جانے کی باتیں ، سینے کے راز اور سیاسی کڑمس

مثنوی رومی میں مولانا جلال الدین رومی ؒلکھتے ہیں کہ ایک بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ ایک شخص سفر کر رہا تھا، اُسے خیال آیا کہ سنہری موقع ہے کیوں نہ عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی ایسا عمل سیکھ لیا جائے جس سے پتھر سے سونا بن جائے اور مردے زندہ ہو جائیں ، اُس نے پیغمبر خدا سے عرض کیا،’’یا حضرت! مجھے آج کوئی ایسا عمل بتا دیں جس سے میرا بھی کوئی فائدہ ہو جائے، مثلاً پھونک مار کر مردوں کو زندہ کردوں‘‘، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے حد افسوس ہوا کہ یہ شخص جو خود بیمار اور مردے سے بدتر ہے اُسے اپنی فکر نہیں، یہ چاہے تو میری رفاقت سے اپنے مردہ دل کا علاج کر سکتا ہے مگر یہ تو کچھ اور ہی طلب کر رہا ہے، اس کا حال اُس شخص جیسا ہے جو ایک ہی دن میں تخت و تاج حاصل کرنا چاہتا ہے، آپ نے اُسے فرمایا’’چپ رہو، یہ تم جیسے لوگوں کے کام نہیں، اس کے لیے تو عمریں گزر جاتی ہیں، پہلے روح کی آلائشوں کو دھونا پڑتا ہے، تو نے عصا تو ہاتھ میں لے لیا ہے مگر یہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوگا تو اِسے پھینک کر اژدھا بنایا جاسکے گا، یہ کام ہر شخص کا نہیں‘‘۔ اُس شخص نے دوباری بڑی منت سماجت کرتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ مجھے یہ راز نہیں بتانا چاہتے تو میری ایک درخواست تو قبول فرمائیے، مجھے کسی مردے کو زندہ کر کے دکھا دیجئے‘‘، دورانِ سفر کچھ دور آگے جا کر ایک گڑھا نظر آیا جس میں کچھ ہڈیاں تھیں، اُس شخص نے عرض کیا، ’’یاحضرت! ان ہڈیوں پر پھونک مارئیے‘‘، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اُس کے بار بار اصرار پر اﷲ کا نام پڑھ کر اُن ہڈیوں پر پھونک ماری تو وہ ایک سیاہ شیر بن کر سامنے آگیا، شیر اُسی شخص پر جھپٹا اور اُسے مار ڈالا، حضرت عیسیٰ علیہ السام نے شیر سے پوچھا کہ اُس نے ایساکیوں کیا تو شیر بولا یہ آپ کو تنگ کر رہا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا تم نے اس کا خون کیوں نہیں پیا تو شیر نے جواب دیا اول تو اس کی گستاخیاں بڑھ رہی تھیں، دوسرا اب اس دنیا کا رزق میرے نصیب میں نہیں تھا اس لیے میں ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ مولانا رومی کہتے ہیں کہ بے وقوف لوگ اپنی غلط حرکتوں اور چالاکیوں کی وجہ سے اپنے لیے پریشانیاں خود پیدا کرتے ہیں، ایسا ہی کچھ حال شریف فیملی کے ساتھ ہوا ہے، شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداریاں ثابت کرنے والوں نے آج اُنھیں یہاں لا کھڑا کیا ہے، شائد جس کاوہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

