پاکستان سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر
لیا ہے جو آج کل میں سنا دیا جائے گا اور جیسا کہ ملک کے سیاسی معاشی
ہر طرح کے حالات واقعات کے چاروں صوبوں پر اثرات یکساں ہوتے ہیں اسی
طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی رنگ دکھاتے ہیں ۔لہذا پورے
ملک کی طرح یہاں بھی اپوزیشن جماعتوں نے اپنی قیادت کے موقف کے مطابق
خیالات کا اظہار اور سرگرمیاں شروع کر دیں ہیں اور وہ عناصر جو بڑی حد
تک نا امید ہو چکے تھے نے بھی پھر سے پر نکالنا شروع کر دیئے ہیں اور
بہت ساری خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں پر مبنی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں
تاہم یا خوش آئند عمل ہے کہ عدالتی فیصلے کے انتظار سمیت آمدہ قومی
انتخابات کی تیاریوں کی شروعات ہو چکی ہیں اور حکومت و اپوزیشن جماعتیں
ملک کی سب سے بڑی آئینی عدالت میں قانونی جنگ کرتے ہوئے اس امر کا
اظہار کر چکی ہے عدالت کا فیصلہ ان کیلئے قابل قبول ہو گا اور سڑکوں پر
آکر محاز آرائی انتشار سے گریز کیا گیا ہے ملک بھر کے عوام نے عدالت کی
کاروائی کے حوالے سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی سکرینوں پر معلومات
حاصل کی اب سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا آتا ہے اس کا انتظار ہے تاہم یہاں
آزاد کشمیر میں عدالت العالیہ میں دو اہم ترین عوامی نوعیت کے فیصلے
کیئے ہیں جنکو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ چیف جسٹس ایم آفتاب تبسم
علوی نے ٹینکرز میں دودھ لا کر فروخت کرنے والے ڈیلرز کی طرف سے دائر
کردہ رٹ پٹیشنز کو خارج کرتے ہوئے اپنے پہلے فیصلے کو برقرار رکھا جس
کے تحت قراردیا گیا یہ خالص اور معیاری دودھ کے علاوہ غیر معیاری اور
کیمیکلز ملا دودھ فروخت کرنے کی قطعاََ اجازت نہیں دی جا سکتی،بلدیہ سے
ٹیسٹنگ لیبارٹری میں معیار چیک کرنے کے بعد این او سی لیکر دودھ فروخت
کیا جاسکتاہے کیمیکلز ملا دودھ درحقیقت سفید رنگت میں انسانی زندگیوں
کیلئے زہر تھا جسکے پیچھے 19,20گریڈ والے آفیسران بھی اثر اسوخ لڑا رہے
تھے مگر عدالت العالیہ نے تاریخی فیصلہ د یکر لوگوں کو زہر خریدنے سے
بچا لیا ہے اسی طرح چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس ایم آفتاب تبسم علوی
اور جسٹس صداقت حسین راجہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ملازمین تنظیموں کی
طرف سے قانون ساز اسمبلی کے ملازمین تنظیموں کے حوالے سے پاس کر دہ
قانون کو چیلنج کرتے ہوئے رٹ پٹیشنز دائر کی تھیں جنکو خارج کرتے ہوئے
نا صرف قانون کو برقرار رکھا گیا ہے بلکہ ملازمین تنظیموں کیلئے نو
نکاتی اصول بھی وضح کر دیے ہیں جنکی خلاف ورزی نا صرف مس کنڈیکٹ بلکہ
توہین عدالت بھی تصور ہو گی، اب ملازمین دفاتر کی تالا بندی اور دفتروں
سے باہر نکل کر سڑکات پر ہڑتال یا احتجاج نہیں کر سکیں گے جسے عوامی
حلقوں نے بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے تاہم ان وضح کردہ اصولوں پر عمل کے
باوجود موجودہ نظام کے اند ر جائز بات نا سنی گئی تو کیا ہونا چاہئے یہ
بھی گنجائش بتا دینی چاہیے تھی بلکہ سول سوسائٹی کو عدالت کے اس فیصلے
کی روشنی میں مذہب مسلک سیاست علاقے برادری پیشہ وارانہ شعبہ کے نام پر
جماعتوں اور تنظیموں کے حوالے سے بھی قانون سازی کا مطالبہ کرنا چاہئے،
کم از کم دس اضلاع میں اپنی تنظیمی باڈیاں رکھنے والے ہی جماعت یا
تنظیم کے وجود کے حقدار ہو ں گے اور تعصبات مذہبی ہوں یا علاقائی ان کی
بنیاد پر سیاست کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔یہاں آزاد کشمیر میں وزیر
اعظم فاروق حید رکی سربراہی میں قائم ن لیگ کی حکومت اپنے ایک سالہ دور
حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ تیار کر رہی ہے جو 21ء جولائی کو
سامنے آجانی چاہئے تھی مگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے 21ء جولائی کے
انتخابات پر مداخلت کے الزامات لگاتے ہوئے یوم سیاہ کے مترادف قرار دیا
گیا ہے مگر حکومت جو اپوزیشن کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی آگ بگولہ ہو
