جب سے 2013 ء کے الیکشن ہوئے ہیں تب سے ملک کے اندر ایک
سیاسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ حکمران جماعت کی ساری توجہ اقتدار کی کرسی
کو بچانے پر مرکوز ہے اور حزب اختلاف کی ساری توانائیاں وزیراعظم کو منصب
سے ہٹانے کے لئے وقف ہیں۔ اس بات کا اظہار بارہا کالم نگارپنے مضامین میں
کرتے چلے آرہے ہیں۔ جن مقاصداور مسائل کے حل کے لئے عوام نے انہیں ووٹ دیئے
تھے اُن کوانہوں نے نچلی ترجیحات میں بھی نہیں رکھا ۔ تعلیم ، صحت ، صاف پا
نی کی فراہمی ، سڑکوں کی تعمیر و مرمت ، نکاسی آب اور بے شمار مسائل صرف
چھوٹے اضلاع تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ بڑے شہروں کے عوام بھی ان سے دوچار
ہیں۔ ہر طرف آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے سیاسی قائدین
اور منتخب نمائندوں کو اقتدار کی کرسی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا
ہے۔موجودہ سیاسی بحران یعنی پانامہ لیکس گزشتہ برس اپریل سے جاری ہے اور
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید آج کل اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہوچکا ہے۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے بنائی گئی جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ نہایت
محنت ، لگن اور عرق ریزی کے ساتھ دو ماہ کے فریم ورک میں مکمل کر کے عدالت
عظمیٰ میں جمع کروادی ہے۔ اَب عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہے ۔ جب سے پانامہ
کیس عدالت عظمیٰ ، تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کے پاس اور اَب پھر عدالت میں
فیصلے کے لئیپیش ہے تب سے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین
اور کارکنوں نے عدالتوں کے باہر پریسوں کانفرنسوں کا سلسلہ بھی شروع کر
رکھا ہے۔ صبح عدالت میں پانامہ کیس کی سنوائی ہوتی ہے اور رات کو باہتر ٹی
وی چینلوں پر چھوٹی بڑی عدالتیں لگتی ہیں جن میں تند و تیز بیانات اور
الزامات کی جنگ جاری رہتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان الیکٹرانک میڈیا
کی عدالتوں میں ہر روز فیصلہ بھی سنا دیا جاتا ہے۔ یوں وطن عزیز کومفت میں
آزاد الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں نائٹ شفٹ عدالتیں مہیا آچکی ہیں۔مہذب
دنیا میں ایسے معاملات مچھلی بازار کی رونقیں نہیں بنتے بلکہ صبر و برداشت
سے کام لیا جاتا ہے۔ اس ساری سیاسی ہلچل سے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام
ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے درمیان شدید اختلافات نے بھی جنم لے لیا ہے۔
اس کے علاوہ قومی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں اور
طویل مدت کے بعدمعاشی بحالی کا جو عمل شروع ہوا تھا اس کا گراف خطرناک حد
تک نیچے گر گیا ہے۔ اگرقومی تناظر سے ہٹ کر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو
امریکہ ، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ اور اَب امریکہ کی جنوبی ایشیا میں
بدلتی پالیسیاں پاکستان کے لئے بجا طور پر ایک باعث تشویش امر ہیں۔ بقول
شاعر ’’اب تو صہیونی و نصرانی بھی ہیں ہندو کے ساتھ ‘‘۔ خیال رہے کہ امریکی
ایوان نمائندگان نے 696 ارب ڈالر کا دفاعی پالیسی کا بل منظور کرلیا ہے جس
میں پاکستان کو دی جانے والی امداد پر سخت شرائط عائد کردی گئیں ہیں جب کہ
بھارت سے دفاعی تعاون میں اضافے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ بل کے تحت یکم
اکتوبر 2017 سے 31 دسمبر 2018 تک پاکستان کے لئے چالیس کروڑ ڈالر امداد اس
وقت تک ادا نہیں کی جائے گی جب تک امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق نہ
کردیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی اور
سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لئے افغان حکومت سے تعاون
کررہا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو امداد کے حصول کے لئے نیٹو
سپلائی کے راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس ساری صورت حال میں قومی
مفاد کا تقاضا ہے کہ حکمران اور تمام حزب اختلاف جماعتوں کو مل کر الجھاؤ
کی سیاست کو ترک کر دینا چاہیئے اور خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال اور معیشت
کی بحالی کے لئے مشاورت سے حل تلاش کرنا چاہیئے۔ کیوں کہ دوسروں سے اُلجھے
بغیر آگے بڑھنا ، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل زینہ ہے ۔ فرد اور قوم دونوں
کے لئے دیرپا اور مستقل ترقی کا ضامن یہی واحد راستہ ہے۔
اُلجھاؤکی بجائے سلجھاؤ سے متعلق ایک استاد کے خوبصورت درس کا واقعہ یاد
آیا۔ کہتے ہیں کہ استاد کمرہ جماعت میں داخل ہوا اور بلیک بورڈ پر کوئی لفظ
لکھے بغیر چاک کی مدد سے ایک لمبی لکیر کھینچی۔ پھر طلباء سے مخاطب ہو کر
کہا کہ تم سے کوئی اس لکیر کو چھوئے بغیر چھوٹا کر سکتا ہے ۔ ساری جماعت پر
ایک سکوت طاری ہوگیا ہر طالب علم اس سوچ میں گُم کہ بغیر چھوئے اور مٹائے
یہ کیسے ممکن ہے۔ ’’سر ! یہ ناممکن ہے‘‘۔ جماعت کے ذہین اور ہونہار طالب
علم نے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا۔ ’’ لکیر کو چھوٹا کرنے کے لئے اس کو مٹانا
ہوگا لیکن اس سے آپ نے منع فرمایا ہے ‘‘۔ باقی طالب علموں نے بھی گردنیں
ہلا کر اس کی تائید کی۔ استاد نے ایک گہری نظر سے طلباء کو دیکھا اور کچھ
کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑی ایک اور لکیر
کھینچ دی۔ یوں پہلی لکیر خود بخود چھوٹی نظر آنے لگی۔ استاد نے نہایت عمدگی
سے یہ درس دیا کہ ہم دوسروں سے لڑے بغیر ، حسد کئے بغیر ، اُلجھے بغیر اور
نقصان پہنچائے بغیر کیسے آگے نکل سکتے ہیں۔ پس موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ
ہمیں اُلجھاؤ سے بچ کر سلجھاؤ کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے اسی میں ملک اور
قوم کی بہتری ہے۔ |