عزت اور ذلت تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے مگر پچھلے ڈیڑھ سال سے دنیا بھر میں شریف فیملی کی جگ ہنسائی اور عجب کرپشن کی غضب کہانی عوام کے ذہن بدلنے کے لیے کافی ہے، شریف فیملی کی بے تحاشہ دولت، محلات اور دنیا بھر میں جائیدادیں، بینک بیلنس تو اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، پانامہ لیکس کا تمسخر اُڑانے والے درباریوں اور خوشامدیوں نے اپنی طمع نفسانی کی خاطر میاں محمد نوازشریف کو سپریم کورٹ دھکیل کر عیسیٰ علیہ اسلام کے شیر کو زندہ کرنے کی کہانی دہرا دی ہے۔ جیسا کہ مہذب معاشرے میں ہوتا ہے کہ وزیراعظم پر الزام لگنے پر استعفیٰ دے دیا جاتا تو آج نوازشریف قوم کیلئے ایک دفعہ پھر ہیرو ہوتے، نہ جانے کی باتیں ہوتی نہ قوم کے راز بتانے کی ضرورت محسوس ہوتی، اب جے آئی ٹی میں پے در پے پیشیوں پر نہ صرف شریف خاندان بلکہ ان کے حواری بھی چکرا گئے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ جے آئی ٹی دورانِ تفتیش ان سے کیا سوالات پوچھتی ہے کہ جو بھی اندر سے باہر آتا ہے اس کے تیور بدل جاتے ہیں، ہوائیاں اُڑی ہوتی ہیں، چہرے اُترے ہوئے ہوتے ہیں، بوکھلاہٹ صاف نظر آرہی ہوتی ہے، اس وقت وزیراعظم کے بعد طاقتور ترین وزیر اسحق ڈار کا جے آئی ٹی پیشی کے بعد لب و لہجہ پاکستانی عوام کو حیران و ششدر کر گیا، اس دن سے ایک نئے ’’سیاسی کڑمَس‘‘ کا آغاز ہو گیا ہے، اب الفاظ کی جنگ طعن و تشنیع نے عجیب صورتِ حال اختیار کرلی ہے، نئی نسل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں ، سوشل میڈیا پر جو زبان بولی جا رہی ہے، ایک دوسرے پر بازی لینے کیلئے ماؤں بہنوں تک کو معاف نہیں کیا جارہا ، کونسا مہذب معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے، اخلاقیات کی دھجیاں نہیں اب تو جنازہ نکال دیا گیا ہے، ابھی تک تو اسحق ڈار کی تیز و تند اور تلخ گفتگو پر بحث جاری تھی کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نوازشریف نے اپنے پر وقار انداز میں صحافیوں کے سامنے زبردست پرفارمنس دی، نپا تلا لب ولہجہ، ایک ایک لفظ ناپ تول کر ، بوکھلاہٹ کا شائبہ تک نہیں تھا مگر جو ڈائیلاگ ڈلیوری تھی اس کے اندر جھانک کر ایک پاکستانی کانپ جاتا ہے کہ ہمارے صاحب ِاقتدار اس حد تک بھی گر سکتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ ہوا تو ہم ملک و قوم کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کریں گے، اپنے سینوں میں دفن ملک و قوم کے راز اُگل دیں گے، اتنی بڑی بلیک میلنگ کی دھمکی نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، قوموں اور ملکوں کے لیڈر اور حساس عہدوں پر کام کرنے والے اپنی گردنیں کٹوا لیتے ہیں مگر اپنے راز نہیں اُگلتے، ابھی تک تو ہوا ہی کچھ نہیں اور اتنی بڑی دھمکی دال میں کچھ کالے کا عندیہ دے رہی ہے، حالانکہ ابھی جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئی، سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ نہیں دیا مگر جو زبان بولی جارہی ہے، سیاست کو جس نہج پر لیجایا جا رہا ہے، ملک میں خانہ جنگی کی فضا بنائی جارہی ہے، اب شائد الفاظ کے گولہ بارود کا ذخیرہ اختتام کو پہنچنے والا ہے اور ایک دوسرے پر حملے اور مار کٹائی کا آغاز ہونے کو ہے، اس ’’سیاسی کڑمَس‘‘ میں عوام ایک عجیب کشمکش کا شکار ہیں، ایک عام آدمی کو معمولی جرم میں جس وقت چاہے قانون حرکت میں آکر ہتھکڑیاں لگا کر اُس کے بچوں، رشتہ داروں اور محلہ داروں کے سامنے بے عزت کرتا رہتا ہے مگر حکمران ٹولہ جو پروٹوکول کے جھرمٹ میں شاہی سواریوں پر شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ ٹی وی کیمرو ں کے سامنے معمولی پیشیوں پر اس قدر سیخ پا ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کی عزت اور وقارکو بھی داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا، مسلمان ہونے کے ناطے اس پر کف ِافسوس تو بنتا ہے کیونکہ کائنات کے امام احمد مجتبیٰ سرور کائنات حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ ’’لوگو! اگر میری بیٹی فاطم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ آج ہم کون سے مسلمان ہیں اور کس اسلام کے داعی ہیں جو اپنے ہی دین کا تمسخر اُڑا کر غیر مسلموں کیلئے کیا نمونہ پیش کررہے ہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطی باعث ِشرم اور باعث ِندامت بھی ہے۔

پاکستانی عوام کی اکثریت روز روز کے سیاسی تماشہ سے تنگ آچکی ہے، ہماری بزرگ کہلوانے والی نسل یہ سوچ کر مرتی جارہی ہے کہ ہم نئی نسل کو کیا منتقل کررہے ہیں، پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز اور اخبارات کی سرخیوں کے ذریعے کیسی قوم کی بنیاد رکھ رہے ہیں، کس پر اعتبار کریں گے، کس سے مسیحائی چاہیں گے، تیس سال سے حکمرانی کے تخت پر بیٹھنے والوں کو جانے کی باتیں زہر لگتی ہیں، راز افشا کرنے تک کی دھمکیاں تاریخ کے ریکارڈکا حصہ بن چکی ہیں ،میرے خیال میں اب قوم کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے جو ہونا ہے وہ ہو جانا چاہئے، ملک و قوم کو بچانے کے لیے بعض اوقات کڑوے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، اب فیصلے کی گھڑی اور وقت ہے، فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ اب کرپشن اور کرپٹ افراد کے ساتھ ہم نہیں چل سکتے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے، مقبول فیصلے ہی ہمیشہ قوموں کی یک جہتی اور سرفرازی کا سبب بنتے ہیں، جب بے رحمانہ احتساب کی تلوار اوپر چلے گی تو نیچے کرپشن ختم کرنے کیلئے کسی واعظ و تبلیغ کی ضرورت نہیں رہے گی، پھر دیکھنا پاکستان کا یہ خطہ جو قدرتی انعامات سے مالا مال ہے، آسمانِ دنیا پر کیسے جگمگاتا ہے۔
 

Attique Yousuf Zia
About the Author: Attique Yousuf Zia Read More Articles by Attique Yousuf Zia: 30 Articles with 25377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.