراہے کے ارد گرد چار کشادہ بازار تعمیر کئے ۔ جن میں ریل بازار ٗ تھانہ بازار ٗ کارخانہ بازار اور قبولہ بازار شامل ہیں ۔

ریل بازار
ریل بازار تقریبا ایک کلومیٹر لمبا ہے جس میں بک ڈپو ٗ اسٹیشنری ٗ شوز سٹورز ٗ کلاتھ مرچنٹس ٗ ڈیپارٹمنٹل سٹورز ٗ میڈیکل سٹورز ٗ حکیم ڈاکٹرز اور فوٹو گرافرز کی دوکانیں موجود ہیں۔قریب ہی فروٹ اور سبزی منڈی بھی موجود ہے جہاں کبھی کچہری کی عمارت ہوا کرتی تھی جسے بعد میں پاکپتن روڈ پر منتقل کردیاگیا ہے ۔یہاں مسافروں کے لیے" سرائے " کی موجودگی زمانہ قدیم کی یاد دلاتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن عارف والا کو جانے والی اس سڑک کے شمال میں گندم اور دیگر اجناس کے بڑے بڑے گودام اور پٹرول کے ٹینکرز موجود موجود ہیں ۔

تھانہ بازار
تھانہ بازار جس کی لمبائی ڈیڑھ دو کلومیٹر ہوگی یہ انگریز دور میں بہت چھوٹا ہواکرتا تھا لیکن اب اس بازار کا شمار عارفوالاکے بہترین بازاروں میں ہوتاہے ۔یہاں حکیم ڈاکٹر ٗ ہارڈویر ٗ ہارڈ بورڈز ٗ ون بورڈز کی دوکانیں اور شہر کی سب سے قدیم جامع مسجد موجود ہے۔اس سے کچھ ہی فاصلے پر عارف والا شہر کو بجلی فراہم کرنے والا کالے ڈیزل سے چلنے والا پرانا بجلی گھر تھاجہاں سے چیل کی لکڑی کے 25 فٹ اونچائی والے پول عارف والا شہر کو بجلی کی سپلائی ممکن بنایا کرتے تھے۔اس بازار کے تقریبا آخر میں عارف والا کا مین اور واحد پولیس تھانہ ہے جس کے بائیں جانب کالج اور تحصیل کورٹس کی عمارتیں نظر آتی ہیں۔یہاں مقامی لوگوں کی تفریح و طبع کے لیے دو سنیما گھر ( نشاط اور نیلم ) موجود ہیں۔ڈنگر ہسپتال ( جہاں جانوروں کا مناسب علاج ہوتا ہے ) اور لیڈیز اینڈ چلڈرن پارک بھی ہے ۔

قبولہ بازار
قبولہ بازار درحقیقت قبولہ شریف ( جو یہاں سے آٹھ دس کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹی اینٹوں سے بنے ہوئے ایک تاریخی قصبے کا نام ہے ) کی مناسبت سے رکھاگیا ہے۔اس بازار کی لمبائی بمشکل ایک کلومیٹر ہوگی مگر اس بازار میں زرعی آلات کی بکنگٗ لوہے ٗ ہارڈ ویئر اور پلائیوں کے کاروبار کے علاوہ ڈینٹل سرجری ٗ عینکوں کی دوکانیں اور بڑی تعداد میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز موجود ہیں۔اسی بازار سے ملحقہ انگریز دور کا ایک گرجا گھر بھی ہے۔گرجاگھر سے منسلک ایک لائبریری کی عمارت ہے جہاں انگریز دور کا انگلش لٹریچر اور نہایت قیمتی کتابیں ٗشاعری اور ناول بھی موجود ہیں یہ لائبریری میونسپل کارپوریشن کے ماتحت چلتی ہے۔قبولہ بازار ختم ہوتے ہی چار مختلف پارکوں کے وسط میں میونسپل کمیٹی کی خوبصورت عمارت نظر آتی ہے ۔اسی میونسپل کمیٹی کے ذمے عارف والا شہر کا انتظام و انصرام ہے۔یہاں پانی والی بڑی ٹینکی کے قریب ہی سول ہسپتال کی عمارتیں ہیں جس سے کچھ ہی فاصلے پر گرلز اور بوائز ہائی سکولز موجود ہیں۔

