محلوں کی غلام گردشوں میں بڑا شور ہے کہ جمہوریت خطرے
میں ہے.ایک غریب جمہور پوچھ رہا ہے کہ کون سی جمہوریت کو خطرہ ہے......؟
جمہور کا بھی کچھ شور سنو.جمہور تو ظالموں کے ڈر سے خاموش احتجاجی
ہیں.جمہور تو اس جمہوریت میں بلک بلک کر رو رہا ہے۔ اسے تو جمہوریت کے
دعویداروں کے محلوں کی طرف جاتی بڑی بڑی سڑکوں،ایئر کنڈیشنر گاڑوں،
گورنمٹ کی بڑی بڑی عمارتوں،ہٹو بچو کی صداووں اوردرباریوں کی چینخ و
پکار سے جمہوریت کی نہیں بادشاہت کی بو آتی ہے.
یہ کیسا شور ہے،یہ کیسی آوازیں ہیں،یہ کیسی چینخ و پکار ہے...؟؟؟یہ
شور،یہ آوازیں،یہ چینخ و پکار ہے ان کو کچھ نہ ملنے کی.یہ شور یہ
آوازیں یہ چینخ و پکار خبردار کر رہی ہے جمہور کو کہ تم تو نسل در نسل
غلام ہو جمہوریت کے ان علمبرداروں کے.ابھی تم نے اور بلکنا اور سسکنا
ہے اس لئے کہہ وطن عزیز میں جمہوریت کا راج ہے اور جمہوریت کی بقا اور
سلامتی کےلئے جمہور کا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ضروری ہے.
وطن عزیز میں نافذ خطرات میں گہری جمہوریت میں راج کر رہے ہیں امیر شہر
کے کتے اور جمہور روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس رہا ہے.جمہور تڑپ رہا
ہے کہ اس کے بچوں کےلئے تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے.غریب جمہور رو رہا
اس کے بچے امیروں کے گھر کام کرنے جاتے ہیں اور روز ان کے ظلم سہہ رہے
ہیں لیکن بول نہیں سکتے اس لئے کہ ملک میں جمہوریت خطرے میں ہے.جمہور
سسک رہا ہے ہسپتال اور علاج کے نہ ہونے سے اور وقت پر علاج نہ ملنے کے
باعث اموات سے.ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان تو دے سکتا ہے لیکن بول یہاں بھی
نہیں سکتا کہ ملک میں جمہوریت خطرے میں ہے.جمہور رو رہا اپنی چھوٹی
چھوٹی گلیوں میں پڑے بڑے بڑے گڑھے دیکھ کر کہ جن روز ان کے معصوم ان
گڑھوں میں گر کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن جمہور بول یہاں بھی
نہیں سکتا کہ ان کے محسن جمہوریت کو بچانے میں جمہوریت دشمنوں سے
برسرپیکار ہیں.جمہور روتا رہا اور رو رہا ہے کہ مرے ہر بچے کو تعلیم
دو.میرے ہر بچے کو شعور کی دولت دو تا کہ وہ جان تو سکیں کہ جمہوریت
میں ووٹ کیسے اور کیوں دیا جاتا ہے اور کس کو اپنی حکومت سونپی جائے کہ
سب سے پہلے ہم جمہور جن کے دم سے جمہوریت کی رگوں میں خون پڑتا ہے اور
وہ زندہ ہوتی ہے ۔جمہور آج بھی یہ جاننا چاہتا ہے کہ جمہوریت میں جب
انصاف نہ ملے تو کیسے کس قانون کے تحت غاصبوں سے اسے اد کا حق مل سکتا
ہے.
جمہور آج بھی یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا جمہوریت کے ہراول دستے کے سپاہی
سب سے پہلے جمہور کو تعلیم دے کر ان کی تربیت ایک آزاد شہری کی طرح
کریں گے....؟اگر نہیں تو وہ جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں.جمہوریت کو
کسی بیرونی سازش کی ضرورت نہیں ہے.یہ صرف لولی لنگڑی دیمک زدہ جمہوریت
کو سہارا دینے کےلئے تاویلیں گھڑی گئی ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے.بات
صرف اتنی ہے کہ اگر یہ جمہوریت نہ رہی،یہ دربار نہ رہا تو شاہ سے زیادہ
شاہ کے وفادار درباریوں کا کیا بنے گا اور وہ کہاں جائیں گے.....؟؟؟
الحمداللہ اب جمہور کو جمہوریت کے مفہوم کی سمجھ آ گئی ہے اور جمہور کو
اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے.وہ وقت دور نہیں جب اس ملک میں
حقیقی معنوں میں جمہوریت کا نفاذ ہوگا اور اس کے ثمرات عام آدمی تک
پہنچیں گے.
|