200سے زائد ممالک کی بین الاقوامی نمائدہ تنطیم
اقوام متحدہ (UNO) ہے ، اور اسی تنظیم میں تمام اسلامی ممالک میں
ممبران ہیں ۔ لیکن یہ بدقسمتی بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے کہ آج
تلک اس تنظیم نے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے سنجیدگی سے کوئی
بھی وملی اقدام نہین اٹھایا ہے۔ عیسائیوں کے معاملات ہوں یا یہودیوں کے
، ہندوؤں کے ہوں یا کسی بھی اور رنگ و نسل کے ، اس یو این او نے ہمیشہ
سے منافقت کا مظاہرہ کیا ہے اور آج تلک کسی بھی مسلمانیت کے مسائل کو
حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ چند مخصوص ممالک کو خوش کرنے کیلئے اس
یو این او کے پاس نہ کوئی اصول یا نہ ہی ضوابط ، نہ راستے ہیں اور نہ
ہی متعین راستے ۔ سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ممبرز ہیں کہ جو اپنے
نوعیت کے ، اپنے مفاد و مقاصد کے مطابق ہر معاملے کو حل ہوتے ہوتے یا
پھر نہ حل کرنے کی غرض سے ویٹو کر دیتے ہیں۔ امریکہ ہو یا روس ، چین ،
برطانیہ ہو یا پھر فرانس ہر ملک اپنے ایک بلاک بنائے ممالک پر مہربان
بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی ۔ اپنے مفادات کیلئے یہ ممالک بھی مانفقانہ
کردار اداکرتے ہیں ۔ اپنے اور اپنے حامی ممالک کے مفادات کو مدنظر
رکھتے ہوئے بسا اوقات اسی مقصد کیلئے ویٹو کی پاور استعمال کرتے ہیں
اور بسا اوقات نہیں بھی کرتے۔
کشمیر اور فلسطین سمیت متعدد ایسے مسائل ہیں جو آج تلک سلامتی کونسل
اور اقوام متحدہ نے حل نہیں کئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں انہیں حل ہونے
انہی ویٹو پاور ممالک نے اپنا کردار نفی میں ادا کیا ہے۔ روس بھارت کا
ہم خیال و ہمنوا ہے اسی لئے اس نے آج تلک کشمیر کے مسئلے کو حل ہونے
میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے بھارت کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح فسلطین کا
معاملہ بھی ہے ۔ فلسطین جہاں بیت المقدس ،قبلہ اول موجود ہے اس میں اس
وقت تو حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو نمازوں کی ادائیگی تک سے روک دیا گیا
ہے۔ دو ہفتوں سے وہاں نماز جمعہ تک ادا نہیں کرنے دی گئی ہے۔ لیکن اس
معاملے پر بھی یہ اقوام متحدہ ،یہ سلامتی کونسل خاموش ہے ، کیونکہ وہاں
پر ایک جانب اگر مسلمان ہیں تو دوسری جانب یہودی ہیں اور امریکہ و روس
سمیت فرانس تک یہودیوں کے ظاہرَ اور پس پردہ حمایتی ہیں۔ اسی وجہ سے آج
تک ان رویوں سے کشمیر اور فلسطین کے معاملات حل نہیں ہوئے ۔ ہزاروں
بلکہ لاکھوں انسانوں کا شہادتیں ہوچکی ہیں، ایسے ہی زحمیوں کی تعداد ہے
اور اسے بھی بڑھ کر دیگر مستقل مظالم کا ، انسانیت سوز مظالم کا نہ ختم
ہونے والا سلسلہ ہے جو کہ نصف صدی سے زیادہ مدت گذرنے جانے کے باوجود
تاحال جاری ہے۔ نام نہاد انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی اووز
کیلئے بھی یہ مقام باعث شرم ہے کہ انہوں نے آج تلک ان معاملات پر قدم
کیونکر نہیں اٹھائے ۔ کیوں ان مسائل کو جوں کا توں رہنے دیا ۔ ان کی
انسانیت سوزی ، انسانیت کیلئے احترام کے جذبے کیا یہاں ختم ہوگئے ہیں؟
کیا انہیں مظلوم مسلمان کہیں نظر نہیں آئے یا آتے ہیں ؟ آخر کیونکر
انہوں نے ہمیشہ بے وجہ کی خاموشی اختیار کئے رکھی ہے؟
اس کے ساتھ ہی قابل شرم کا مقام ہے اسلامی ممالک کی تنظیم OICکیلئے بھی
جنہوں نے نام کی تو اسلامی ممالک کیلئے تنظیم بنارکھی ہے لیکن اس کا
کام کچھ بھی نہیں ہے ، صرف نام ہے اور نام کے نام پر بھی یہ اسکے تمام
عہدیداران خاموش ہیں اور خاموشی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔ ان ممالک نے
بھی آج تلک کشمیر اور فلسطین سمیت کسی بھی غیر اسلامی ملک میں مسلمانوں
کے ساتھ ہونے والے مظالم پر کوئی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ جبکہ غیر اسلامی
ممالک یہ بات بخوبی جاتے ہیں کہ اگر ان ممالک نے اپنی خاموشی کو ختم
کیا اور واقعتا عملی اقدامات کی جانب بڑھنا شروع کیا تو پھر ان کا کیا
حال ہوگا؟ اس لئے وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ مسلمان ممالک آپس میں ہی الجھے
رہیں ، ان کے حکمران اپنی حکومتوں کے شور و غل میں دھنسے رہیں اور اپنی
ملک سے باہر دیکھنے کا کسی کو بھی موقع نہ ملے۔ بس اسی بناء پر غیر
مسلم ممالک نے اپنی سازشیں بنااور پھیلا رکھی ہیں اور بڑے اچھے انداز
میں وہ سب اپنے منصوبوں پر کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔
کشمیر یوں کی آواز قیام پاکستان سے تاحال جاری ہے اور یہ آزاد ی کی
آواز جدوجہد آواز اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ اسے اپنے مقاصد میں
کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ گذشتہ برس برہان وانی کی شہادت کے بعد اس سفر
جہاد میں شدت آچکی ہے جس کا اظہار بھارت متعدد بار اپنے انداز میں اور
پاکستان کے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی صورت میں عملاَ کر چکا ہے ۔ بے
جا فائرنگ اور کشمیریوں پھر انسانیت سوز تشدد کے باوجود اقوام متحدہ
اور او آئی سی تک کے کانوں پر کشھ بھی نہیں رینگا ہے۔ قابل شرم اور
قابل مذمت ہے یہ بات ان دونوں اداروں سمیت ان ممالک کیلئے جو انسانیت
کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔ انہیں اس صورتحال
سمیت عام صورتحال میں اپنے ممالک کے مظالم نہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ
ان پر کچھ کہنا یا سننا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ بھی اب اس نقطے کو سمجھ گئے
ہیں کہ بھارت انتہا درجے کا ظالم ہے اور وہ اپنے جیسے ظالم ملکوں کی
مدد حاصل کرکے کشمیریوں کی آواز کو دبانا چاہتا ہے۔ تاہم کشمیری عوا م
کی جانب سے انفرادی و اجتماعی دونوں صورتوں بھارت سے آزادی کا معاملہ
تیزی سے آگے کی جانب بڑھایا جائیگا ۔ اس صورتحال میں جلد وہ وقت وہ
لمحات بھی آجائیں گے کہ جب بھارت صرف کشمیر نہیں بلکہ بھارت میں موجود
تمام علیحدگی کی جماعتوں کو اپنے قابو میں نہیں پائے گا اور یہ بھارت ،
اکھنڈ بھارت کا خواب ہی دیکھتا رہہ جائیگا۔یہ بھارت یہ نہیں رہے گا ،
جس طرح روس کا حال ہوا اس سے بھی بڑھ کر حال اس بھارت کا ہوگا۔ ان شاء
اﷲ
شہر قائد سمیت ملک بھر میں عوام کشمیر ہو یا دنیا کے کسی بھی خطے میں
مسلمانون کے ساتھ رونما ہونے والے مظالم ،ان پر اپنے انداز میں احتجاج
و مذمت ضرور کرتے ہیں۔ اس بات کا بھی علم بھارت سمیت دیگر تمام ان
ملکوں کو ہے جوکہ پاکستان کو اپنے مذموم مقاصدکے حصول کیلئے نقصان
پہنچانا چاہتے ہیں۔ سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم کس قدر
جذباتی قوم ہے۔ شہر قائد میں مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں قابض
اسرائیلی حکومت کی نئی پابندیوں کے خلاف جمعہ کے روز کراچی پریس کلب کے
باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے کا انعقاد اہل کراچی نے
اپنی دینی غیرت و حمیت کے اظہار کے لیے کیا تھا۔ اسی تناظر میں دنیا
بھر کے مسلمانوں سے بھی اپیل کی گئی تھی کہ وہ اسرائیل کی نئی پابندیوں
اور نمازیوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات کے خلاف اپنے اپنے شہروں میں