کارخانہ بازار
یہ بازار وسطی گول چوک سے نیلی بار کاٹن ملز تک جاتا ہے ۔غلہ منڈی کے دو آہنی گیٹ بھی اسی بازار میں کھلتے ہیں جہاں رات دن ٹرکوں اور ٹرالیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ پنسار سٹورز ٗ جنرل سٹورز ٗ ہوٹلز ٗ دیسی نسخہ جات ٗ باربر شاپس ٗ جستی پیٹیاں و ٹرنک ٗ اٹیچی کیس ٗ چار پائیاں ٗ وان ٗ جھاڑو ٗ سٹیل و سلور اور پلاسٹک سٹورز کے علاوہ ضروریات زندگی کی ہر شے اس بازار میں بکتی ہے ۔اسی بازار سے ملحقہ عارف والا شہر کی اکلوتی لکڑی منڈی ہے جو انگریز دور میں قائم ہوئی تھی اور اب تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ دریائے ستلج ٗ قبولہ شریف ٗ چک ہوتہ و کلیانہ کے نواح سے لوگ شیشم اور کیکر کی لکڑیاں کاٹ کر ٹرالیوں میں بھر کے یہاں فروخت کے لیے لایا کرتے تھے ۔یہاں آنے والی لکڑی فرنیچر کی تیاری ٗ چھتوں کے بالے ٗ کڑیاں اور جلانے کے کام آتی تھی لیکن جب سے شہر میں سوئی گیس آئی ہے لکڑی کا یہ کاروبار بہت ماند پڑ گیا ہے ۔یہ بازار جب نیلی بار کاٹن ملز کے دروازے پر پہنچ کر ختم ہوجاتا تھا ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ نیلی بار کاٹن ملز کے اختتام پر 1947 کے بعد ایک " بستی غریب محلہ " کے نام سے بسائی گئی جس میں بھارت کے شہر فیروز پور ٗ جالندھر ٗ ہوشیار پور ٗ گورداسپور ٗ امرتسر ٗ لدھیانہ ٗ ریاست فرید کوٹ ٗ ریاست جلال آباد ٗ کلانور ٗ حصار ٗ رہتک ٗ گوڑگاؤں سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان آباد ہوئے ۔ اب پرانے شہر عارف والا کے نواح میں جدید طرز تعمیر سے آراستہ کالونیاں ( مظفر آباد ٗ گلشن اقبال ) کے نام سے آباد کی گئی ہیں جو شہر کے جنوب اور مشرق میں واقع ہیں۔
یہاں یہ ذکر بے محل نہیں کہ عارف والا شہر میں اس وقت کئی قومیں اور رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں ۔ ان میں اہل سادات سید ٗ بودلہ ٗ ٹکہ ٗ راجپوت ( رانگھڑ) ٗ رانا ٗ پٹھان ٗ جوئیہ ٗ وٹو فیملی کے لوگ آباد ہیں جبکہ لکھوکے ٗ بھنڈارہ فیملی ٗ ٹھیکو ٗ چشتی ٗ رول ٗ آرائیں ٗ بھٹی ٗ رسی وٹ ٗ جٹ ٗ کھوکھر ٗ مغل ٗ شیخ ٗ بٹ اور سکھیرہ قوم کے لوگ بھی موجود ہیں اور شہر کی ترقی و خوشحالی میں ان کا بھی کردار بہت اہم تصور کیاجاتاہے ۔لیکن یہاں نائی ٗ ماچھی ٗ لوہار ٗ ترکھان ٗ موچی ٗ جولاہے بھی ہیں جن کی ذات تو کچھ اور ہے لیکن وہ اپنے کاموں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔

زرعی اور صنعتی ترقی کے اعتبار سے بھی عارف والا شہر پنجاب کے کسی دوسرے شہر سے کم نہیں ہے ۔ یہاں مرغبانی ایک صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے ۔ تمباکو ٗ کھل بنولہ آئل کی پیداوار ٗ رائس ملز کے علاوہ زرعی آلات کی پیداوار کے حوالے سے عارف والا اوکاڑہ شہر کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے ۔یہاں کی مشہور مصنوعات اور سوغات میں مکئی ٗ آلو ٗ خربوزے ٗ گندم ٗ مونجی وغیرہ شامل ہیں ۔

