باپ کی لاش سامنے پڑی اور سوگوار مرد و زن کے بیچ 9سال کا
بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے اور نعرے لگا رہا ہے ’’ ہم کیا چاہتے؟‘‘
آزادی، پھر اپنے باپ کا نام لے کر پکارتا ہے ’’عثمان تیرے خون سے، انقلاب
آئے گا‘‘ ۔’’ زندہ ہے عثمان، زندہ ہے‘‘ انہی نعروں کے بیچ بچے کی نگاہ باپ
کے جسد خاکی پر پڑتی ہے،باپ کی محبت دل پر خنجر کا سا وار کرتی ہے اور وہ
آبدیدہ ہو کر اور بازو آنکھوں پر رکھ کر رونے لگتا ہے، ساتھ ہی ماحول میں
افسردگی چھا جاتی ہے اور نعرے لگاتے سبھی لوگ رونا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ منظر اسی ہفتے کے اس مقبوضہ کشمیر کا ہے جہاں بھارت 70سال سے سر پٹخ رہا
ہے کہ وہ اپنے مقابل کشمیریوں کا تنا ہوا سر کسی طرح جھکا لے لیکن وہ اس
میں آج تک ذلیل و خوار ہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں دکھائی دینے والا یہ منظر نہ پہلا ہے اور نہ آخری۔جب
کشمیری مائیں شہید بیٹوں کی لاشوں کے ٹکڑوں پربھی رونا چھوڑ دیں اور انہیں
دولہا بنا کر اور دودھ پلا کر قبر کی جانب رخصت کرنا اپنا اعزاز سمجھیں تو
پھر انہیں کون ہرا سکتا ہے؟بہنوں کو سب سے بڑا انتظار اس دن کا ہوتا ہے جب
ان کا بھائی دولہا بنے اور وہ اس کی شادی کی خوشیاں منائیں لیکن کشمیری
نوجوانوں کی بہنیں اب اپنے ویروں کی لاشوں کے پاس بیٹھ کر ان کی شہادت پر
آزادی کے نعرے بلند کر رہی اور سارا جہاں بھارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا
کر بھی اسے کامیاب کرنے میں ناکام ہے۔
کہاں یہ نہتے کشمیر ی اور کہاں بھارت اور اس کے ساتھ ساری دنیا سمیت
امریکہ! لیکن سب مل کر بھی کشمیریوں کاکچھ بگاڑ نہیں کر پا رہے۔کبھی بھارت
کا وزیراعظم کشمیریوں کو مارنے کی دھمکی دیتا اور کبھی اس کی فوج کا سربراہ
انہیں مٹا دینے کی باتیں کرتا ہے تو اس کی فوج اس سب پر دن رات عمل درآمد
کرتی ہے لیکن بات نہیں بن پا رہی۔زیادہ دور کیا جائیں ،چند سال پہلے ہی
توبھارت کہا کرتا تھا کہ کشمیری نوجوان اس کے زیر قبضہ علاقے سے آزاد کشمیر
جاتے ،جہادی تربیت لیتے اور پھر واپس آ کر حملے کرتے ہیں تو پاکستان سے بھی
کچھ نوجوان ان کے ہمراہ آکر یہی کام کرتے ہیں۔انہیں روکنے کے لئے آزاد و
مقبوضہ کشمیر کے بیچ خونی لکیر(کنٹرول لائن) پر بھارت نے پچھلے25سے30سال کے
عرصے میں دنیا بھر سے جو کچھ مل سکتا تھا ،وہ سب یہاں لا کر تہ در تہ ڈھیر
