سیری بازار میں جہاں آج کل حبیب بینک ہے کبھی
یہاں تین چار کچی سی دکانیں ہوا کرتی تھیں ان کچی دکانوں میں سے ایک
دکان اقبال حجام کی تھی جس کے دروازے کے ایک پٹ پر گرم حمام اور دوسرے
پر خوش امدید لکھا ہوا تھا ۔ یہ دکان پتھر اور گارے سے بنی ہوئی تھی
اندر سے لپائی کر لینے کے بعد اس کی بائیں طرف والی دیوار کے ساتھ دو
آئینے لگا کر ان دونوں کے درمیان ایک بڑی سی فریم میں برات والی کشتی
کی فوٹو لگائی ہوئی تھی جس کے نیچے ایک تسبیح والا ہاتھ اس چیز کو ظاہر
کرتا تھا کہ یہ ہاتھ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ کا ہے ۔ ایک لوک
کہانی کے مطابق یہ وہ کشتی(بیڑا) تھی جس کو بارہ سال بعد ولی اللہ نے
تہہ سمندر سے نکال لایا تھا ۔ یہ فوٹو اس دور میں تقریبا" ہر دکان میں
لگی ہوتی تھی اور اس لیے اقبال عرف کالا حجام نے بھی لگائی ہوئی تھی ۔
دونوں دروازوں کے درمیان ایک ستون نما لکڑی بھی تھی دروازے کے دونوں پٹ
متوازی رکھ کر بند کرنے میں مدد دیتی تھی اس کے ساتھ ایک فٹ لمبا چمڑے
کا ٹکڑا لگا ہوتا تھا جس پر استرا مار کر دھار برابر کی جاتی تھی یہ ان
وقتوں کی بات ہے جب استرے میں بلیڈ نہیں ڈالا جاتا تھا حجام شیو کرتے
کرتے جب یہ محسوس کرتا کہ استرا رکنے لگا ہے یا بال چھوڑنے لگا یے تو
ہاتھ کی ہتھیلی پر یوں استرا مارتا کہ ٹیش ٹوش ٹش کی آواز یوں آتی جیسے
چریاں قینچی لگانے والے پٹھان کے سائیکل سے آتی ہو۔ یوں استرا ہاتھ پر
لگانا ہر نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں تھی بلکہ یوں استرا لگانے والے
کو چوٹی کا کاریگر مانا جاتا تھا ۔ کرسیوں کے آگے ایک پٹھا نما اسٹینڈ
ہوتا تھا جس ہر قینچیاں استرے کنگھے مشین اور وہ بٹی رکھی ہوتی تھی جس
پر استرا تیز کیا جاتا تھا ۔ ٹالکم پوڈر اور تبت سنو کے ساتھ پٹھکڑی
بھی اسی پٹھے کی زینت ہوتی تھی شیونگ کریم کی جگہ صابن کی گول سی ٹکی
ہوتی تھی جو کسی چھوٹے سے ڈبے میں ڈال کر رکھ دی جاتی تھی اسی پر برش
گما گمو کر چہرے پر مار کر داڑھی نرم کی جاتی تھی۔ یہ ساری چیزیں کالا
حجام نے اس کچی سی دکان میں رکھ کر کسی دوسری تیسری جماعت کے لڑکے سے
دروازے کے اوپر گرم حمام لکھوا دیا تھا جبکہ نہ تو وہاں حمام تھا اور
نہ ہی گرم ٹھنڈے کا کوئی انتظام ۔ بہت پرانی بات ہے اس وقت لوگ زیادہ
کام سیپ پر چلایا کرتے تھے ان دونوں بھائیوں نے یہ حمام رکھ لیا تھا کہ
کون مکئی کے گڈھے اٹھاتا پھرے گا بس جو بھی ہو نقدی کی صورت میں ہو پھر
دکان بھی تو ایک مقام رکھتی تھی اور عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی ۔
ویسے یہ دونوں بھائی لاہور کچھ عرصہ رہ کر آئے تھے اس لیے اچھے کاریگر
مانے جاتے تھے ۔ گاہک بھی بس کوئی شوقین قسم کے اور ٹاواں ٹاواں ہوا
کرتے تھے جن میں چودھری صدا حسین چودھری جاقی چیرمین عزیز چودھری ماناں
راجا ولایت راجا زید مستری عبدل اور کوئی ہکا دوکا آتے جاتے فوجی یا