عارف والا شہر میں موجود ایک عمارت کانام "ٹاؤن ہال " ہے اس عمارت کا افتتاح 28 نومبر 1933 کواس وقت کے گورنر پنجاب Sir Herbert William Emerson نے کیا تھا ۔جبکہ دلو والا بنگلہ اور ترکھنی بنگلہ کی تعمیر انگریز دور میں ہوئی ۔ پاکپتن کی بڑی نہر سے ایک چھوٹی نہر نکالی گئی جو عارف والا سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب شمال سے جنوب کی طرف بہتی ہے ۔ایک اور چھوٹی نہر عارف والا کے شمال سے قبولہ شریف کی طرف جاتی ہے جس کے کنارے پر انگریز دور میں ایک اور ڈاک بنگلہ ( دریا ڈنگ بنگلہ ) تعمیر کیاگیا تھا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے بلکہ عارف والا کے شہریوں اور قرب و جوار کے دیہاتیوں کے لیے ایک پکنک پوائنٹ کا درجہ رکھتا ہے جہاں تفریح کے دیگر مواقع کے علاوہ بچوں کی دلچسپی کا سامان بھی وافر مقدار میں موجود ہے ۔

خطہ نیلی بار کے حوالے سے شہرت رکھنے والا " عارف والا " شہر دریائے ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقے میں ایک صدی پہلے آباد ہوا تھا ۔ " نیلی بار " درحقیقت دریائے ستلج اور دریائے راوی کے درمیانی علاقے کو کہا جاتاہے ۔ تاریخی شواہد کے مطابق نیلی بار پنجاب کے ان علاقوں کو کہاجاتا ہے جن میں نہری نظام کی آمد سے پہلے گھنے جنگلات ہواکرتے تھے۔ ان علاقوں کی مٹی بہت زرخیز ہے کیونکہ یہ مٹی ہمالیہ سے بہنے والے دریا ( ستلج ٗ بیاس اور راوی ) اپنے پانی کے ساتھ بہا کر آئے تھے۔ جن علاقوں کو نیلی بار کا حصہ قرار دیاجاتا ہے ان میں ساہیوال ٗ اوکاڑہ ٗ پاکپتن اور چیچہ وطنی کے علاقے شامل ہیں۔ یہ علاقہ بھینسوں کی نسل ( نیلی راوی ) کے لیے بھی مشہور ہے جو باقی بھینسوں کی نسبت دودھ زیادہ دیتی ہے ۔

عارف والا کی قابل فخر شخصیات
عارف والا کی قابل فخر شخصیات میں سب سے نمایاں نام قاضی عبدالرحمن کا لیا جاتا ہے جو نہ صرف ایک ماہر حساب دان اور الجبرا و جیومیٹری کے ماہر تھے بلکہ ایک بلند پایہ نعت گو شاعر ٗ اور سوچنے اور سمجھنے والے انسان تھے ۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا نام انہی کی عظیم سوچ کا آئینہ دار ہے ۔نام تجویز کرنے کے عوض انہیں صدر پاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں گولڈ میڈل بھی عطا کیاگیا ۔ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن کا شمار بھی بلند پایہ شاعروں ا و رادیبوں میں ہوتا ہے جو لاہور ملتان کے ڈگری کالجوں میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے ۔۔ اس شہر کی ممتاز شخصیات میں الحاج میاں غلام احمد بودلہ کو بھی اہم مقام حاصل ہے جو علمی ادبی اور روحانی خوبیوں کے مالک تھے ۔ آپ کے صاحبزادے ممتاز ماہر خطاط ٗ عظیم مصور اور ممتاز گرافک ڈائزینر جناب سعیداحمد بودلہ کا شمار بھی عارف والا کے قابل فخر شخصیات میں ہوتاہے ۔جناب سعید احمد بودلہ اپنی تخلیقات کے اعتبار سے مصوری ٗ خطاطی ٗ اور ڈائزیننگ کے ہر شعبے میں ایک ممتا ز مقام رکھتے ہیں ۔ جناب سعید احمد بودلہ کو کیلی گرافی قرآنک بطور خاص اسما الحسنی کی پینٹنگ میں 22 سے زائد آرٹسٹک ٹیکنیکس استعمال کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں ان کی اسلامی کیلی گرافکس کو ڈسپلے کرنے کے لیے مین لائبریری میں ایک وسیع ہال مخصوص ہے اس کے علاوہ آپ کی خوبصورت پینٹنگز ایوان صدر ٗ وزیر اعظم سیکرٹریٹ ٗ گورنر ہاؤس کے ساتھ ساتھ ملک کے چاروں صوبوں کی یونیورسیٹوں میں نمایاں حیثیت میں آویزاں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جناب سعیداحمد بودلہ کو اپنی زندگی میں جس قدر بھی کامیابیاں ملی اور اسلامی کیلی گرافی میں انہیں جو اعلی مقام حاصل ہوا ہے وہ ان سب کا کریڈٹ عارف والا شہر ٗ اپنے استاد قاضی عبدالرحمان اور ڈرائنگ ٹیچر محمد اشرف کو دیتے ہیں ۔

