’’مسواک‘‘ حضور نبی کریم ؐ کی وہ اہم ترین اور عظیم
الشان سنت ہے کہ جس کے ہمیشہ استعمال کرتے رہنے سے موت کے وقت بندۂ مؤمن کو
کلمہ شہادت جیسی عظیم الشان دولت نصیب ہوتی ہے ، لیکن افسوس کہ اس انمول
اور عظیم الشان سنت کی طرف ہمارے مسلمان لوگوں کا التفات اور توجہ بہت کم
ہے ، مسواک عموماً علمائے کرام ، طلبائے عظام اور بعض عمر رسیدہ بزرگ حضرات
ہی کی جیبوں میں دیکھنے کو ملتی ہے ، ان کے علاوہ اکثر و بیشتر ہمارے
مسلمان بھائی اپنے پیارے نبیؐ کی اس عظیم الشان سنت کے فوائد و ثمرات سے
گویا کلی طور پر ہی محروم ہیں۔
پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں نے مسواک کی سنت کو صرف مردوں کے ساتھ
خاص سمجھ رکھا ہے اور عورتوں کو اس سے بالکلیہ مستثنیٰ کردیا ہے ، گویا ہم
لوگوں نے معاشرے کو اس بات کا تاثر دیا ہے کہ مسواک صرف مردوں کے حق میں
آنحضرتؐ کی سنت ہے ، عورتوں کے حق میں بالکل نہیں ، حالاں کہ یہ تاثر بالکل
غلط ہے ،اور شریعت کے احکام و مسائل سے ناواقفیت کی علامت ہے، یاد رکھنا
چاہیے کہ مسواک جس طرح مردوں کے لئے سنت نبویؐ ہے اسی طرح عورتوں کے لئے
بھی یہ آقا علیہ السلام کی سنت ہے ۔
احادیث مبارکہ میں مسواک کرنے کے بڑے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں نمونہ کے طور
پر چند ایک ہی فضائل لکھنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ
صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا : ’’وہ نماز جو مسواک کے
ساتھ ادا کی گئی ہو اُس نماز سے جو بغیر مسواک کی پڑھی جائے ستر گنا فضیلت
والی ہوتی ہے ۔(السنن الکبریٰ للبیہقی)
ایک حدیث میں آنحضرت ؐ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ مسواک کرکے دو رکعت نماز ادا
کرنا بغیر مسواک کے ستر رکعت پڑھنے سے افضل ہے ۔ ‘‘(مجمع الزوائد)
ایک اور روایت میں آتا ہے رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا : ’’مسواک تمام انبیاء
علیہم السلام کی سنت ہے۔‘‘( جامع ترمذی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’مسواک منہ کو
صاف کرنے والی اور اﷲ تعالیٰ کی خوش نودی کا سبب ہے۔‘‘ (سنن نسائی)
حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ :’’ نبی پاکؐ دن یا رات میں جب بھی سوکر
اُٹھتے تو وضو سے پہلے مسواک ضرور فرماتے ۔ ‘‘(سنن ابو داؤد)
اسی طرح حدیث مبارکہ میں یہ بھی آتا ہے کہ : ’’رسول اﷲ ؐ جب تہجد کے لئے
اُٹھتے تو مسواک سے اپنے منہ کو خوب اچھی طرح صاف کرتے …… اور گھر میں
تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔ ‘‘(صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول خدا ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’اگر مجھے
اپنی امت پرمشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا
حکم دیتا۔‘‘ (رواہ البخاری و اللفظ لہ و مسلم الا انہ قال : عند کل صلاۃ)
حضرت واثلہؓ سے مرفوعاً نقل کیا گیا ہے کہ حضورِ اقدسؐ نے ارشاد فرمایا :
’’مجھے (بار بار) مسواک (کرنے) کا حکم دیا گیا ، یہاں تک کہ مجھے اس کے فرض
ہوجانے کا اندیشہ ہونے لگا۔ ‘‘ (طبرانی و مسند احمد)
حضرت عامر بن ربیعہؓ سے مرفوعاً نقل کیا گیا ہے کہ : ’’میں نے حضورِاقدسؐ
کو روزے کی حالت میں اتنی کثرت سے مسواک کرتے دیکھا ہے جسے شمار نہیں کیا
جاسکتا۔‘‘ (اخرجہ اصحاب السنن و ابن خزیمہ فی صحیحہ)
موجودہ دور میں عوام میں عموماً اورجدید تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں اور