صدائے احتجاج بلند کریں۔ یو این او اور او آئی سی سمیت دنیا بھر کے
ممالک جانتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر کس قدر مظالم ڈھارکھے ہیں
۔ فلسطینی قوم کی اس اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اہل کراچی نے پریس کلب کے
باہر اس احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔ کراچی پریس کلب کے باہر ہونے
والے اس مظاہرے میں صحافیوں، سماجی کارکنوں، مذہبی تنظیموں کے کارکنان
سمیت عام شہریوں نے بھر پور شرکت کی۔ اس موقع پر مظاہرین نے عالمی
برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی قوم پر غاصب اسرائیلی حکومت کے
مظالم اور مسجد اقصیٰ پر عائد کردہ نئی صہیونی پابندیاں ختم کرانے کے
لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مظاہرین نے مسجد اقصیٰ اور ارض مقدس سے اپنے
دینی رشتے کو اجاگر کرتے ہوئے نعرے بھی لگائے۔اپنے مطالبات کی منظوری
اور اس جانب سب کی توجہ دلانے کیلئے مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے، جن
پر ’لبیک یا اقصیٰ‘ اور ’مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کی ہے و دیگر نعرے
درج تھے اور ان نعروں کا وہاں مظاہرین نے پر انداز میں پرشگاف انداز
میں نعرے لگاکر اظہار بھی کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ مسجداقصیٰ کے باہر قابض اسرائیلی فوج پر کیے
گئے ایک فدائی حملے میں 2صہیونی اہل کاروں کی ہلاکت اور تینوں فلسطینی
فدائین کی شہادت کے بعد اسرائیلی حکومت نے مسجد اقصیٰ کو 2 روز کے لیے
بند کردیا تھا۔ بعد ازاں اتوار کے روز جب مسجد میں اذان اور نماز کی
اجازت دی گئی، تو اس سے قبل حرم قدسی کے تمام دروازوں پر سیکورٹی کے
نام پر اسرائیل نے الیکٹرونک گیٹس، میٹل ڈیٹیکٹرز اور کیمرے نصب کردیے
تھے۔ فلسطینی قوم نے ان اقدامات کو سیکورٹی کے نام پر مسجد اقصیٰ پر
صہیونی تسلط کی سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے اور گزشتہ ایک ہفتے
سے مسجد اقصیٰ کے باہر احتجاج اور دھرنا جاری ہے۔ ان کے اس احتجاج میں
شہر قائد کے شہریوں نے بھر پور انداز میں ان کا ساتھ دیا اور یہ ساتھ
اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اسرائیلی قبلہ اول پر کی جانی والی اس
طرح کی حرکات و سکنات کا خاتمہ نہیں کردیتی۔
وطن عزیز کے تمام ذرائع ابلاغ میں ان دنوں ایک ہی سب کا موضو ع ہے اور
سبھی ٹی وی چینلز واخبارات اس ایک مسئلے کی جانب متوجہ ہیں۔ سپریم کورٹ
میں جاری مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اب قوم کو اس کے فیصلے کا
انتظار ہے تاہم اس سے قطع نظر کشمیر یوں کا بھارت کے خلاف جہاد بھی
جاری ہے اور اسی طرح فیلسطینیوں کی جدوجہد بھی جاری ہے ۔ ان سمیت دین
کیلئے ملک و ملت کیلئے جہاں بھی کاوشیں ہو رہی ہیں وہ جاری و ساری ہیں
اور کامیابیوں تک جاری رہی گی تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سمیت
ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں کشمیر و فلسطین سمیت جہاں کہیں بھی
مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے ، اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان مظالم
کو ختم کرنے کیلئے عمل اقدامات کریں ۔ یو این او کو ایک جانب رکھتے
ہوئے او آئی سی کو ہی جگانے کی کوشش کریں تاکہ اسے بھی اپنی ذمہ داریوں
کا احساس ہو اور وہ کام جو اس نے ابھی تک نہیں کیا تھا اسے وہ پورا
کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور مظلوم مسلمانوں کو انسانیت سوز مظالم سے نجات
دلوائیں ۔ یہ ان کیلئے بہتر ہے اگر وہ اس نقطے کو سمجھیں ۔ |