فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، یہاں تک پہنچتے
پہنچتے کس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی، نفرتوں کے پودے کس قدر تناور ہوگئے،
عدم برداشت کی کھیتی کتنی ثمر بار ہوگئی، الزام تراشی کا سلسلہ کتنا
طویل ہوگیا۔ یہی نہیں، ابھی تو فیصلہ آنے پر حالات کروٹ لیں گے، فیصلہ
حق میں آنے پر حکومتی خاندان سرخرو ہوگا ، تو مخالفین کا ردّ عمل کیا
ہوگا؟ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو مخالفین جشن منانے کا سوچ رہے
ہیں ، ن لیگ کے کارکن احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ حکمران خاندان
نے ہر قسم کے فیصلے کے لئے خود کو تیار کرنا شروع کردیا ہے، حکومت تو
انہی کی رہے گی، مگر وہ نہیں ہونگے، متبادل وزیراعظم کی تلاش ہے، جس کی
معیاد چند ماہ ہوگی، اور پھر اگلے قومی الیکشن کا نقارہ بج جائے گا۔
فیصلہ تو آنے کو ہے، مگر ہمارے سیاستدان کہ جنہوں نے ملک چلانا ہوتا ہے،
دماغ کی بجائے دل کی بات مان رہے ہیں۔ وطنِ عزیز پر میاں برادران کی
حکومت عشروں پر محیط ہے، خود میاں نواز شریف کا تیسری مرتبہ وزیراعظم
بننا کسی معجزہ سے کم نہ تھا۔ پارٹی قائدین کے مطابق ابھی کم از کم دو
مرتبہ مزید میاں صاحب کی حکومت رہے گی، ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘۔
عوام کی بھاری اکثریت دل گرفتہ ہے، ن لیگ کی حکومت کا مطلب یہی ہے کہ
اسے عوام کا اعتما د حاصل ہے، لوگوں کی اکثریت نے انہیں ووٹ دیا ہے، یہ
لوگ نہ صرف پریشان ہیں، بلکہ جذباتی بھی ہیں۔ ایک خیال یہ پایا جاتا
ہے(کچھ غیر جانبدار لوگ اس تصور کے حامی ہیں) کہ ملک کے اتنے مقبول
حکمرانوں کو کسی قسم کی عدالتی سزا مناسب نہیں، ان کی نااہلی یا کوئی
اور سزا اسی قسم کا عدالتی قتل ہوگا، جس طرح بھٹو کا عدالتی قتل ہوا
تھا، بہت سے جانثاروں نے ایسے فیصلے کو تسلیم کرنے سے پیشگی انکار
کردیا ہے۔ بہت سے لوگ نہیں چاہتے کہ اس قسم کا فیصلہ آئے، کچھ ایسے بھی
ہوتے ہیں، جنہیں کرپشن، جھوٹ یا اسی قسم کی دیگر باتوں پر غصہ بہت آتا
ہے، مگر جب سزا وغیرہ کی نوبت آتی ہے تو پھر ترس آنے لگتا ہے۔ اب وہ
زمانہ نہیں، کہ یکطرفہ فیصلے ہو جائیں، ایک ایک بات میڈیا پر ظاہر ہو
رہی ہے، حتیٰ کہ عدالتِ عظمیٰ کو حکومتی وکیل کو یہ بھی کہنا پڑا کہ
’’آپ تو عدالت کے باہر میڈیا کے سامنے پہلے دلائل دیتے ہیں، عدالت بعد
میں آتے ہیں‘‘۔ ویسے بھی عدالت کے باہر سیاستدان اپنی عدالت لگاتے ہیں،
عدالت عظمیٰ تو فیصلہ جب بھی کرے گی، یہ لوگ ہر روز اپنا اپنا فیصلہ
سناتے ہیں۔ مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اگر شریف خاندان کے
بہت سے معاملات میں تضادات پائے جاتے ہیں، تو اس کا صاف مطلب تو یہی ہے
کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، ورنہ تو معاملہ صاف تھا، نہ کوئی فکر نہ
پریشانی۔
فیصلہ کوئی بھی آئے، جشن یا انتقام کی سیاست کسی طور مناسب نہیں ۔ اگر
خدانخواستہ کوئی فرد کسی معاملے میں ناکام ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ
نہیں کہ اسے طنز اور تنقید کرکر کے رسوا کرنے کی کوشش کی جائے۔ الیکشن
کے موقع پر بھی یہی ہونا چاہیے کہ کامیاب ہونے والے ناکام ہونے والوں
کی حوصلہ افزائی کریں اور ناکام ہونے والے جیتنے والوں کو مبارکباد دیں۔
مگر کیا کیجئے اپنے ہاں برداشت کا تصور ہی نہیں، جیتنے والے اپنی فتح
اور ہارنے والے اپنی شکست دلی طور پر تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
جشن، جلوس اور ریلیوں کا دور چلتا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہارنے
والے بھی کل جیت سکتے ہیں، بے دردی سے انہیں لتاڑا جاتا ہے،انہیں رسوا
کرنے کے لئے پوری توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ یوں جانئے کہ اصل کامیابی
انہی رویوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ بہرحال فیصلہ آنے والا ہے۔ اگر شریف
خاندان کے بیان کردہ اثاثوں وغیرہ میں تضاد کی کہانی ہوئی تو ممکن ہے
ان کے خلاف فیصلہ آجائے۔ اس صورت میں فریقین کو برداشت سے کام لینا
چاہیے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس فرد نے بھی سیاست کرنا ہے، اس
کا دامن صاف ہونا چاہیے، جو لوگ اس وقت میدانِ سیاست میں موجود ہیں، ان
کا احتساب وقت کا تقاضا ہے، تاکہ کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ اب
چونکہ معاملہ وزیراعظم کا ہے، حکومت کو یہ اعتراض بھی ہے کہ دوسروں کا
احتساب کوئی نہیں کرتا۔ ’دوسروں‘ کے احتساب کی ذمہ دار بھی حکومت ہے۔
احتساب سب کا ہر قیمت پر ہونا چاہیے، صرف احتساب، انتقام ہر گز نہیں۔
|