کوئی مسافر ہوا کرتے تھے بلکہ بابی عبداللہ گرداور اور ماسٹر اکبر بھی
مستقل گاہکوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی اس دکان پر نیشنل کمپنی کا تھری
بینڈ ایک ریڈیو بھی ہوتا تھا جس سے خبریں سننے کے لیے بوڑھے بابے صبح
سویرے ہی آ کر بیٹھ جاتے تھے ۔ خبریں ختم ہوتی تو یحیی بختیار کی
کارگردگی پر روشنی ڈالی جاتی۔ خبروں کے دس منٹ بعد ریڈیو السلام آباد
سے راول ڈیم ایک پروگرام چلا کرتا تھا اور یہ پروگرام اس وقت کے مشہور
گلوکار شوکت علی کی آواز میں گانے بھی آن ایر کرتا تھا جس کا ایک گانا
۔۔۔ ماہی میریا نی میری قبر تے اک وار پھیرا پا جاویں بڑا مشہور ہوا
کرتا تھا، (مصنف نے یہ گانا پہلی اور آخری بار یہی سے سنا تھا پھر آج
تک نہ سن سکا)۔
زمانہ سرخاب کے پر لگائے چلتا گیا کچی دکانیں مسمار ہو گئی دکاندار
کہاں سے کہاں چلے گے۔ کالا جی دونوں بھائی سعودی عرب چلے گے بڑے بھائی
صوفی الطاف کچھ عرصہ رہ کر واپس آ گے جب کہ کالا جی تقریبا پچیس تیس
سال خوب جمے رہے حج کی سعادت کے بعد حاجی کالا مشہور ہوئے۔ ویسے ان کا
اور ان کے برادر نسبتی کا ایک ہی نام اور عرف تھا لیکن حاجی ہو جانے سے
پہچان الگ ہو گئی۔
آپ یعنی حاجی کالا نہایت ہی بھلے مانس اور برد بار انسان تھے دکھ درد
کو زندگانی کا حصہ سمجھ کر سہہ جاتے ۔ والدہ کی خدمت کو اولین ترجیح
دیتے گھر کے تمام امور انہی کے سپرد تھے لیکن ایک دن وہ اپنے کالے کو
چھوڑ کر وہاں چلی گئی جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔ حاجی کالے کے لیے یہ
صدمہ کوہ گراں تھا لیکن تقدیر کے آگے تدبیر نہیں تھی۔ ان دنوں میں کالا
جی رخصت پر ہی تھے چہلم سے پہلے بہت ہی فرمانبردار بیوی اور بیٹی کے
ساتھ ماں کی قبر کو لپائی کر رہے تھے بیٹی نے مٹی کے ڈھیلے کو توڑنے کے
لیے رمبی استعمال کی تو کہنے لگے دھیے اے قور(قبر ) مہاڑی مائو(ماں) نی
اے اسنے اپر رمبی نہ مارو۔ بیٹی شرمندہ سی ہو گئی پھر تینوں مٹی ڈال
ڈال کر قبر کو خوبصورتی سے بنانے کی کوشش کرتے لیکن کچھ صحیح نہ کر
پائے تو پاس کھڑی مادر مصنف نے ہاتھ بٹائی کے طور پر قبر کی ڈھلوان
وغیرہ درست کر دی جس پر تینوں نے شکریہ ادا کیا اور والدہ کے لیے دعاے
مغفرت کی استدعا کی دوسرے تیسرے دن کالا جی کو سعودی عرب جانا تھا چلے
گے لیکن جاتے ہوئے ایک اچھا قیمتی سوٹ یہ کہہ کر اپنی زوجہ کو دے گے کے
بووئ (باجی) ہورں کی مہاڑی طرفوں دیہی شوڑے کہ انہاں اس دن بڑی ہمدردی
نال والدہ ہوراں نی قور بنائی سی۔
لاکھوں دکھ لے کر سعودی عرب چلے گے لیکن ہمہ وقت ماں کی یادوں نے اقبال
عرف کالا سے حوصلے چھین لیے اب وہ پہلے سا جری کالا نہ رہا ۔ کہا جاتا
ہے دھواں وہی سے اٹھتا ہے جہاں کچھ جلا ہوتا ہے۔ اب دل بہانے ڈھونڈ
ڈھونڈ کر آنسو بہاتا اور اقبال یادوں کے افق پر پھیلے دھندلکے میں ڈوب
جاتا۔ کہیں بےخیالی میں کوئی چوٹ سی لگی تو ٹیسوں کو بہانہ مل گیا۔ یوں
تو ظاہری طور پر ہاتھ کی ایک انگلی کو درد ہوا جو دھیرے دھیرے کینسر