کر ڈالا۔دنیا کے مضبوط ترین مورچے بنا ڈالے۔معمولی بندوق اٹھائے اور ننگے
پاؤں ان نوجوانوں کے مقابل زمینی ساز و سامان نامراد ہوا تو پہلے امریکی
تقلید میں ڈرون منگوا لئے اور پھر خلائی سیاروں سے دن رات ایک ایک ذرے کو
چھاننا شروع کر دیا ۔ہر انچ پر باردودی سرنگیں بچھائیں، مضبوط ترین خار دار
تاروں کی کئی کئی رکاوٹیں کھڑی کیں تو ان کے ساتھ سریے کی دیواریں لا کھڑی
کیں۔ان پر کیمرے لگائے ،سنسرز نصب کئے ،پیدل گشت تیز تر کیا لیکن پھر بھی
ساری دنیا کے سامنے فریادیں اور آہ و بکا پہلے سے بڑھ کر ہے کہ لشکر طیبہ
والے 2سے 4بجے آتے اور کنٹرو ل لائن سے بھی کہیں زیادہ حفاظتی حصاروں میں
گھرا پورے کا پورا کیمپ اڑا کر اور اس کی فوجوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر
بحفاظت نکل جاتے ہیں۔پہلے بھارتی فوج بین ڈال ڈال ساری دنیا کے سامنے روتی
ہے، پھر اس کے افسران ، اس کا آرمی چیف اور پھر اس کا وزیر اعظم کہتے ہیں
کہ ’’مجاہد آتے ہیں، مار کر چلے بھی جاتے ہیں،ہم کریں تو کیا کریں؟ ‘‘
بھارت کے دن رات اسی رنڈی رونے کو دیکھ کر امریکہ نے اسے پہلے کہا کہ
افغانستان میں ہماری جگہ سنبھالو،ٹھیکے داری کروتو ہم تمھارا کچھ کام کر
سکتے ہیں۔سو امریکہ اور پھر اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے حافظ محمد سعید
اور ان کے رفقاء پر ہر ممکنہ پابندیاں لگانے کا کام شروع کر دیا۔بھارت کو
کچھ اطمینان ہوا اور اس نے افغانستان میں اپنے فوجی اور مزدور اتارنے شروع
کر دیئے لیکن یہ کیا ؟افغانستان میں بھارتی فوج اور ٹھیکیداروں کے یوں
پرخچے اڑنے شروع ہوئے کہ ہندو بنیے نے دھوتی سنبھالے بغیر پیچھے دیکھے بغیر
سرپٹ دوڑ لگا دی۔وہ ابھی تک اس سمجھداری کا ضرور مظاہرہ کر رہا ہے کہ
دوبارہ فوج بھیجنے پر تیار نہیں کہ مبادا چالاک لومڑی کے ہاتھوں گیدڑ کی
شکل میں بوڑھے شیر سے جنگل کی بادشاہت لیتے کان کٹوانے کے بعد کہیں جان ہی
نہ دے بیٹھے۔ امریکہ اسے دوبارہ پھانسنے کے لئے اپنا ہر دام پھیلا رہا ہے
۔اسی سلسلے میں اس نے مودی کی واشنگٹن آمد سے پہلے اس سید صلاح الدین کو
عالمی دہشت گرد قرار دے ڈالا جنہوں نے آج تک سوائے کشمیر کے کہیں اور کسی
مشن یا ایجنڈے کا نام ہی نہیں لیا۔نریندر مودی واشنگٹن پہنچا تو ڈونلڈ ٹرمپ
کو اس کی ڈالی جپھی سے ہی اس کے اندر کا حال نمایاں تھاکہ مائی باپ!