لڑکیوں میں خصوصاً منہ کی صفائی حاصل کرنے کے لئے جو ٹوتھ پیسٹ اور برش
وغیرہ کا رواج چلا آرہا ہے اس سے منہ کی طہارت اور پاکی تو حاصل ہوجاتی ہے
لیکن یہ مسواک کی سنت کے قائم مقام ہرگز نہیں ، لہٰذا اس سے مسواک کی سنت
ادا نہیں ہوتی ۔
امام غزالیؒ نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں اور صاحب اتحاف نے اس کی شرح
میں لکھا ہے کہ: ’’ مسواک کرتے وقت محض منہ کی بدبو اور گندگی زائل کرنے کی
نیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سے صفائی حاصل کرکے اﷲ تعالیٰ کا ذکر اور
تلاوت کلام الٰہی کی نیت کرنی چاہیے۔( اتحاف السادۃ المتقین شرح احیاء علوم
الدین)
علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے مسواک کرنے کا طریقہ یہ لکھا ہے کہ مسواک دائیں
ہاتھ میں پکڑ کر دانت کے اوپر والے حصہ اور نیچے والے حصہ اور تالو پر کرے
، نیز مسواک پہلے دائیں جانب سے شروع کرے اور پھر بائیں جانب کرے اور پھر
تین بار اوپر کے دانتوں پر کرے اور تین بار نیچے کے دانتوں پر کرے ۔ (البحر
الرائق شرح کنز الدقائق)
علامہ طحطاوی ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’مسواک دانتوں کے اندر والے اور باہر والے
حصہ دونوں میں کرے اور منہ کے اوپر والے حصہ میں بھی کرے۔ (حاشیۃ الطحطاوی
علیٰ مراقی الفلاح شرح نور الایضاح)
غنیۃ المستملی میں ہے کہ پہلے مسواک اوپر کے جبڑے میں داہنی جانب اور پھر
اوپر کے جبڑے میں بائیں جانب کرے ، اس کے بعد نیچے کے جبڑے میں دائیں طرف
اور پھر نیچے کے جبڑے میں بائیں جانب کرے ۔ (غنیۃ المستملی شرح منیۃ
المصلی)
مسواک پکڑنے کا مسنون طریقہ حضرت ابن مسعودؓ سے یہ مروی ہے کہ: ’’مسواک اس
طرح پکڑنی چاہیے کہ سب سے چھوٹی انگلی مسواک کے نیچے رہے ، اور باقی
انگلیاں مسواک کے اوپر رہیں اور انگوٹھا مسواک کی اوپر کی جانب اس کے منہ
کے نیچے رہے۔ ‘‘(فضائل مسواک)
مولانا عبد الحی لکھنویؒ فرماتے ہیں کہ : ’’مسواک ایک بالشت سے زائد نہیں
ہونا چاہیے (بلکہ ایک بالشت یا اس سے تھوڑی چھوٹی ہونی چاہیے) اور اس کی
موٹائی ایک چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہونی چاہیے، اسی طرح یہ بھی
فرماتے ہیں کہ : ’’ مسواک کو بچھا کر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ کھڑا کرکے
رکھنا چاہیے ۔ ‘‘ (السعایہ علیٰ شرح الوقایہ)
علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ : ’’مسواک دھوکر کرنی چاہیے اور دھوکر ہی رکھنی
چاہیے ، نیز مسواک زمین پر ہرگز نہیں رکھنی چاہیے کہ اس سے جنون کا مرض
لاحق ہوجانے کا اندیشہ ہے ، بلکہ طاق یا کسی اونچے مقام در ودیوار وغیرہ پر
کھڑا کرکے رکھنی چاہیے۔‘‘ (رد المحتار علیٰ الدرالمختار)
علامہ شامیؒ کی مذکورہ تحقیق کی تائید مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیرؓ کے
اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں آپؒ نے فرمایا کہ: ’’ جو شخص مسواک کو زمین
پر رکھنے کی وجہ سے مجنون ہوجائے تو وہ اپنے نفس کے علاوہ کسی دوسرے کو
ملامت نہ کرے ، کیوں کہ یہ خود اُس کی اپنی غلطی ہے۔‘‘ (بکھرے موتی)
آج کل کے بعض بزرگ حضرات اپنا تجربہ بتاتے ہیں کہ: ’’ اگر کوئی شخص سفر میں
ہو اور خدانخواستہ اُس کا ایکسی ڈنٹ ہوجائے اور اُس کے جیب میں مسواک ہو تو
مسواک کی برکت کی وجہ سے اُس کی ہڈی ٹوٹنے سے بچ جائے گی ، یہ عمل راقم
الحروف سمیت دیگر کئی حضرات کا آزمودہ اور آنکھوں دیکھا ہے۔
|