آزادکشمیر میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور نئی اصلاحات کی امیدیں

پاکستان کے سیاسی معاشی اقتصادی حالات ہوں خوشی ہو یا غم ہو پورے ملک کی طرح آزاد کشمیر گلگت بلتستان کے عوام اور حالات پر بھی ایک جیسے اثرات ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے روح جسم کی طرح جڑے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں سکتے تو پھریہ کس طرح ممکن ہے قومی جماعتوں کی دونوں خطوں کی قیادت کارکنان اپنی اپنی قیادت اور جماعتوں سے لا تعلق رہے ۔ یہاں موجود اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کارکنان کے بھی اپنی قیادتوں کے موقف کے مطابق جذبات ہیں تو مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم فاروق حیدر بھی بیرون ملک دورہ مختصر کر وطن واپس پہنچ گئے ہیں جنہوں نے بیرون ملک جاتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے سے پہلے ہی اپنے قائد نواز شریف کی حمایت کو پاکستان ملت پاکستان کی سلامتی ، ترقی حوشحالی کے مصداق قرار دیا تھا تو اب مزید شعلہ بیانی فرمائیں گے، ان کی عدم موجودگی میں قائمقام وزیر اعظم چوہدری طارق فاروق نے ماضی کے قائمقام وزیر اعظموں کی طرح آنیاں جانیاں اور غیر معمولی سرگرمیوں کے بجائے بڑی خاموشی کے ساتھ بطور وزیر اعظم ضروری امور دیکھے، دفتری فریضہ سر انجام دیا یوم شہداء کشمیر کی تقریب سے خطاب کے علاوہ ملاقاتوں کیلئے آنے والوں کا پرتپاک استقبال کرتے رہے جو نظام سے جڑے سرکاری محکموں ان کی پالیسیوں طریقہ کار سے متعلق تشکیل کر دہ اصلاحاتی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں جن کے مطابق اصلاحات تیار ہیں جنکے نفاذ کے ساتھ ہی بہتری کا عمل بھی شروع ہو جائے گا تاہم بطور قائمقام وزیر اعظم ان کی موجودگی میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ ہاؤ س میں آنے والوں کیلئے اختیار کردہ طریقہ کار بھی اصلاحات میں شامل ہے تو پھر واقعی کمال کی بات ہو گی ماسوائے اس کے پانی کا گلاس دس منٹ چائے کاکپ بیس منٹ بعد آنا بالکل پی سی ہوٹل والاماحول تھایہ ملازمین سمیت محکمہ کی معاشرتی نفسیات کا اثر تھا یا پھر جو بھی تھا بہرحال قائمقام وزیر اعظم نے بہت خوش اسلوبی ،ذمہ داری سے فرائض سرانجام دیئے یہاں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے ایک سالہ کارکردگی رپورٹ بھی تیار ہور ہی ہے سرکاری محکموں کی کارگزاری کا بھی جائزہ لیتے ہوئے انکے دیئے گئے اہداف وسائل اور کام کے متعلق واقعتا غیر روائیتی انداز میں فیصلے کیئے جاتے ہیں تو یہ بڑی پیش رفت ہو گی۔یہ بدقسمتی ہے سارا نظام ہی شروع دن سے حدودو قیود اور حالات کے تحت چلتا رہا ہے سرکاری نیم سرکاری اداروں تنظیموں اور سیاسی جماعتوں اداروں تنظیموں کا ایک الگ ہی سلسلہ و ڈسپلن ہوتا ہے مگر یہاں فرق ہی نہیں رہا ہے کھچڑی سی بن گئی ہے جس میں اچھے برے سرکاری غیر سرکاری حتیٰ کے پروفیشل کے حوالے سے بھی پروفیشل نان پروفیشنل کا کوئی فرق باقی نہیں بچا ہے پانامہ سے لیکر جے آئی ٹی تک ایک حکومت عدالتوں اور اداروں کا معاملہ ہے جس کے ساتھ ملک میں آمدہ عام انتخابات کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کا مستقبل کے قومی منظر نامے سے متعلق کردارمرکزی اہمیت کا حامل ہے ۔