جیسی موذی بیماری میں بدل گیا۔ روپے پیسے کی فراوانی اور ڈاکٹروں کی
حکمت نے ایک ہی انگلی کاٹ کر اس بیماری کو زیادہ پھیلنے سے روک دیا ۔
لیکن اقبال ہسپتال سے دکھوں کے ساتھ درد بھی لے کر اب پکے گھر کے ہو کر
رہ گے۔ جس چھوٹے سے آنگن میں ماں کی یادیں بسی تھی اب کالا جی صبح و
شام اسی آنگن میں ٹہلتے کہیں اداسی بڑھ جاتی تو حویلی نما دیوار کے
ساتھ کھڑے ہو کر باہر جھانک لیتے کسی آتے جاتے سے حال احوال پوچھتے
حقیت میں غم غلط کرنے کا ایک بہانہ ڈھونڈتے لیکن غم تھے کہ کم ہونے کے
بجائے بڑھتے ہی چلے گے ۔ ماں جی کے جانے کے بعد دکھوں میں روز بروز
اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ایک دن برآمدے میں بیٹھے اس ہاتھ کو دیکھ رہے تھے
جس کی ایک انگلی کٹ چکی تھی دوسرے ہاتھ سے اس ہاتھ کو دبا دبا کر کچھ
سوچ ہی رہے تھے کہ حویلی کا دروازہ کھلا اور بیٹی اندر داخل ہوئی باپ
سے سلام دعا کیے بغیر ہی چھوٹی سی رسوئی میں گئی جہاں سوتیلی ماں( یہ
صرف رشتے کی بنا پر سوتیلی تھی جبکہ اس ماں نے ایک مثال قائم کر دی تھی
کہ لفظ ماں جس کے ساتھ لگتا ہے وہ ماں ہی ہوتی ہے) کچھ پکا رہی تھی پاس
بیٹھ کر گود میں سر رکھ کر کہا خالہ آج سے میں پکی آپ کے پاس آ گئی ہوں
اور ساتھ ہی ایک کاغذ تھما دیا ان پڑھ خالہ کاغذ کا مہفوم سمجھتے ہی
چیخ مار کر برآمدے میں بیٹھے خاوند کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگی آپ کو
پتہ ہے بیناں نے کیا لایا ہے ، وہ اقبال جو پہلے ہی ہاتھ کو کھجلاتے
ہوئے کچھ سوچ رہا تھا ایک ہی لمحے میں بیٹی کے یوں گم سم رسوئی میں
گھسنے کا مہفوم سمجھ کر چارپائی پر ڈھیر ہو گیا آج سہاگن سر سے ننگی
لیکن ہاتھ میں قیامت نما ایک کاغذ تھامے باپ کے آنگن میں داخل ہوئی تھی
جسے لوگ طلاق کہتے ہیں ۔ گھر میں موجودہ افراد میں سے کچھ نے باپ کو
سنبھالا اور کچھ نے بیٹی کو آخر باپ ہی ہمت کر کے اٹھا اور بیٹی کو
سینے سے لگا کر کٹی ہوئی انگلی والے ہاتھ سے دلاسے دے کر میں ہوں نا
میں ہوں نا کہہ کر بیٹی کے آنسوں پونچنے لگا۔
اس قیامت نما کاغذ سے رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی اب آنکھوں کا ناتا ہمہ
وقت آنسوؤں سے جڑ گیا بات بات پر قہقہے لگانے والا کالا خاموشی کا
پرہین پہن کر یوں بیٹھ گیا جیسے ہنسی اس نے دیکھی ہی نہیں تھی۔ ماں کی
جدائی بیٹی کا جوانی میں ہی مطلقہ ہو جانا دونوں ایسے زخم تھے جن کو
وقت مرہم نہ لگا سکا۔ کالا جی بے شمار دکھوں کی بنا پر بستر مرگ کے
قریب سے قریب تر ہوتا گیا اور آخر ایک شام فشار خون یوں بڑھا کہ فالج
کا اٹیک ہوا اور ساتھ ہی دماغ کی ایک شریان پھٹ گئی دکھوں نے مداوے کی
مہلت ہی نہ دی اور یوں کالا جی اس دنیا کو خیر آباد کہہ گے آخری پل کی
بیماری نے سب سے پہلے قوت گویائی چھین لی جس کے باعث شریک حیات سے ہی
اتنا بھی نہ کہہ سکے ________________ میری قبر تے اک وار پھیرا پا
جاویں ۔
|