کشمیریوں سے بچالو۔ٹرمپ نے اسے یقین دہانی توکروائی لیکن اسے یقین کیسے
آتا، اسی لئے مودی نے اگلا قدم امریکہ کے اصل و حقیقی باپ سمجھے جانے والے
یہودی اسرائیل میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔یہاں پہنچ کر مودی کو کچھ یقین آیا
کہ نیتن یاہو نے اسے لشکر طیبہ کے خلاف کھل کر مدد دینے اور اسے حماس کے
مماثل قرار دینے کی بات کی تھی۔وہی لشکر طیبہ جس کے تین کمانڈروں ماجد
زرگر، جنید احمد متو اور بشیر احمد لشکری کو شہید کر کے مودی کا وزیر دفاع
اپنی بڑی کامیابی کا نقارہ تو ضرور بجارہا تھا لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ
کہانی اتنی مختصر نہیں ،جتنی وہ سمجھے بیٹھے ہیں۔بھارت ابھی تک برہان وانی
کے جنازے سے خوفزدہ تھا جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تھے تودنیا کی تاریخ
میں پہلی بار ایک ہی جگہ بے پناہ ہجوم کے باعث ایک ہی شخصیت کا 47بار جنازہ
ادا کیا گیا تھا۔اس کے بعد سال مکمل ہوتے ہی کشمیریوں نے بشیر لشکری پرفدا
ہونے کا ریکارڈ قائم کر دیا تھا ۔بشیر لشکری کو محاصرہ سے نکالنے کے لئے
جہاں کئی کشمیری عورتیں بچے کٹے مرے تھے، وہیں محاصرے کے مقام تک بھارتی
فوج کو روکنے کیلئے غریب کشمیریوں نے راستوں میں اپنی ناتواں گاڑیاں کھڑی
کر دی تھیں۔ بھارتی فوج ایک عرصہ سے ایسی انتہائی طاقتوربلٹ وبلاسٹ پروف
گاڑیاں استعمال کر رہی ہے جیسی امریکہ کے علاوہ کوئی اور استعمال نہیں
کرتا۔ان چلتے پھرتے فولادی قلعوں سے معمولی کاروں کو روند کر ہی بھارتی
فوجی آگے بڑھ پائے تھے لیکن کشمیریوں نے نمرود کے مقابل اس پرندے کی فہرست
میں اپنا ضرور نام لکھوا لیا کہ جو نارِ نمرود بجھانے کے لئے چونچ میں پانی
کا قطرہ لاتا اور تا حد نگاہ پھیلے الاؤ پر پھینک دیتا تھا ،پھر دنیا نے
دیکھا کہ نارِ نمرود بالآخر بجھ گئی اور حق کا پرچم اٹھانے والے کمزور و
ناتواں تن تنہا کامیاب ٹھہرے تھے۔
بھارت تسلیم کر رہا ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد اعلیٰ تعلیم یافتہ
نوجوان بڑی تعداد میں بندوق اٹھا رہے ہیں ۔ان میں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر بھی
شامل ہیں تو 15سال کی عمر رکھنے والے معصوم بچے بھی ۔ایسا ہی ایک بچہ برہان
وانی تھا جس نے 15سال کی عمر میں گھر کے بہترین عیش و آرام کو چھوڑ چھاڑ کر
پہاڑوں اور گھاٹیوں میں سردی گرمی کی فکر کو تج کر کے ٹھکانہ بنا لیا
تھا۔بھارت آج اس برہان کی قبر سے بھی خوف کھاتاہے۔اس پر بھی لاکھوں فوجیوں
کے پہرے بٹھاتا ہے۔اس کے چنگیز و ہلاکو کی تاریخ دہراتے فوجی اور افسر جب
تھک ہار جاتے ہیں توفریاد کناں ہوتے ہیں کہ کشمیری طلبہ بندوق چھوڑیں
اورلیپ ٹاپ کا راستہ اپنائیں۔پھر کہہ اٹھتے ہیں، بندوقیں چھوڑ دیں اور گھر
لوٹ آئیں تو انہیں آرام و عیش کی زندگی ملے گی۔بھارت کچھ بھی کر لے ،اسے اب
نوشتہء دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔نہ
نمرود رہا اور نہ نار ِ نمرود کا نام و نشاں۔ بھارت کا پچھلا باپ سوویت
یونین بھی نہ رہا اور اس کا موجودہ باپ امریکہ بھی افغانستان میں روز خون
کے آنسو روتا ہے ۔یقین نہ آئے تو 13 جون 2017ء کا امریکی وزیر دفاع جم میٹس
کا بیان ابھی پھر سے پڑھ لیں جو اس نے کہیں اور نہیں کانگریس کے سامنے دیا
تھا ’’ہم اس وقت افغانستان میں جیت نہیں رہے ہیں‘‘
بھارت کے پاس ابھی کچھ وقت ہے کہ وہ اپنے باپوں سے سبق سیکھ لے ورنہ تاریخ
تو دہرائے جانے والی ہے اور مظلوموں کاخون ہمیشہ کی طرح ظالموں کو تاریخ
میں عبرت کا نشان بنا کر انہیں بہا لے جانے والا ہے۔ |