تحریک پاکستان کے فعال کارکن پیر انور عبدالعزیز چشتی ٗپروفیسر صدیق قمر ٗ اشرف نذیر ٗ ابوبکر جٹ ٗ عثمان شیخ ٗ جنید صغیر ٗ جنید صغیر اور زاہد محمود ( تعلیم ) ٹکا محمد خان( سیاست ) ٗ شیخ محمداکرم بار ایٹ لا ٗ حامد رانا ( اداکار ڈرامہ سونا چاندی) ٗ سرور سکیھرہ ( صحافی ادیب ) ٗ رضوان عظیم ( آرکٹیکٹ اور پروفیسر پنجاب یونیورسٹی ) ٗ یونس متین ( شاعر ادیب و پروفیسر)اے نیر ( گلوکار ) ٗ میاں ممتاز احمد جوئیہ ( سابق ایم ایل اے ) ٗ محمد طفیل خان ( مینجر نیلی بار کاٹن ملز)ماسٹر محمد اشرف ( مصور ) ٗ محمود فریدی ( کالم رائٹر و ایڈووکیٹ ) ٗ شیخ صلاح الدین ( میڈیکل شعبہ ) ٗ میاں سرفراز احمد بودلہ ( حکیم ٗ مصنف اور لا گریجویٹ ) ٗ میجر طفیل محمد شہید ( نشان حیدر ) جنہوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑتے ہوئے 1958 میں جام شہادت نوش کیا اور سب سے پہلا نشان حیدر حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ان کا گاؤں ( گگو منڈی ) بھی عارف والا کے دائرہ کار میں آتا ہے ۔سید ابرار الحسنین شاہ ترمذی ( مصور ) ٗ سید ضیا الحسنین شاہ ترمذی ( فوج ) ٗ میجر فاروق ورک ( فوج ) یہ تمام سرزمین عارف والا کے ماتھے کا جھومر ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں مقام حاصل کیا ۔

علاوہ ازیں ڈاکٹرز ٗ انجنیئرز ٗ افواج پاکستان ٗ ائیر فورس ٗ پاک بحریہ ٗ شعبہ طب ٗ مصوری ٗ وکلا ٗ سول سروس ٗ محکمہ پولیس ٗ عدلیہ ٗ قومی و صوبائی اسمبلی ٗ لیکچرر ٗ شعبہ تعلیم ٗ علما و فضلا ٗ ٹیکنیشنز و میکنکس ٗ بزنس مین ٗ بینکار ٗ کھلاڑی ٗ اداکار ٗ صحافی ٗ کالم رائٹر ٗ شاعر و ادیب ٗ زمینداری ٗ گلوکاری ٗ تعمیرات کے شعبوں میں بھی عارف والا بہت زرخیز دکھائی دیتا ہے ۔

