بال انسانی جسم کا بہت اہم حصہ ہے اور انسانی
خوبصورتی میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری محبوب
کی زلفوں کے گرد خوب گھومتی ہے۔ دورِ جدید میں جہاں اور بہت مسائل نے
جنم لیا ہے وہیں بالوں کی کمزوری اور روکھا پن ہمارے ہاں عام ہیں اور
ان میں مرد و زن کی تخصیص نہیں ہے۔ خواتین کو ان کی فکر بہر حال زیادہ
ہوتی ہے۔ وہ ریشمی' لمبے' گھنے بالوں کی متمنی ہیں۔ تاہم موجودہ غیر
خالص اور کیمیائی اجزاء سے بھرپور خوراک یا کسی بیماری کے باعث ان کے
بال نہیں بڑھ پاتے۔ اگر لمبے ہیں تو گرتے بہت ہیں یا پھر گھنے نہیں
ہیں۔ شیمپو بنانے والی کمپنیوں کی چاندی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے عوام کو
لوٹ رہی ہیں اور عوام بھی بخوشی لٹ رہی ہے۔ عورتیں یہ بھی نہیں سمجھتیں
کہ جتنی لمبی زلفیں ہوں گی، اتنی ہی جوئوں کو رہائشی کالونیاں بنانے
میں آسانی ہو گی۔ واحد معاملہ کہ جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نظر
نہیں آتیں وہ ہے ٹنڈ کے معاملے۔ یہاں عورتیں مردوں کے حقوق کا احترام
کرتی ہیں اور برابری کا تقاضا نہیں کرتیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ مردوں کو کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں مگر وہ اس
معاملے میں غلط ہیں۔ عورتوں کو تو محض عمر چھپانی پڑتی ہے مگر مردوں کو
تنخواہ، توند، پرانے معاشقے، موبائل کی گیلری، لڑکیوں کے نمبروں کے
علاوہ ٹنڈ بھی چھپانی پڑتی ہے سو مردوں کی مشکلات کا اندازہ آپ بخوبی
لگا سکتے ہیں۔ مردوں کا کام ہی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا
ہے سو وہ تنخواہ ومعاشقے کے معاملے میں لب سی لیتے ہیں اور نمبر لڑکیوں
کے رشید پلمبر اور پھجا نائی کے نام سے موبائل میں محفوظ کر لیتے ہیں
مگر توند اور ٹنڈ تو پھر بھی اپنی بہار دکھا کر ہی دم لیتی ہیں۔
وحید مراد مرحوم کا شمار ہماری پسندیدہ شخصیات میں بچپن سے ہی ہوتا ہے۔
ہم ابھی سات سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ وفات پا چکے تھے مگر ان سے
ہماری عقیدت میں کمی نہیں آئی۔ ہم ان کی نقل کرنا چاہتے تھے مگر ان
جیسی زلفیں ہماری نہ تھیں۔ ہم کئی زلف تراشوں کے پاس گئے کہ ہمیں وحید
کٹ کروانا ہے مگر وہ کہتے کہ بھائی اتنے بالوں میں 'وحید مراد' کٹ تو
نہیں ہو سکتا ہاں اگر آپ چاہیں تو ہم 'ببو برال' کٹ کر سکتے ہیں۔ یوں
اک خواہش حسرت میں بدل گئی اور پاکستان کی فلمی صنعت اپنے پیروں پر نہ
کھڑی ہو سکی۔ بالوں کا کیا ذکر کریں۔ اتنے ہیں کہ بال کاٹنے والا کاٹنے
کے بجائے ڈھونڈنے کی اجرت لیتا ہے۔ اور سرپر خالی قطعے یوں بکھرے ہوئے
ہیں جیسے سمندر میں جزیرے۔ سعودی عرب مین جانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ
اب ہم سیدھا سیدھا مشین یا استرا استعمال کرنے کا کہتے ہیں۔ بال بس یہ
سمجھئے کہ ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کے بالوں سے لمبائی میں زیادہ نہیں
ہوتے۔ واقف کار سبھی یہ سمجھتے کہ عمرہ کر کے آیا ہے اور یوں ہم بھی
موجب احترام ہو جاتے ہیں۔ ہم اور یہ مقام اللہ اللہ۔
گنجے پن کا علاج بھی اب آ گیا ہے۔ بال جسم کے کسی حصے سے لے کے اگا
دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وگ بھی مقبول عام ہے۔ خود ہمارے کھلاڑی اور
سیاست دان اس سے خوب مستفید ہوتے ہیں اور عمر بڑھنے کے باوجود ہمارے
سامنے مزید نوجوان بن کے ظاہر ہوتے ہیں تاہم ہمارامعاملہ دیگر ہے۔
ہمارے بال یعنی کہ ہمارے سر پر بال بچپن سے ہی بہت زیادہ نہیں رہے۔ کچھ