جس کا اظہار کرنا دلچسپی لینا شعوری بیداری کا ثبوت ہے مگر سرکاری امور کے اوقات کار میں ٹی وی سکرینوں سمیت موبائیلوں پر سوشل میڈیا تک مصروف ہو جانا یہاں تک کہ عبادات کے نام پر گھنٹے گھنٹے غائب ہونا اور پھر دفتروں میں حکومتوں کی آنے جانے کی پیش گوئیوں میں دانش وریاں جھاڑنا صرف اس خطے کا ہی مسئلہ ہی بنا ہوا ہے مادر علم (یونیورسٹی)کا وائس چانسلر این ٹی ایس کی میرٹ لسٹ کے بجائے اپنا میرٹ بنا کر تقرریوں کے کیس میں گرفتار ہوتا ہے تو ایوان کے افسر شاہی تھوری ریسٹ ہاوس پہنچ جائیں معلم خو د بھی کلاسوں میں تعلیم کا فریضہ سرانجام دینے کے بجائے ہڑتال شروع کر دیں اور ضمانت پر رہائی ہو تو استقبال پھولوں کی پتیاں نچھاور و جلوس نکال کریں جیسے حج کر کے آئے ہیں تو پھر باقی معاشرے اداروں کا کیا حال ہو گا اور وہ جنکے متعلق بڑی شہرت تھی ساری دنیا دیکھ کر آئے ہیں ملک کا عالمی اداروں میں مقدمہ لڑتے رہے ہیں بہت وسعت قلب فکر عمل کے مالک ہوں گے جن کے بطور صدر انتخاب پر وزیر اعظم کشمیر کا کاز سے منسلک کرتے ہوئے بڑے فخریہ دعوے کرتے رہے ان کے زیر سرپرستی ایوان اور اداروں میں یہ سب کچھ ہونا ان کا نام ہی نہیں ساری کی ساری ساکھ برباد کرنے کے مترادف ہے ایک طرف حقدار کا حق مار کر تقرریاں کرنے والوں کو ہار پہنائے جائیں اور دوسری طرف صرف نو سال کے بچے کو چوری کے الزام میں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے یہ کھلا تضاد اور ظلم نہیں تو پھر کیا ہے ملک کا وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہورہا ہے اور یہاں محکموں سے لیکر انتظامیہ اور تھانے تھانے تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس سب ہی حاکم بن جائیں تو مکافات عمل بہت عبرت ناک ہوتاہے۔بہتر ہوگا محکمانہ اصلاحات کے ساتھ ساتھ نظام میں اخلاقی سیاسی شعوری اصلاحات کیلئے سب ہی حقیقی عوامی جماعتوں مکاتب فکر اداروں پروفیشنلز سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ایک جرگہ بلا کر اصول طے کر لیے جائیں بلکہ اسکا قانون ساز اسمبلی سے آغاز کر لیا جائے تو بہتری کے واضح اثرات سامنے آسکیں گے جسکا آغاز پاکستان میں ہوچکا ہے تاریخ اسلام کے خلیفہ دوئم سے ان لباس کا کپڑا زائد ہونے کا سوال کیا گیا تھا آج وزیر اعظم پاکستان سے ان کی دولت اثاثوں کا حساب ہو رہا ہے اب یہ مثال بن گئی ہے ہر آدمی جوغلاظتوں سے پاک ہو کسی بھی شخص خاص کر اختیار سرکار والوں سے عدالت میں جا کر پوچھ سکے گا تم پہلے کیا تھے اور اب کیا ہو اور جب یہ آغاز آزاد کشمیر میں ہوا تو لوگ پانامہ کو بھی بھول جائیں گے؟؟؟؟

Tahir Farooqi
About the Author: Tahir Farooqi Read More Articles by Tahir Farooqi: 206 Articles with 130588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.