توجہ طلب بات یہ ہے کہ حکومت آج جس سنگین ترین بحران کا
شکار ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
اندرونی و بیرونی سازشوں کا رونا رونے لینے والے میاں نوازشریف کے ڈھنڈورچی
شاید اب بھی اپنی غفلت ،نااہلی اور ناکامی کا اقرار کرنے کو تیار نہیں ہیں
جی حضوورں کا یہ ٹولہ جو سیاسی فہم وفراست کے معاملہ میں تو پیدل ہے مگر
آداب بجا لانے میں انہیں ایسی مہارت حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حکمران کو
خوشامد کے جال میں الجھا لیتے ہیں اور یہ لفظی مالشیئے آخر کار حکمرانوں کو
اس بند گلی میں لے جاتے ہیں جہاں سوائے ٹکریں مارنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا
اور بدقسمتی سے نوازشریف ان دنوں لگ بھگ ایسی ہی صورتحال کا شکار ہیں ۔
گزشتہ دنوں میں نے سیاست کے کئی پرانے کھلاڑیوں سے ملاقات کی موجودہ ہیجان
زیر بحث رہا ہے مجھے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی یہ ساری شخصیات سخت متفکر
اور کسی حد تک مایوس دکھائی دیں سب کا ایک متفقہ فیصلہ تھا کہ نوازشریف نے
بروقت اور درست فیصلے نہ کرکے ایک ایسا بحران پیدا کردیا ہے جس کے نقصانات
ناقابل تلافی ہیں اور وزیر اعظم نے استعفیٰ نہ دے کر اپنی غلطیوں کو
سدھارنے کا آخری موقعہ بھی کھودیا ہے ۔
گزشتہ روز سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی سے بلوچستان ہاؤس میں ملاقات
ہوئی اس موقعہ پر وفاقی دار الحکومت کے نامور صحافی حفیظ اللہ عثمانی ،
سیاسی و سماجی شخصیت چوہدری عرفان بھی موجود تھے لیکن اس نشست کی ایک اور
اہم شخصیت پاکستان میں بین المذاہب ہم اہنگی اور قیام امن کیلئے نمایاں
خدمات سر انجام دینے والے غلام مصطفی انصاری تھے ۔ غلام مصطفی انصاری کی
خدمات کو اندرون اور بیرون ملک ہر سطح پر سراہا گیا ہے سابق وزیر اعظم ظفر
اللہ جمالی اس پرعزم نوجوان سے بہت محبت کرتے ہیں کہ جس نے ذاتی وسائل کے
بل بوتے پر وہ کام کردکھایا جو کئی حکومتی ادارے نہ کرسکے ۔
سابق وزیر اعظم نے آف دی ریکارڈ جو گفتگو کی وہ بہت تلخ ہے اور اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کس قدر بھیانک اور ابن الوقت عناصر سے
بھری پڑی ہے ان کی اجازت کے بغیر میں یہ تلخ حقیقتیں احاطہ تحریر میں تو
نہیں لاسکتا البتہ میں نے ان سے اصرار ضرور کیا کہ وہ اپنی یاداشتوں کو
کتابی صورت میں ضرورلے کر آئیں پاکستان کے استحکام کیلئے قابل قدر خدمات سر
انجام دینے والی یہ شخصیات ہمارا اثاثہ ہیں اور آنے والی نسلوں کیلئے ان کی
قربانیاں یقیناًمشعل راہ ہونگی ۔دوسری طرف موقعہ پرست ، بے ضمیر ،
میرجعفروں کے ٹولے کی اصل کارستانیوں سے بھی پردہ اُٹھنا اشد ضروری ہے ۔
میر ظفر اللہ جمالی نے بتایا کہ دھرنوں کے دوران انہوں نے نوازشریف کو بولڈ
فیصلہ لینے کا مشورہ دیاتھا ۔ اس بزرگ سیاست دان نے نوازشریف کو رام کرنے
کی کوشش کی کہ وہ اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کرلیں اور متنازعہ چار حلقوں کا
معاملہ پہلے قدم پر نبٹادیں ۔انہوں نے انتہائی لطیف پیرائے میں بتایا کہ
میں نے نوازشریف سے کہا کہ آپ کو خود دھرنا مظاہرین کے درمیان جاکر یہ
تاریخ ساز اعلان کرنا چاہیے اور میں آپ کے ساتھ جاؤنگا میری ایک ٹانگ میں
تکلیف ہے مگر ہاتھ میں لاٹھی ضرور ہے اور یہ لاٹھی بگڑے ہوؤں کو سدھارنے
کیلئے کافی ہے ۔ نوازشریف شاید اس بلوچ راہنماکی لاٹھی کی طاقت کا درست
اندازہ نہیں لگاپائے اور چار حلقوں کے معاملہ پر پہلو تہی کرتے کرتے کھیل
کو اس خوفناک حدتک لے گئے جہاں آج ان کا پورا خاندان تماشہ بنا ہوا ہے اور
سیاسی نااہلی کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اور اب تو منہ بگاڑ بگاڑ کر اپنی
شعلہ بیانی سے حالات کو مزید بھڑکانے والے سعد رفیق کو بھی سمجھ آگئی اور
وہ شکستہ لہجے میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس کھیل کے آخر میں کسی
کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا ۔
وزیر اعظم نوازشریف جس پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کرتے پھررہے ہیں ان کی
اوقات کا انہیں خود اندازہ ہے اکثریتی ارکان اسمبلی کی تو ان تک رسائی بھی
نہیں ہے ۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرنے والا ایک مخصوص ٹولہ سوائے جی
حضوری کے کوئی اہلیت نہیں رکھتا ان کے زیرک پن کا اندازہ ایک رائی جتنے
بحران کو پہاڑ بنادینے سے قطعی ہوجاتا ہے وزیر اعظم کو چوہدری نثار کی تلخ
باتوں پر تیوریاں چڑھانے کے بجائے حالات کی سنگینی کا اداراک کرنا چاہیے
انہیں سوچنا ہوگا کہ ان کی پارٹی کو ماضی کے بدترین حالات میں زندہ رکھنے
والے جاوید ہاشمی اب نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ جبر کو مردانہ وار سہنے والے ذولفقار
کھوسہ بھی ان کی احسان فراموشی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اگر اب چوہدری
نثار کی وفاداری بھی انہیں مشکوک دکھائی دے رہی ہے تو آنے والے وقت میں
کوئی نہیں ہوگا جو ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے سربکف میدان میں
اُتر آئے ۔
میر ظفر اللہ جمالی نے درست کہا کہ پانی سر سے گزرچکا ہے وقت پر فیصلے نہ
لینے کا انجام واضح دکھائی دے رہا ہے ۔
بہ طور قلم کار میں حیران ہوں کہ وزیر اعظم ابھی تک ہالی موالیوں کے جھرمٹ
سے نہیں نکل پائے ہیں اس نازک صورت حال میں بھی ان کے کان صرف’’ حضور کا
اقبال بلند رہے ‘‘ کے نعرہ مستانہ سننا چاہتے ہیں اور شاید انہیں اندازہ
بھی نہ ہو کہ ڈٹ جانے کا مشورہ دینے والے خود اگلی ٹرین کا ٹکٹ پکڑنے کیلئے
ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ۔
|