اس کی وجوہات موروثی ہیں تو کچھ بچپن میں ہمارے پرنسپل کی قینچی نے بھی
ان کے توسیع پسندانہ عزائم کو بڑھنے سے پہلے ہی قلم کر دیا۔
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
کچھ لوگ ہمیں کہتے بھی ہیں کہ جناب آپ بھی جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ
اٹھائیں اور وحید مراد کٹ کے مزے لیں۔ ہم انھیں ٹال دیتے ہیں کہ نہیں
محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی اور یہ بھی کہ اللہ نے انسان
کوبہترین ترتیب کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہم بال لینے
جائیں اور موجودہ چار بالوں سے بھی جائیں۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی
بھول گیا۔ دراصل ہمیں اپنا یہ گنجاپن بہت عزیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
سنا ہے کہ جوں جوں گنجا پن عروج پر جاتا ہے توں توں ہی گنج(یعنی کہ
خزانہ) کی آمد ہوتی ہے سو ہم اس خزانے کے منتظر ہیں'۔ ہر چیز قربانی
مانگتی ہے تو ہم خزانے کے لئے اپنے ناخنوں کو قربان کرنے پر تیار ہیں۔
پھر بالوں کو معاملہ اور بھی عجیب ہے۔ بال وٹامن ایچ کی کمی سے کم اور
ختم ہوتے ہیں یہ سائنس کہتی ہے۔ اگر سائنس ٹھیک ہے تو اس میں ہم برملا
کہہ سکتے ہیں کہ وٹامن ایچ کی ہم میں کمی نہیں بلکہ افراط ہی ہے۔ ہمارے
بازو، کمر،سینہ ٹانگیں سبھی بالوں سے پر ہیں۔سو وٹامن ایچ کی کمی کا تو
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بس مقام حیرت یہ ہے کہ وٹامن ایچ سارا گردن سے
نیچے ہی کیوں رہ گیاہم کھانے کم مرچوں والے کھاتے ہیں۔۔بالوں کی کمی کا
ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ جب ہمیں کھانے میں زیادہ مرچیں لگتی ہیں تو
ہمارے تمام احباب کو معلوم ہو جاتا ہےکیونکہ مرچیں لگنے پر پسینہ سر سے
بہتا ہے اور کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باعث ماتھے سے گرتا ہے۔ہم مروتاً
پکانے والے کی کوشش کی تعریف کرتے ہیں مگر ہمارا پول یہ پسینہ کھول
دیتا ہے۔
پنجاب میں بلکہ خود ہمارے علاقے میں موچھیں مرد کا زیور سمجھی جاتی
ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو 'مچھ نہیں تے کچھ نہیں' کا ورد بھی کرتے رہتے ہیں۔
ابتدائے جوانی میں ہم نے بھی موچھیں رکھی تھیں اور انھیں ہم اپنی
انگلیوں سے 'وٹ' بھی دیا کرتے تھے۔موچھوں والی ایک تصویر ہمارے پس
موجود ہے کہ جسے دیکھ کر ہم خود سے ہی ڈر جاتے ہیں۔جب ہم شیو کرتے تھے
تو کبھی ہماری ضعفِ بصارت آڑے آ جاتی اور کبھی غسل خانے میں روشنی کی
کمی ہوتی۔کبھی موچھیں پاکستان کے ماضی کے ایک صدر کی مانند ٹیڑھی ہو
جاتی تھیں اور کبھی استاد امانت علی خان مرحوم کی مانند ایک لکیر بنی
ہوتی ناک اور ہونٹوں کے درمیان۔اکثر وہ لکیر بھی ٹیڑھی ہوتی تھی جب ہم
غسل خانے سے باہر آتے توہمیں دیکھ دیکھ کر ہنستے تھے کہ ہم ہر بار ہی
ایک نیا نمونہ بنے ہوتے تھے۔ بار بار کی اس عزت افزائی کا اثر یہ ہوا
بقول فیض
تنگ آکر ہم نے دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
فیض صاحب نے کام اور عشق دونوں کو ادھورا چھوڑا تھا ہم نے دونوں
مونچھوں کو پورا توڑ دیایعنی کہ کلین شیو ہو گئے۔لوگ کسی بھی حال میں
خوش نہیں ہوتے جب کلین شیو ہوئے تو فرمایا کہ یہ کیا چھیلے ہوئے آلو بن
بیٹھے ہو۔۔کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟
ایک بات جو ہمیں پریشان کرتی ہے کہ داڑھی اور مونچھوں کے بال سر کے
بالوں سے اٹھارہ بیس چھوٹے ہونے کے باوجود اکثر سر کے بالوں سے پہلے
سفید ہونا کیوں شروع ہو جاتے ہیں۔
|