بے شک میں عارف شہر میں تو پیدانہیں ہوا لیکن یہ شہر مجھے اس لیے عزیز ہے کہ یہ میرے ننھیال کا شہر ہے۔ ماں اور باپ کے بعد مجھے جس عظیم رشتے سے سب سے زیادہ پیار تھا وہ رشتہ " نانی " کاتھا اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ ہمیں بے حد پیار کرتی تھیں ۔ ہماری کوتاہیوں ٗ غلطیوں کو ہمیشہ صرف نظر کرجاتیں ۔ جبکہ نانی کے گھر میں ہمیشہ ہمیں ایک معزز مہمان کا درجہ حاصل تھا ۔ نانی کی اجازت کے بغیر ہمیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا تھا ہماری وجہ سے نانا ( سردار خان ) اور نانی ( فاطمہ بی بی ) کی جنگ بھی ہوجاتی لیکن کامیابی ہمیشہ نانی کے ہی قدم چومتی رہی ۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ 1947 میں میرے نانا ( سردار خان ) ٗ ان کے بھائی ( بہار خان ) اور دیگر لوگ بھارت کے شہر فرید کوٹ سے ہجرت کرکے عارف والا میں آبسے تھے یہاں میرے نانا کو فرید کوٹ کی جائیداد کے عوض کچھ زمین الاٹ ہوئی تھی ۔یہیں پر میری نانی کے بہن بھائی فتح محمد خان ٗ عطا محمد خان چک 45 میں آکر آباد ہوئے تھے۔ یہاں آنے کے بعد نانا سردار خان سبزی منڈی میں منشی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ جبکہ میرے والد ( محمد دلشاد خان لودھی ) نے کچھ عرصہ یہاں مٹھائی کی دوکان پر ملازمت بھی اختیار کیے رکھی۔ لیکن پھر ریلوے میں ملازمت اختیار کرکے عارف والا کو جزوی طور پر خیر باد کہہ دیالیکن ننھیال کی وجہ سے ہمارا عارف والا سے رشتہ کبھی کمزور نہیں ہوا ۔

بلکہ عارف والا شہر ہمیں آج بھی پاکستان کا خوبصورت ترین شہر دکھائی دیتا ہے ۔ جی تو چاہتا تھا کہ اس مقدس سرزمین پر( جہاں میری نانی نانا ماموں اور خالائیں چلا پھرا کرتی تھیں) ننگے پاؤں دھول اڑاتا پھروں۔ اب زمانہ بدل جانے کی وجہ سے اس شہر کی گلیاں بھی پختہ ہوچکی ہیں لیکن کہیں کہیں اب بھی پرانی طرز کے چند مکانات دکھائی دیتے ہیں جن کو دیکھ کر انسان ماضی میں لوٹ جاتا ہے۔

عارف والا میں ہمارا قیام صرف آٹھ گھنٹے رہا اور ہمارا زیادہ تر وقت برادر م سہیل اختر کے خوبصورت گھر " الجنت " ہی رہا لیکن اس شہر کی مٹی سے اٹھنے والی وہ خوشبو ہمیں اپنی اہمیت کا احساس ضرور کرواتی رہی بلکہ ذہن بار بار ماضی کے دریچوں میں اترنے کے لیے مچلنے لگتا ۔ عارف والا کا وہ ریلوے اسٹیشن ٗ وہ کچی پکی گلیاں ٗ غریب محلہ کا وہ کچا مکان جہاں ہماری پیاری نانی نانا دو چاند جیسے مامو ں رہتے تھے اس گھر اور اس میں رہنے والوں کو آخری سانس تک نہیں بھول سکتا ۔ بے شک اب زمانہ بدل چکا ہے عارف والا شہر بہت ترقی کرچکا ہے اس کی گلیاں ٗ راستے اور بازار جدید طرز زندگی کو اپنا چکے ہیں لیکن مقدس رشتوں کی وہ کسک اور خوشبو کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔جی تو چاہتا تھاکہ اولیا اﷲ کا فیضان حاصل کرنے والے عارفوں کے اس شہر میں او ر قیام کرتا لیکن منگنی کی تقریب کے اختتام پر لاہور واپسی کے سفر کا آغاز بھی تو ہونا تھا۔ اتوار کی صبح لاہور سے روانہ ہوئے اور رات ساڑھے دس بجے واپس لاہور پہنچ گئے لیکن عارف والا شہر دیکھنے کی حسرت بیس سال بعد پوری ہو گئی ۔جو یادگار لمحات کی صورت میں مجھے ہمیشہ یاد رہے گی ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.