صہیونی انتہا پسندوں نے ارض مقدس پر اپنے مذموم مقاصد کو
حتمی شکل دینی شروع کردی ہے ،جس کے تحت مسجد اقصٰی پر مکمل کنٹرول اور ہیکل
سلیمانی کی تعمیر کرنا شامل ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی قابضوں نے 14
جولائی کوانسانیت، مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کے تسلسل
برقرار رکھتے ہوئے تاریخ میں دوسری بار نمازیوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی
سےروک دیا، اس موقع پر اسرائیلی پولیس نے نماز کے لیے آنے والے مفتی اعظم
القدس الشیخ محمد حسین، مسجد اقصیٰ کے خطیب اور سابق مفتی اعظم الشیخ عکرمہ
صبری اور کئی دوسری سرکردہ شخصیات کو حراست میں لے لیا تھا تاہم بعد ازاں
انہیں رہا کر دیا گیا،جب کہ مسجد اقصی میں نماز کی ادائیگی کا مذہبی حق
رکھنے والے فسلطینی نوجوانوں کا راستہ روکنے کے لیے غاصب اسرائیلی اہلکاروں
نے تشدد کا راستہ اپناتے ہوئے فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا ،جس کے نتیجہ میں
اور اُم الفحم شہر سے تعلق رکھنے والے تینوں فلسطینی نوجوان 29 سالہ محمد
احمد جبارين ،19 سالہ ہم عمر ،محمد عبد اللطيف جبارين اور محمد احمد مفضل
جبارين جام شہادت نوش کرگئے ،اس افسوس ناک واقعہ کے فورا بعد قابض اسرائیلی
فوج نےمسجدِ اقصی کو تاحکم ثانی بند کردیا اور بیت المقدس شہرکے اولڈٹاؤن
کی مکمل ناکا بندی کرکےاسےباقی شہر سےعلیحدہ کردیااور یوں 48 سال کے ایک
بار پھر مسلمانوں کو مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا ،یاد رہے
کہ یت المقدس 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے
قبلۂ اول کو آگ لگادی تھی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں
رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑااور محراب میں
موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے
بعد نصب کیا تھا۔جب کہ بارہویں صدی عیسویں کے مشہور یہودی فلسفی موسی بن
میمون نے اپنی کتا ب شریعت یہود میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ
فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے۔
اسی طرح اسرائیل نے موقع سے فا ئدہ اٹھاتے ہوئے مسجد اقصی پر اپنی گرفت
مضبوط کرنے اور تسلط کے اقدامات کرنے شروع کردئیے ہیں ،میڈیا رپورٹس کے
مطابققابض اسرائیلی حکام نے مسجد اقصی میں کیمروں اور دھاتوں کا انکشاف
کرنے والے آلات کی تنصیب کا کام شروع کر دیا ہے،جس کی مخالفت ایک عرصہ سے
فلسطین اور اردن کی جانب سے کی جارہی ہے ۔
حالیہ واقعات پر جہاں ایک طرف پوری دنیا کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ
پایا جارہا ہے ،وہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ضمیروں اوران کی غیرت
ایمانی کو بھی جھنجوڑ رہی ہے ،بلاشبہ عالم اسلام انتشار کا شکار ہونے کے
باوجود فلسطینی نوجوانوں نے عزم و استقلال ،جہد مسلسل اور غاصب صہیونیوں کے
خلاف مزاحمت کو جاری رکھا ہوا ،ایسی صورت حال میں بحیثیت امت مسلمہ کا فرد
ہونے کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر تائید
کریں اور انہیں ان کا حق دلانے میں اپنامؤثر کردار ادا کریں۔
|