کر بیاناتی گولہ باری کر دیتی ہے اس بار سست روی کا شکار ہو گئی ہے تو
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے چار دن پہلے ایک بڑے عوامی
جلسہ عام میں ایک بار پھر اپنے موقف کی حمایت میں آزاد کشمیر کے
انتخابات کا فخریہ حوالہ دیتے ہوئے کہا وہاں کے عوام نے ہم پر اعتماد
کا اظہار کرتے ہوئے بھاری مینڈیٹ سے نوازا کاش وہ اس کے ساتھ یہ بتانے
کے قابل بھی ہوتے کہ ہم نے آزاد کشمیر کے عوام سے آئینی اصلاحات کا جو
وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا کر دکھایا ہے تو ان کے فخریہ اظہا ر کو چار
چاند لگ جاتے ناصرف آزاد کشمیر بلکہ گلگت بلتستان کے عوام آئینی
اصلاحات کے منتظر ہیں میاں نواز شریف کو چاہئے عدالتی فیصلہ چاہے جو
بھی ہو انکا اپنا اختیار برقرار ہی رہے گا لہذا پہلی فرصت میں ان دونوں
خطوں کے عوام سے آئینی اصلاحات کا وعدہ پورا کریں گو کہ یہاں آزاد
حکومت کے بعض متنازعہ اقدامات کے باوجود اجتماعی مفاد کیلئے کیئے گئے
پالیسی اقدامات زیادہ اہمیت و افادیت کے حامل رہے ہیں اور مجموعی طور
پر عوام میں انکے حوالے سے مسرت کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں مگر خود
انکی پارلیمانی پارٹی اور کارکنان کے شکوے شکایات میں کمی نہیں آئی ہے
۔ اور ہر حکومت کی طرح اس حکومت پر بھی چاپلوس موقع پرست عناصر کی
سرکاری مشینری سے لیکر سیاسی عمل تک تمام شعبہ جات میں اہمیت دیئے جانے
کا الزام طوالت اختیار کرتا جارہا ہے تو دیگر غیر تجربہ کار و روائیتی
نااہلی چھپا کر شاہ سے زیادہ شاہ کے زیادہ وفادار بننے والوں کے رویے
بھی آگے چلتے ہوئے بڑے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں جنکو پیش نظر رکھتے
ہوئے مستقبل کے حوالے سے تبدیلیوں اور مناسب ترامیم کی ضرورت اہمیت
اختیار کرتی جارہی ہے موجودہ وزیر اعظم کے پیش رو وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید نے مظفرآباد آکر پارٹی صدر لطیف اکبر سمیت رہنماؤں ، کارکنان
سے ملاقاتیں کی اور حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے مزاحمتی مہم شروع
کرنے کا اعلان کیا ہے واقعتا فاروق حید ر حکومت چوہدری مجید دور کے
بیوروکریٹ ہوں یا شاہ سے شاہ کے وفادار بننے والے عناصر ان سے نجات
حاصل کرتے ہوئے پارلیمانی پارٹی اور ن لیگ کے حقیقی سیاسی کارکنوں کی
برحق باتیں سننے اور ان پر عمل در آمد کرنے کا آغاز کردینا چاہئے گوکہ
یہاں کوئی بڑے خطرے والی بات نہیں ہے نا مزید مستقبل قریب میں اس کے
زیادہ امکانات ہیں مگر چوہدری نثار جیسی ناراضگی اور موقف کو چنگاریوں
سے آگ بنتے دیر نہیں لگتی ہے وزیر اعظم نے مظفرآباد سنٹرل پلیٹ سے مذہب
کے نام شیطانی کھیل کھیلنے والے نام نہاد پیر کو گرفتار کرنے پر ایس
ایس پی راجہ اکمل اور ایس ایچ او راشد حبیب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے
اس اذم کا اظہار کیا ہے کہ اسے عبرت ناک سزا دلوائی جائے گی واقعتا
ناصرف اپنے سارے گھر جس کو آستانہ عالیہ مشہور کیا ہوا تھا کے درو
دیوار پر بلکہ جس کمرے میں شیطانی کھیل کھیلتا تھا اس کے درو دیوار پر
بھی آیات کریمہ احادیث اور آل رسول و صحابہ کے مقدس نام درج کرا رکھے
تھے ایک سے پچاس خواتین کو حوس کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیو فلموں کے
زریعے لوٹ مار بلیک میلنگ کا کہرام برپا کر رکھا تھا جو درحقیقت کالا
جادو گر ہے ، ایسے گنہاؤنے کھیل کرنے والے کو جسطرح ایرانی داعش کے
درندوں کو ان کے جسموں سے بم باندھ کر اڑادیتے ہیں ایسے ہی انجام سے
دوچار کرنا چاہئے تو عوام کو بھی ان واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے
تاہم اس جعلی پیر کی طرح کے جعلی سیاست کار سرکاری مشینری میں خود
ساختہ نیک سیرت اور میرے شعبہ سمیت ہر شعبہ زندگی کے جعل سازوں کا بھی
نقاب اترنا چاہئے جو اپنے فریضے اور ہنر میں دسترس کے بجائے صرف تعصب
چاپلوسی ہیرا پھیری شاہ سے شاہ کی وفادار بن کر نیک اور پارسا ہونے کا
لیبل لگائے ڈرامے لگائے ہوئے ہیں اور ناسور بن چکے ہیں ان کو سبق کون
سکھائے گا؟؟؟؟؟
|